• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کوئلے کی کانیں، موت کی وادیاں
کوئلے کی ایک کان کا اندرونی منظر

قدرتی آفات کے باعث ہر برس شہر کے شہر صفحۂ ہستی سے مٹ جاتے ہیں اور ہزاروں انسانی جانیں ضایع ہوجاتی ہیں۔ گرچہ کسی بھی قدرتی آفت کو روکنا، انسان کے بس کی بات نہیں، لیکن بہتر حکمتِ عملی، پیشگی اطلاع اور مربوط و منظّم امدادی کارروائیوں سے قدرتی آفات کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کو کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔ دُنیا بَھر میں قدرتی آفات سے ہونے والے نقصانات میں کمی کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں، لیکن پاکستان اُن بد قسمت ممالک میں شامل ہے کہ جہاں روزانہ ہی حادثات کے باعث متعدد انسانی جانیں ضایع ہو جاتی ہیں، لیکن اربابِ بست و کشاد کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ہمارے ہاں ٹریفک حادثات اور آتش زدگی کے نتیجے میں ہونے والی اموات سے متعلق خبریں تو ذرایع ابلاغ کی زینت بنتی رہتی ہیں اور ان واقعات کے تدارک کے دعوے بھی کیے جاتے ہیں، لیکن کوئلے کی اندھی کانوں میں ہلاکتوں جیسے سنجیدہ و دیرینہ مسئلے پر کسی کی توجّہ نہیں۔ متعلقہ اداروں کی غفلت اور مالکان کی بے حسی کے باعث پاکستان میں کوئلے کی کانیں موت کی وادیاں بن چُکی ہیں۔ پاکستان کے بعض علاقوں میں کوئلے کی وسیع و عریض کانیں موجود ہیں، جہاں سے حفاظتی تدابیر اختیار کیے بغیر روایتی طریقوں سے کوئلہ نکالا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں مزدوروں کی ہلاکت معمول بن چُکی ہے۔ صوبہ خیبر پختون خوا کے دور افتادہ ضلعے، شانگلہ کے بیش تر باشندوں کا روزگار کان کنی سے وابستہ ہے اور مُلک میں جہاں کہیں بھی کوئلے کی کان میں کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے، اس کی زد میں شانگلہ کے مزدور ضرور آتے ہیں۔ شانگلہ ایک پس ماندہ پہاڑی علاقہ ہے، جہاں روزگار کے مواقع میسّر نہیں۔ لہٰذا، مقامی باشندے بیرونِ مُلک ملازمت کے علاوہ مُلک کے مختلف حصّوں میں موجود کوئلے کی کانوں میں مزدوری کرتے ہیں۔ گرچہ اس کام میں اُن کی جان کو ہمہ وقت خطرات لاحق رہتے ہیں اور بیماریوں کا اندیشہ بھی لگا رہتا ہے، لیکن شانگلہ کے سخت جان باشندے اپنا جدی پُشتی پیشہ اپنانے پر مجبور ہیں۔

