• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج ہم اور آپ، جہاں کہیں ہیں اور جس مقام پر ہیں، اعلیٰ حیثیت کے مالک ہیں یا اوسط درجے پر ہیں، کلرک ہیں یا افسر، صحافی ہیں، وکیل ہیں، ڈاکٹر ہیں، انجینئر ہیں، سائنس دان ہیں، جنرل ہیں یا سپاہی، خلا باز ہیں، پائلٹ ہیں، ہر کسی نے یہ مقام اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر حاصل کیا۔ لیکن ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ یہ صلاحیتیں ہمارے اندر خود بہ خود پیدا ہوئی تھیں یا ان صلاحیتوں کو پیدا کرنے اور انہیں پروان چڑھانے میں کوئی ہمارا معاون یا مددگار بنا تھا۔ اگر کسی نے ہماری مدد کی تھی اور ہماری انگلی پکڑ کر زندگی کے کٹھن راستوں پر لے کر چلا تھا، تو وہ کون تھا؟ زندگی کے اوراق پلٹتے پلٹتے اگر آپ اس صفحے تک جا پہنچیں، جب آپ ایک شیر خوار بچّے کی صُورت ماں کی گود میں تھے، پھر آپ جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے، والدین نے آپ کی تربیت کی، زندگی کے آداب سکھائے، تہذیب و اخلاق سے آشنا کیا، پھر وہ وقت آیا، جب آپ کو کسی اسکول یا مدرسے میں داخل کروا دیا گیا۔ ٹیچر یا استاد نے آپ کی انگلی پکڑی، کتاب یا قاعدے پر رکھ کر کہا’’ یہ Aہے، یہ الف ہے‘‘، یہ آپ کی زندگی کا پہلا سبق تھا، آپ نے اپنی توتلی زبان میں یہ الفاظ ادا کیے۔ آج ٓآپ فور اسٹار جنرل ہیں یا گریڈ بائیس کے کوئی توپ افسر، مُلک کے وزیرِ اعظم ہیں یا کسی صوبے کے گورنر یا دن بھر فائلز میں سر کھپانے والے کوئی معمولی کلرک، تو جناب! اس مقام تک پہنچنے کی ابتدا اسی الف یا اے سے ہوئی تھی، وہ فرد جس نے ان الفاظ سے آپ کو آشنا کیا اور پھر سبقاً سبقاً آگے لے کر چلا، وہ مرد تھا یا عورت، اس کی حیثیت استاد کی تھی، کیا آپ کو اپنی زندگی کے اس پہلے استاد کی شکل یاد ہے، شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو، جس نے اپنے پہلے استاد کی شکل یاد رکھی ہو، پہلے استاد کے بعد آپ کی اور ہماری زندگی میں ایک کے بعد ایک استاد آتا چلا گیا۔ یہ صرف ہماری نہیں، دنیا کے ہر پڑھے لکھے، تعلیم یافتہ فرد کی کہانی ہے، ہاں ایک بات اور، وہ شخص جس نے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا، جو حروف سے آشنا نہیں، دست خط کی جگہ انگوٹھا ثبت کرتا ہے، وہ بھی’’استاد ‘‘سے محروم نہیں رہا۔ زندگی کے کسی شعبے کو دیکھ لیں، ہر جگہ استاد موجود ہو گا۔ ہنرمندوں، کاری گروں اور مزدوروں تک میں استاد ملے گا، یہاں تک کہ جیب کتروں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کا بھی استاد ہو گا۔ لیکن استاد اور شاگرد کا رشتہ اگر کہیں محترم اور مقدّس ہے، تو صرف علم کی دنیا میں، کتاب سے ہمارا رشتہ، تعلق جوڑنے والا فرد ہی اصل استاد ہے، لیکن صد افسوس، ہمارے معاشرے میں استاد اپنا وقار اور عظمت کھو بیٹھا ہے۔ جو اساتدہ اپنے شاگردوں میں علم کا جذبہ پھونکتے تھے، اخلاقی اقدار پروان چڑھاتے تھے۔ کردار سازی پر توجّہ دیتے تھے۔ آج نظر نہیں آتے۔ آج کا استاد صرف اپنی تن خواہ اور دیگر مراعات تک محدود ہے۔ اکبر الہ آبادی نے ایک صدی پہلے کہا تھا؎