2017ء میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق، ضلع شانگلہ کی کُل آبادی 7لاکھ 75ہزار 810نفوس پر مشتمل ہے اور غیر سرکاری اعداد و شمار سے (سرکاری اعداد و شمار دست یاب نہیں) پتا چلتا ہے کہ ان میں سے 35ہزار افراد کا روزگار کوئلے کی کانوں سے وابستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مُلک کے کسی بھی حصّے میں کوئلے کی کان میں حادثے کی صورت میں شانگلہ کے دیہات میں مزدوروں کی میّتیں ضرور پہنچتی ہیں۔ ایسا ہی ایک افسوس ناک واقعہ 16جولائی 2018ء کو پیش آیا، جسے سانحۂ اخور وال، درۂ آدم خیل قرار دیا گیا۔ اس واقعے میں شانگلہ سے تعلق رکھنے والے 9محنت کش جاں بحق ہوئے۔ تفصیلات کے مطابق، 16جولائی کی صبح 8بجے اخوروال فردوس کول کمپنی کی ایک کان میں میتھین گیس بھرنے سے ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں 9افراد جھلس کر موت کا شکار ہو گئے۔ یہ حادثہ کمپنی کی غفلت کے باعث پیش آیا، لیکن حسبِ روایت کمپنی کے مالکان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ واضح رہے کہ اس واقعے سے تقریباً 5ماہ قبل اسی کان میں 5مزدور جان کی بازی ہار گئے تھے، جس کے بعد اسے کچھ عرصے کے لیے بند کر دیا گیا تھا، لیکن پھر مذکورہ کول کمپنی اور ٹھیکے دار کی ملی بھگت سے غیر قانونی طور پر اس کان کو دوبارہ کھول کر اس میں شانگلہ کے غریب مزدوروں کو اُتارا گیا۔حادثے کے بعد کان میں مزدوری کرنے والے دیگر محنت کشوں نے بتایا کہ آکسیجن کی عدم دست یابی کے سبب یہ حادثہ پیش آیا۔ مزدوروں کے مطابق، کمپنی کا منیجر ایک وقت میں کئی کانوں کی نگرانی کی وجہ سے بر وقت اس کان کو چیک نہ کر سکا اور یوں منیجر اور کول کمپنی کی غفلت و کوتاہی کے باعث 9نوجوان اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے، جن میں ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے 3افراد بھی شامل ہیں۔ 12اگست 2018ء کو کوئٹہ کے قریب واقع ایک کوئلے کی کان میں میتھین گیس جمع ہونے سے ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں 7کان کُن جاں بحق ہو ئے تھے۔ دھماکے کے وقت کان کُن 400فٹ گہرائی میں کام کر رہے تھے، جہاں سے فوری طور پر نکلنا نا ممکن تھا۔ 2جون 2018ء کو کوئٹہ سے 70کلومیٹر کے فاصلے پر واقع، سنجاوی میں دھماکے کے نتیجے میں کوئلے کی کان زمیں بوس ہو گئی، جس کے نتیجے میں 4کان کُن جاں بحق ہو ئے۔ رپورٹ کے مطابق، دھماکے کے وقت 6مزدور کان میں موجود تھے، جن میں سے صرف 2کو زندہ بچایا جا سکا۔ 5مئی 2018ء کو بلوچستان کے علاقے، مروار میں کوئلے کی کان میتھین گیس بھرنے سے ہونے والے زور دار دھماکے کے باعث بیٹھ گئی، جس کے نتیجے میں 23مزدور جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 11زخمی ہوئے، جب کہ مزدوروں کو کان سے نکالنے کے لیے کئی روز تک آپریشن جاری رہا۔

مذکورہ بالا حادثات میں جاں بحق ہونے والے مزدوروں میں سے اکثر کا تعلق شانگلہ ہی سے تھا۔ واضح رہے کہ شانگلہ کی 40فی صد آبادی خطِ غُربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ مفلسی کے باعث اس علاقے سے تعلق رکھنے والے بچّے صرف میٹرک یا انٹر میڈیٹ ہی تک تعلیم حاصل کر پاتے ہیں اور پھر اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کی خاطر حسبِ روایت ’’موت کے کنوئوں‘‘ میں اُتر جاتے ہیں۔ جب مُلک کے مختلف حصّوں سے جواں سال محنت کشوں کی لاشیں شانگلہ لائی جاتی ہیں، تو ہر آنکھ اشک بار ہو جاتی ہے۔ علاقے کی فضا چند روز تک سوگوار رہتی ہے اور پھر مقامی باشندے اپنے معمولاتِ زندگی کی جانب لوٹ جاتے ہیں۔ یعنی کوئلے کی کانوں کا رُخ کر لیتے ہیں کہ ان کا اس کے علاوہ کوئی اور ذریعۂ روزگار ہی نہیں ہے۔ درۂ آدم خیل کی کان میں ہونے والے حادثے کے بعد شانگلہ سے رُکنِ قومی اسمبلی، ڈاکٹر عباد اللہ فوری طور پر جائے حادثہ پر پہنچے۔ انہوں نے بہ ذاتِ خود ریسکیو آپریشن کی نگرانی کی اور میّتوں کے ساتھ اپنے آبائی حلقے میں واپس آئے۔ کان کنوں کی میّتیں شانگلہ پہنچنے پر لواحقین نے انہیں سڑک پر رکھ کر شدید احتجاج کیا، تو پاکستان تحریکِ انصاف کے صوبائی ترجمان اور شانگلہ سے رُکنِ صوبائی اسمبلی، شوکت یوسف زئی اور ڈاکٹر عباد اللہ سمیت دیگر مشران نے انہیں احتجاج ختم کرنے پر آمادہ کیا۔ درۂ آدم خیل میں کان بیٹھنے کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والوں میں 2سگے بھائی اور ان کا بھتیجا بھی شامل تھا۔ حادثے کا شکار ہونے والے نوجوانوں کی عُمریں 14سے 28کے برس کے درمیان تھیں اور ان میں فرمان علی نامی گریجویٹ بھی شامل تھا، جو بے روزگاری کے باعث کان کنی جیسا خطرناک پیشہ اپنانےپر مجبور ہوا۔

کوئلے کی کانیں، موت کی وادیاں
کان میں جاں بحق ہونے والے ایک محنت کش کی لاش باہر نکالی جارہی ہے

ایک اندازے کے مطابق، اس وقت مُلک بَھر میں موجود کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں میں سے 65فی صد اور بلوچستان کی کانوں میں کام کرنے والے 80فی صد کان کُن شانگلہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان مزدوروں کے نام پر کوئٹہ، پشاور، مردان اور سوات میں تو کالونیاں قائم ہیں، لیکن ان کے آبائی علاقے میں تا حال کوئی لیبر کالونی اور تعلیم و صحت کی سہولتیں موجود نہیں۔ ان کان کنوں کے معاوضے کے حوالے سے بھی کوئی خاطر خواہ پالیسی نہیں بنائی گئی اور نہ ہی ان کی رجسٹریشن کا کوئی بندوبست کیا گیا ہے۔ شانگلہ ہی سے تعلق رکھنے والے بلال نامی کان کن نے گفتگو کے دوران بتایا کہ ’’کوئلے کی کانوں میں کسی قسم کے حفاظتی انتظامات نہیں کیے جاتے، حالاں کہ ہزاروں فٹ گہری کان میں کسی بھی وقت حادثہ رُونما ہو سکتا ہے۔ اسی طرح پتّھر پر کاری ضرب لگنے کے نتیجے میں کسی بھی وقت میتھین گیس خارج ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ کان مالکان ،مزدوروں کے لیے علاج معالجے کی سہولتوں کا بندوبست نہیں کرتے اور نہ ہی کوئی اور سہولت فراہم کرنے پر آمادہ ہیں۔ شانگلہ میں تعلیم و روزگار کی سہولتیں میسّر نہ ہونے کی وجہ سے ہم مجبوراً اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کر اپنے کم سِن بچّوں کے ساتھ کانوں میں جاتے ہیں۔‘‘ بلال نے مزید بتایا کہ ’’کان بیٹھنے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے مزدوروں کے لواحقین کو صرف 2،2لاکھ روپے ملتے ہیں اور اس کے حصول کے لیے بھی انہیں ضلعی انتظامیہ کے دفاتر کے کئی چکر کاٹنے پڑتے ہیں، جب کہ ان واقعات پر حکومت، این جی اوز اور انسانی حقوق کی تنظیمیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ شانگلہ کے غریب محنت کشوں کو ان کے جائز حقوق دلانے کے لیے قانون تو موجود ہے، مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ اکیسویں صدی میں بھی ہم محنت کش اپنے جائز حقوق سے محروم ہیں اور نام نہاد مزدور یونین، مقامی کمپنیز، ٹھیکے داروں اور مالکان کی ملی بھگت سے ہمارے خون پسینے کی کمائی ہڑپ کر جاتی ہے۔ ہر ایک مزدور کی اُجرت سے فلاح و بہبود کے نام پر کٹوتی کی جاتی ہے، لیکن جب 60برس کی عُمر میں پینشن لینے کا وقت آتا ہے، تو اس میں بھی روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔ چند ہزار روپے کی خاطر عُمر رسیدہ مزدوروں کو، جو کانوں میں کام کرنے کی وجہ سے مختلف امراض میں مبتلا ہوچُکے ہوتے ہیں، متعلقہ حُکّام کے دفاتر کے چکر لگانا پڑتے ہیں ، جہاں رشوت کے لیے انہیں بے جا تنگ کیا جاتا ہے۔ سیکڑوں کان کن ایسے بھی ہیں کہ جو کام کے دوران ریڑھ کی ہڈی ٹوٹنے کی وجہ سے زندوں میں شمار ہوتے ہیں نہ مُردوں میں اور اکثر پھیپھڑوں، گُردوں اور جگر کی بیماریوں سمیت کئی مُہلک بیماریوں کا شکار ہیں، لیکن ان کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کوئلے کی صنعت مُلکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، اگر ایسا ہے، تو پھر کان کنوں کے ساتھ اس قدر ناروا سلوک کیوں کیا جاتا ہے۔‘‘