وہ دن گئے کہ خدمتِ استاد کے عوض

جی چاہتا کہ ہدیۂ دِل پیش کیجیے

بدلا زمانہ ایسا کہ ٹرکا پس از سبق

کہتا ہے ماسٹر سے کہ بِل پیش کیجیے

اس میں شک نہیں، زمانے کی کروٹوں کے ساتھ ساتھ علم و تدریس اب جنسِ تجارت بن چکی ہے، خصوصاً ہمارے مُلک میں گزشتہ ساٹھ ستّر سال کے دَوران تعلیم کا جو حشر ہوا ہے۔ اس کا نوحہ لکھنے کے لیے ہزاروں صفحات درکار ہوں گے۔ اصل المیہ یہ ہے کہ ہم ایسا نظامِ تعلیم وضع کرنے میں ناکام رہے ہیں، جس میں ایک استاد پورے صمیمِ قلب کے ساتھ، اطمینان اور یک سوئی سے نئی نسل تک اپنا علم مسنتقل کر سکے۔ تعلیم کا بنیادی مقصد اخلاق اور کردار کے حوالے سے شخصیت سازی ہے، مگر ہمارے نظامِ تعلیم اور نصاب میں اسے نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ ہمارے نظامِ تعلیم میں استاد اور شاگرد کے درمیان مثالی تعلق کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی، اس کی جگہ طلبہ اور اساتذہ کے درمیان کش مکش اور حریفانہ جذبوں کے مظاہر ملتے ہیں۔ آج کا استاد، طلبہ سے لاتعلق ہو کر میکانکی انداز اختیار کرتا ہے۔ اسے اس بات سے کوئی دل چسپی نہیں ہوتی کہ کلاس روم میں موجود طلبہ کے سماجی اور معاشی مسائل کیا ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کچھ اساتذہ اپنے طلبہ کے بارے میں ذاتی پسند ناپسند کا رویّہ اختیار کرتے ہیں جب کہ ایک اچھا استاد وہی ہے،جس کا عمل و کردار تمام طلبہ کے لیے یک ساں ہو، بنیادی طور پر تعلیم کا شعبہ، ایثار طلب پیشہ ہے۔ جس میں خلوص اور تقدیس کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے اس میں ان ہی افراد کی گنجائش نکلتی ہے، جن میں بے لوث خدمت، ایثار و قربانی کی صلاحیت ہو۔ جو مادیت سے بالا تر ہو کر خدمات انجام دے سکیں۔ دوسری جانب ایک طالبِ علم، صرف ایک بچّہ یا نوجوان ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ مستقبل کا معمار اور قوم کی امنگوں کا نمائندہ بھی ہوتا ہے۔ جسے ایک اچھے استاد کی تدریس، ایک بہتر زندگی سے روشناس کروا سکتی ہے۔ لہٰذا ایک قوم کی ترقّی اور تقدیر، استاد کے ہاتھ میں ہوتی ہے، چاہے تو تراش کر ہیرا بنا دے یا راہ کا پتھر۔ یہی وجہ ہے کہ سمجھ دار قوموں میں ایک استاد کا انتخاب کڑی شرائط کے تحت کیا جاتا ہے۔ اگر ہمیں معاشرے کو ترقّی کی راہ پر گام زن کرنا ہے، تو استاد کو قوم کے معمار کا درجہ دینا ہو گا۔ ہر میدان میں کام یابی کے لیے تعلیمی اداروں اور اساتذہ کے کردار کو اہمیت دینی ہو گی۔ ایک طاقت ور قوم بننے کے لیے طاقت ور فوج اور بہترین ہتھیاروں کی ضرورت نہیں ہوتی، اصل قوّت تو تعلیم یافتہ نوجوان ہوتے ہیں۔

اقوامِ متحدہ نے 1994ء سے اساتذہ کی اہمیت اور ان کے کردار کو واضح کرنے کی غرض سے5اکتوبر کو ’’عالمی یومِ استاد‘‘ کے طور پر منانے کا آغاز کیا تھا، جو اس امر کا اعتراف تھا کہ دنیا کی تمام تر ترقّی اساتذہ کی رہینِ منّت ہے، خصوصاً سائنس اور ٹیکنالوجی کی ساری ترقّی میں اساتذہ کا کردار اہم ہے۔ عالمی یوم کےحوالے سے جب ہم اپنے وطنِ عزیز میں تعلیمی شعبے اور اساتذہ کے کردار کا جائزہ لیتے ہیں، تو انتہائی مایوس کن صورت نظر آتی ہے، خصوصاً پرائمری تعلیم کا شعبہ نہایت زبوں حالی کا شکار ہے۔ حالاں کہ پرائمری تعلیم ہمارے تعلیمی نظام کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، لیکن اسی کو سب سے زیادہ نظر انداز کیا جاتا ہے۔ سیاسی کارکنوں کو نوازنے کے لیے اُنہیں پرائمری ٹیچرز بھرتی کر لیا جاتا ہے۔ اُن میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ایک جملہ بھی صحیح طور پر ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ برس ہا برس سے پرائمری ٹیچر کی تعلیمی قابلیت کم از کم میٹرک چلی آ رہی ہے۔