شانگلہ سے تعلق رکھنے والے کان کنوں کے عدم تحفّظ پر عوامی حلقوں نے چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس میاں ثاقب نثار سے از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئلہ کی کانوں میں رونما ہونے والے حادثات کی وجوہ جاننے کے لیے اعلیٰ سطح کا کمیشن تشکیل دینے کے ساتھ کان کنوں کے معاوضوں کا تعیّن کرنے کے لیے بھی طریقۂ کار وضع کیا جائے۔

کوئلے کی کانیں، موت کی وادیاں
شانگلہ سے تعلق رکھنے والے کم سن بچے خظرناک پیشہ اپنانے پر مجبور

’’مائن ایکٹ 1923ء‘‘ پر عمل درآمد سے حادثات کم ہو سکتے ہیں

انگریزوں نے 1923ء میں ایک ’’مائن ایکٹ‘‘ بنایا تھا۔ یہ قانون کم و بیش ایک صدی بعد بھی اپنی اصل شکل میں برقرار ہے، لیکن اس پر پوری طرح عمل درآمد نہیں ہوتا۔ مذکورہ ایکٹ کے تحت، کان کا داخلی راستہ 6X7فٹ چوڑا ہونا چاہیے، لیکن رقم بچانے کی خاطر اس بات کا خیال نہیں رکھا جاتا اور نیچے جاتے جاتے یہ راستہ تنگ سے تنگ ہوتا چلا جاتا ہے۔ کان میں تازہ ہوا کے داخلے اور ہنگامی اخراج کے لیے بھی راستہ ضروری ہے، لیکن پیسے بچانے کے لیے متبادل راستہ بھی نہیں بنایا جاتا۔ قانون کے تحت، کان کی چھت اور ڈھانچے کو سہارا دینے کے لیے کیکر کی مضبوط لکڑی استعمال کی جانی چاہیے، لیکن اب اس مقصد کے لیے سفیدے کی سَستی اور ناکارہ لکڑی استعمال کی جاتی ہے، جو معمولی سے جھٹکے ہی سے ٹوٹ جاتی ہے اور نتیجتاً پوری کان منہدم ہو جاتی ہے۔ مائن ایکٹ کی رُو سے ہر کان کے قریب ایمبولینس، ڈسپنسری اور کوالیفائیڈ ڈاکٹر کی موجودگی اور کان کنوں کے لیے پینے کے صاف پانی کی دست یابی ضروری ہے، لیکن قانون کی اس شِق پر بھی عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ قانون کے تحت، کان کُن 8گھنٹے سے زیادہ کام نہیں کر سکتا، لیکن ان سے 10سے 12گھنٹے تک کام لیا جاتا ہے اور اوور ٹائم بھی نہیں دیا جاتا۔ اسی طرح کان کنوں کی صحت، حفاظت اور اوقاتِ کار وغیرہ کے لیے بھی اصول و ضوابط طے کیے گئے ہیں، لیکن ان پر بھی عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔

کوئلے کے ذخائر کے اعتبار سے پاکستان دُنیا کا ساتواں بڑا مُلک

پاکستان کوئلے کے ذخائر کے لحاظ سے دُنیا کا ساتواں بڑا مُلک ہے ، جب کہ کوئلے کی سب سے بڑی کان، نارتھ اینٹی لوپ روشیل مائن ہے، جو امریکی ریاست، ویومنگ میں واقع ہے۔ اس کان میں 2ارب 30کروڑ ٹن کوئلہ موجود ہے اور یہاں سے ہر سال 10کروڑ ٹن کوئلہ نکالا جاتا ہے۔ اس کان کا رقبہ 250مربّع کلو میٹر ہے۔ کوئلے کی دوسری بڑی کان، ہائرو وسومائن چین میں واقع ہے۔ اس کان میں ایک ارب 70کروڑ ٹن کوئلہ موجود ہے، جب کہ اس سے 2کروڑ ٹن سالانہ کوئلہ نکالا جا رہا ہے۔ اس کان کا رقبہ 67مربّع کلو میٹر ہے۔ اس کے علاوہ آسٹریلیا، کولمبیا، انڈونیشیا، موزمبیق، رُوس اور جنوبی افریقا میں بھی کوئلے کی بڑی بڑی کانیں موجود ہیں۔ اگر پاکستان کی بات کی جائے، تو اس کے چاروں صوبوں میں 185.175ارب ٹن کے وسیع ذخائر موجود ہیں اور بلوچستان کے پہاڑوں سے نکلنے والے کوئلے کا شمار بہترین کوئلے میں ہوتا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، بلوچستان کے علاقے، چملانگ میں کوئلے کا 60کلو میٹر طویل اور 20کلو میٹر وسیع ذخیرہ موجود ہے ، جس کی مالیت اربوں روپے ہے۔

کان کنوں کے اہم مسائل

حفاظتی آلات کی عدم دست یابی، سیفٹی کمیٹی کی عدم تشکیل ،آگہی پروگرامزکا انعقاد نہ ہونا،