ایک ایسے زمانے میں جب بچّے، بڑوں سے زیادہ سمجھ دار، ذہین اور معلومات کے زیادہ ذرائع رکھتے ہیں، ان کی ابتدائی تعلیم کے لیے زیادہ تعلیمی قابلیت کے حامل اساتذہ کا ہونا ضروری ہے۔ سرکاری پرائمری اسکولز میں میٹرک پاس اساتذہ کے ذریعے ہم ایک نسل کو بگاڑ سکتے ہیں، اُنہیں معاشرے کا عضوِ معطّل بناسکتے ہیں، لیکن مستقبل کے معمار پیدا نہیں کرسکتے۔ یہی وہ بنیادی خامی ہے، جس کی وجہ سے گلی گلی اسّی اسّی گز کے رقبے پر بنے مکانات میں نام نہاد انگلش میڈیم اسکول وجود میں آگئے ہیں، جو والدین سے بھاری فیسیز وصول کرتے ہیں، لیکن انٹر پاس لڑکیوں کو ٹیچر رکھ کر صرف دو، تین ہزار روپے ماہانہ تن خواہ پر ٹرخا دیتے ہیں۔ آج آپ پرائمری کے کسی بھی طالبِ علم سے پوچھ لیجیے، کوئی ٹیچر اس کی آئیڈیل شخصیت نہیں ہوگی۔ یہی حال سیکنڈری اور کالجز کی سطح پر ہے۔ ماضی میں اساتذہ کی تن خواہیں کم تھیں، مگر معاشرے میں اُن کا ادب و احترام بہت تھا، لیکن اب معاملہ اس کے برعکس ہوگیا ہے۔ تعلیم، کاروبار ہی نہیں، اعلیٰ درجے کی نفع بخش صنعت بن چُکی ہے۔ بڑے صنعتی اداروں نے یونی ورسٹیز، میڈیکل، انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی انسٹی ٹیوٹ قائم کرلیے ہیں، جہاں فی طالب علم پندرہ، پندرہ لاکھ روپے سالانہ وصول کرنا، عام سی بات ہے۔

تعلیم کا مقصد صرف علومِ جدید سے آگاہی فراہم کرنا نہیں ہے، بلکہ تعلیم کا حقیقی مقصد یہ ہے کہ طلبہ کو اخلاق و تہذیب سے آراستہ کرکے اُنہیں معاشرے کا کارآمد فرد بنایا جائے۔ ایک اچھا استاد معلّم ہونے کے علاوہ مربّی اور سرپرست کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ اس حیثیت سے وہ اپنے طلبہ میں بھی اچھی عادات پروان چڑھانے کا ذمّے دار ہے۔ وہ تعلیم کے ساتھ غلطیوں پر ٹوکنے اور تنبیہ کرنے کا حق رکھتا ہے، لیکن اس معاملے میں بسا اوقات انتہائی غلط رویّے دیکھنے میں آتے ہیں۔ اکثر والدین استاد کی جانب سے مارپیٹ برداشت نہیں کرتے، دوسری جانب استاد بھی حد سے گزر کر اپنے شاگردوں کو ایسی سزا دیتے ہیں، جو اذیت کے زمرے میں آتی ہے۔ ایک اچھا استاد وہی ہے، جو اپنے طلبہ کی غلطیوں پر جسمانی سزا کے بجائے اصلاح کے دیگر ذرائع اختیار کرے۔ نیز، وہ اس بات سے واقف ہو کہ ہر غلطی پر سزا نہیں دی جاسکتی اور کبھی سزا دینا ناگزیر ہوجائے، تو کس حد تک سزا دی جائے۔ ترقّی یافتہ مُلکوں کے اسکولز میں ایک ماہرِ نفسیات کا ہونا لازمی ہے، جو بچّوں کی عادات اور نفسیات کو مدّ ِنظر رکھتے ہوئے ان سزائوں کا تعیّن کرتا ہے، مگر ہمارے مُلک کے پرائمری اور سیکنڈری اسکولز میں جسمانی سزا ہی کے ذریعے طلبہ کی اصلاح پر زور دیا جاتا ہے۔ چناں چہ آئے دن میڈیا پر تشدّد کے واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔ ایک غیر سرکاری سماجی تنظیم کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق جسمانی سزائوں کے خوف سے سالانہ تقریباً 35000 بچّے اسکول جانا چھوڑ دیتے ہیں۔ یاد رہے، اسکول نہ جانے والے بچّوں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے، کچھ اساتذہ طلبہ پر جسمانی تشدّد کے علاوہ ذہنی ٹارچر بھی کرتے ہیں۔ اُنہیں’’ نالائق، بدتمیز ‘‘ قرار دے کر بات، بے بات اُن کی عزّتِ نفس مجروح کرتے ہیں۔ طنز کے تیر چلا کے، طعنہ زنی کرکے اُن کی خود اعتمادی پر کاری ضرب لگاتے ہیں۔ پھر ایک اچھے استاد کا بنیادی وصف اس کا مشفق، ہم درد اور مخلص ہونا ہے، جو نہ صرف پیشے سے مخلص ہو، بلکہ اس کا طلبہ سے برتائو بھی ہم دردانہ ہونا چاہئے۔ جسمانی سزا کی بجائے پیار بھر ے انداز میں مشفقانہ طریقے سے سمجھانے سے بچّے کی نفسیات پر مثبت اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے مُلک میں یہ تصوّر کرلیا گیا ہے کہ جب تک اساتذہ بچّوں کو کڑی سزائیں نہیں دیں گے، بچّے تعلیم کی طرف راغب نہیں ہوں گے، خاص طور پر یہ سوچ دینی مدارس میں عام ہے، حالاں کہ دنیا بھر میں یہ بات کہیں بھی ثابت نہیں ہوسکی کہ سزا سے سیکھنے کا عمل بہتر ہوتا ہے۔ یاد رکھیں، سیکھنے کے عمل میں ترغیب اور دِل چسپی کا عنصر زیادہ اہمیت رکھتا ہے، لیکن خاص طور پر ہمارے پرائمری اسکولز میں اساتذہ کی اکثریت بچّوں کی نفسیات سے سرے سے ناواقف ہے۔

کچھ دنوں پہلے بلوچستان کے شہر، مستونگ میں کیڈٹ کالج کے طلبہ پر جسمانی تشدّد کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی، جس میں طلبہ کو انتہائی بے دردی سے مارا پیٹا جارہا تھا۔ اس واقعے کے بعد کالج کے پرنسپل کو معطّل کردیا گیا۔ اسکول کے کم سِن طلبہ پر تشدّد کی کچھ اور ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر موجود ہیں، جن سے پتا چلتا ہے کہ کچھ استاد، سزا دینے سے زیادہ انتقامی جذبے کے ذریعے تسکین حاصل کرنے کے نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہیں۔ حالاں کہ معصوم طلبہ کو محض غصہ دکھا کر بھی تنبیہ کا انداز اختیار کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح اگر استاد یہ محسوس کرے کہ کسی طالبِ علم کو جسمانی سزا دینے سے بھی اس کی اصلاح نہیں ہوسکتی، تو اسے ہرگز مارنا نہیں چاہیے۔ جسمانی تشدّد، مارپیٹ کے علاوہ اسکولز میں بچّے، بچّیوں کے ساتھ جنسی ہراسانی کے واقعات سے بھی استاد اور شاگرد کے درمیان کا وہ تعلق، جو استاد کو روحانی باپ کا درجہ دیتا ہے، کم زور تر ہوگیا ہے اور یہ معاملہ صرف اسکولز تک محدود نہیں، کالجز اور جامعات میں بھی اس نوع کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔ اگرچہ اساتذہ کی صفوں میں بے شمار اچھے اخلاق و کردار کے افراد بھی موجود ہیں، لیکن چند کالی بھیڑوں کی وجہ سے یہ مقدّس پیشہ، وقار و تکریم سےمحروم ہو رہا ہے، اگر اساتذہ کی بھرتی کے وقت اُن کے اخلاقی کردار کو بھی مدّنظر رکھا جائے اور ان کے نفسیاتی رجحانات کی جانچ پڑتال کر لی جائے، تو یہ واقعات بڑی حد تک کم ہو سکتے ہیں۔ اس ضمن میں والدین کی بھی ذمّے داری ہے کہ وہ اپنے بچّوں اور بچّیوں کو اسکول یا مدرسے بھیجنے سے قبل اُنہیں ذہنی طور پر اپنوں اور غیروں میں امتیاز کرنا سِکھائیں۔ خصوصاً مائیں لاپروائی کا مظاہرہ نہ کریں اور بچّوں کے معمولات اور ان کے رویّوں پر نگاہ رکھیں۔