8ماہ کے دوران 97کان کن جاں بحق ہوئے، سلطان محمد خان

’’پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن‘‘ کے جنرل سیکریٹری، سلطان محمد خان نے ’’جنگ‘‘ کو بتایا کہ ’’کوئلے کی کانوں میں حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے باعث ہر سال سیکڑوں کان کن اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور رواں سال کے ابتدائی 8ماہ کے دوران 97کان کُن جاں بحق ہو چُکے ہیں۔ ان ہلاکتوں کا سبب عموماً کوئلے کے حصول کے لیے کیے جانے والے بلاسٹ کے بعد میتھین گیس کا کان میں بَھر جانا یا کان کا منہدم ہوجانا ہوتا ہے۔ اس وقت مُلک بَھر میں موجود کوئلے کی کانوں میں ایک لاکھ سے زاید مزدور کام کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں کوئلے کی تقریباً 400کانیں موجود ہیں، جہاں 13سے 34برس کی عُمر کے کم و بیش ایک لاکھ کان کن کام کرتے ہیں، جب کہ صوبائی سطح پر قائم مائن ڈیپارٹمنٹ میں صرف 12ہزار کان کن رجسٹرڈ ہیں۔ یہ کانیں ہرنائی، سورنج، ڈکی، مچھ اور چملانگ وغیرہ میں واقع ہیں۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں سلطان محمد خان نے بتایا کہ ’’کان کن انتہائی ناقص اور غیر انسانی ماحول میں 16سے 18گھنٹے کام کرنے پر مجبور ہیں اور روزانہ ہی کوئی نہ کوئی کان کن جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، لیکن ان واقعات کو چُھپایا جاتا ہے اور کان کے مالکان لواحقین کے ہاتھ پر 50ہزار روپے رکھ کر انہیں خاموش کروا دیتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کانوں میں ہلاک ہونے والے مزدوروں کی اصل تعداد دست یاب اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔‘‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’’چُوں کہ کان میں کام کرنے والے بیش تر مزدوروں کی رجسٹریشن نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کی حاضری کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جاتا ہے، لہٰذا کسی کو بھی کان میں کام کرنے والوں مزدوروں کی صحیح تعداد کا علم نہیں ہوتا۔ 2011ء میں پی ایم ڈی سی میں پوری کان بیٹھ گئی تھی اور کسی کو اندر موجود کان کنوں کی صحیح تعداد کا علم نہیں تھا۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ کان کے اندر 12مزدور ہیں، تو کوئی اُن کی تعداد 15بتا رہا تھا، لیکن کھدائی کے بعد پتا چلا کہ اُس کان میں 43افراد موجود تھے۔‘‘ پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے جنرل سیکریٹری کے مطابق، ’’عموماً کان کا مالک، پہاڑ اپنے نام الاٹ کروا لیتا ہے، لیکن کان کسی ٹھیکے دار کے حوالے کر دیتا ہے اور یہ ٹھیکے دار اسے دوسرے ٹھیکے دار کو سونپ دیتا ہے۔ چوں کہ ان ٹھیکے داروں کو کان کنوں کی جان سے زیادہ پیسہ کمانے کی فکر ہوتی ہے، لہٰذا یہ کسی قسم کے حفاظتی انتظامات نہیں کرتے۔ البتہ اگر مالکان اپنی نگرانی میں کام کروائیں، تو شاید صورتِ حال اتنی بدتر نہ ہو۔‘‘ ایک اور سوال کے جواب میں سلطان محمد خان نے بتایا کہ ’’ایک المیہ یہ بھی ہے کہ بلوچستان میں کوئلہ نکالنے کا آغاز 1873ء میں ہوا، لیکن ابھی تک اُسی قدیم انداز ہی سے کان کنی جاری ہے۔ بلوچستان سے سالانہ 20ہزار ٹن کوئلہ نکالا جاتا ہے۔ جدید آلات نہ ہونے کے باعث مزدوروں کو محنت بھی زیادہ کرنی پڑتی ہے اور جان کو خطرہ الگ رہتا ہے۔ کوئلے کی یہ کانیں ایک ہزار فٹ سے لے کر 5ہزار فٹ تک گہری ہوتی ہیں۔ محکمۂ معدنیات، بلوچستان نے ایسی 140 کانیں بند کرنے کے احکامات جاری کیے تھے، مگر مالکان کے با اثر ہونے کی وجہ سے بیش تر کانیں بند نہ ہو سکیں۔ ان حالات میں ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے کنونشن C-176کی توثیق کی جائے کہ یہ مزدوروں کی صحت و سلامتی کا ضامن ہے اور اس پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔ بلوچستان کے کان کنوں کی حق تلفی کا سلسلہ روکا جائے اور دیگر صوبوں کی طرح کسی مزدور کی ہلاکت پر اس کے ورثا کو 5لاکھ روپے دیے جائیں۔ نیز، چُوں کہ بیش تر کان کن 60برس کی عُمر تک پہنچنے سے پہلے ہی انتقال کر جاتے ہیں، لہٰذا کم از کم اُن کے لواحقین کو اُن کی موت کے بعد ہی سے پینشن ضرور ادا کی جائے۔

کوئلے کی کانیں، موت کی وادیاں
مزدوروں کو کان میں اُتارا جارہا ہے

کان کنوں کے تحفّظ کے لیےمؤثر قانون سازی کی جائے گی، شوکت یوسف زئی

خیبر پختون خوا حکومت کے ترجمان اور شانگلہ سے منتخب رُکنِ صوبائی اسمبلی، شوکت یوسف زئی نے رابطہ کرنے پر ’’جنگ‘‘ کو بتایا کہ ’’چُوں کہ ماضی میں ضلع شانگلہ کو پس ماندہ رکھا گیا، لہٰذا تعلیم اور روزگار کے مواقع موجود نہ ہونے کی وجہ سے 35ہزارمقامی افراد کا روزگار کوئلے کی کانوں سے وابستہ ہے۔البتہ اب صوبائی حکومت نے شانگلہ میں سیّاحت کو فروغ دینے کا فیصلہ کیا ہے، تاکہ مقامی افراد کو روزگار کے دیگر ذرایع میسّر آسکیں ۔ تعلیم کی سہولتیں نہ ہونے اور غُربت کے باعث بچّے بھی کان کنی جیسے خطرناک کام کو بہ طور پیشہ اپنانے پر مجبور ہیں کہ اُن کے آبائو اجداد بھی اسی پیشے سے وابستہ تھے، جب کہ ٹھیکے داروں کی اکثریت کا تعلق بھی شانگلہ ہی سے ہے۔ ایک ٹن کوئلہ نکالنے پر مزدور کو 700سے 1100روپے مزدوری ملتی ہے، جبکہ ٹھیکے دار ایک ٹن کوئلہ مارکیٹ میں 13ہزار روپے میں فروخت کرتا ہے۔‘‘ درۂ آدم خیل میں رونما ہونے والے افسوس ناک واقعے پر شوکت یوسف زئی کا کہنا تھا کہ ’’اس واقعے سے قبل مَیں نے کان کنی کے حوالے سے قانون سازی کے لیے خیبر پختون خوا اسمبلی میں ایک قرار داد جمع کروائی تھی۔ دوبارہ رُکنِ اسمبلی منتخب ہونے کے بعد مَیں نے اس سنگین مسئلے کو وزیرِ اعظم، عمران خان اور وزیرِ اعلیٰ خیبر پختون خوا، محمود خان کے سامنے اُٹھایا ہے اور دونوں نے فوری طور پر قانون سازی پر اتفاق کیا ہے۔ وزیرِ اعلیٰ نے صوبے میں غیر قانونی کانیں بند کرنے، مزدوروں کی اُجرت بڑھانے اور کان کھولنے کے عمل کو انسپکٹر کی رپورٹ سے مشروط کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تاکہ آیندہ کوئی ناخوش گوار واقعہ رونما نہ ہو۔ اسمبلی میں پیش کی گئی قرار داد میں مزدوروں کی لائف انشورنس، اُجرت کا تعیّن، سیف مائننگ اور انسپکٹر کو ذمّے دار ٹھہرانا شامل ہے۔‘‘ رُکنِ صوبائی اسمبلی کا مزید کہنا تھا کہ ’’سرکاری انسپکٹرز، ٹھیکے داروں کے کہنے پر کانوں کا دورہ نہیں کرتے، جس کے نتیجے میں حادثات رونما ہوتے ہیں۔ تاہم، اب انہیں کان کنی سے قبل تحریری طور پر لکھ کر دینا ہو گا کہ کان کی حالت تسلّی بخش ہے اور اس کی انسپکشن کے دوران تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے ہیں۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ’’ستم ظریفی یہ ہے کہ کان کنوں کی اکثریت ٹی بی سمیت پھیپھڑوں کے دیگر امراض میں مبتلا ہے، جب کہ بعض ریڑھ کی ہڈی ٹوٹنے کے باعث عُمر بھر کے لیے معذور ہو چُکے ہیں۔‘‘

تازہ ترین