ہمارے تعلیمی نظام کو اس وقت مکمل ’’اوور ہالنگ‘‘ کی ضرورت ہے۔ ہمارے مُلک میں اس وقت متعدّد تعلیمی نظام رائج ہیں۔ یہی حال نصاب کا ہے۔ اساتذہ کی بھرتی کے معیارات مختلف اور سیاسی دبائو کے زیرِ اثر ہیں۔ خصوصاً پرائمری نظامِ تعلیم کا حال تو سب سے برا ہے۔ ہمیں اپنے سماجی حالات کی مناسبت سے ایسے قواعد اور قوانین ترتیب دینے کی ضرورت ہے، جو تعلیمی اصلاحات میں مددگار ثابت ہوں کہ مجموعی طور پر ہمارا معاشرتی نظام نظم و ضبط سے محروم ہے۔ معاشرے میں بدنظمی عام ہے۔ اخلاقی اقدار رفتہ رفتہ کم زور پڑتی جا رہی ہیں، لیکن اس کے باوجود ہمارے اساتذہ کا کردار دوسرے طبقات کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہے۔ اگرچہ کہیں کہیں کچھ خامیاں اور نقائص موجود ہیں، لیکن مجموعی طور پر تعلیم کے فروغ میں اساتذہ، اپنے حصّے کی شمع جلائے ہوئے ہیں۔ اور ان کے اس کردار کا اعتراف نہ کرنا واقعی زیادتی ہو گی۔ عالمی یومِ اساتذہ کی مناسبت سے، ہم ایک مرتبہ پھر اعتراف کرتے ہیں کہ آج ہم جہاں، جیسے اور جس مقام پر ہیں، اپنے اساتذہ ہی کی بہ دولت ہیں۔

تعلیم میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال

تعلیمی شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، وقت کی اہم ترین ضرورت بن گیا ہے۔ ایک اچھا استاد، تدریس کے دَوران جس طرح بلیک بورڈ، چاک، کتاب، تصاویر اور نقشوں کا استعمال کرتا ہے، اسی طرح اسے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر بھی زور دینا چاہیے۔ آج کل کچھ اسکولز پرائمری سطح ہی سے کلاس روم کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کر رہے ہیں۔ لیپ ٹاپ، کمپیوٹر، پروجیکٹر، سی ڈیز کے ذریعے اسباق بہتر اور مؤثر طریق پر پڑھائے جا رہے ہیں۔ گرافک ڈیزائننگ اور انٹمیشن کے ذریعے کتابوں کے اسباق کو پُرکشش بنایا جا رہا ہے۔ جو تعلیمی ادارے اس نوع کی ٹیکنالوجی سے مدد لے رہے ہیں، ان کے طلبہ، روایتی کاپی قلم سے سیکھنے والے طلبہ کے مقابلے میں بہتر ہیں اور ان میں خاصا فرق پایا جاتا ہے۔ آج کل کتابوں کی دُکانوں میں انگریزی بول چال، نظمیں، کہانیاں اور دوسرا مواد سی ڈیز کی شکل میں دست یاب ہے۔ جن گھروں میں کمپیوٹر کی سہولت میّسر ہے، وہ اپنے بچّوں کو گھر میں بھی تعلیم فراہم کر سکتے ہیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعے بھی بچّوں کی تعلیمی ویب سائٹس تک رسائی کو ممکن بنائیں۔ لیکن ان پر نظر رکھنا بھی ضروری ہے تاکہ وہ غلط قسم کی ویب سائٹس اوپن نہ کر سکیں۔کالج کی سطح پر بھی جدید ٹیکنالوجی سے مدد لی جا سکتی ہے۔ مختلف معلوماتی سلائیڈز کے ذریعے مختلف اسباق، طلبہ کو ذہن نشین کرائے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح اگر کسی دن کوئی استاد غیر حاضر ہو، تو اس کا پہلے سے تیار شدہ لیکچر پوری کلاس، سُن اور دیکھ سکتی ہے۔ پاکستان میں متعدّد نجی تعلیمی ادارے اسکول، کالج اور یونی ورسٹی کی سطح پر جدید ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں، مگر سرکاری تعلیمی اداروں میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر توجّہ نہیں دی جا رہی ہے۔ اگر ہم اپنی نئی نسل کو ترقّی کی منزلوں پر دیکھنا چاہتے ہیں، تو اُنہیں ڈیجیٹل لٹریسی سے رُوشناس کروانا ہو گا۔

تازہ ترین