قیام پاکستان کے بعد شاید ہی کوئی ایسی سویلین حکومت آئی ہو جس نے افسر شاہی کو نکیل ڈالنے کی کوشش نہ کی ہو ۔لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواکی کے مصداق بتدریج صورتحال گمبھیر ہوتی چلی گئی۔جب بھی کوئی حکومت بیوروکریسی کا قبلہ درست کرنے کانعرہ مستانہ بلند کرتی ہے تو مجھے مائیکرو مینجمنٹ سے متعلق ایک مشہور کہانی یاد آتی ہے جو حکومتی سطح پر کی جارہی کوششوں کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔یہ کہانی ہے ایک چیونٹی کی ہے جو بہت محنتی اور مستقل مزاج ہے ۔اسے اپنے کام سے پیار ہے اوروہ صبح سے شام تک بلاتکان کام کرتی ہے ۔اس چیونٹی کے اوپر کوئی نگراں یا سپروائزر نہیں جو اس کے کام کا جائزہ لے ۔دفتر کاایک جنرل منیجر جو خون چوسنے کا عادی ہے اسے یہ بات ہرگز پسند نہیں اور وہ چاہتا ہے کہ دفتر میں کوئی مربوط نظام ہو جس میں ہر شخص جواب دہ ہو۔چنانچہ جی ایم اس چیونٹی پرنظر رکھنے کے لئے بطور سپروائزر ایک بھنورے کی خدمات حاصل کر لیتا ہے۔بھنورے سے کہا جاتا ہے کہ چیونٹی کے دفتر آنے اور جانے کا وقت درج کرو ،اس کے لئے بریک کا تعین کرو اورکارکردگی رپورٹ بنائو ۔بھنورا سب سے پہلے تو ایک گھڑیال منگواتا ہے اور پھر کام کے دبائو کے پیش نظر رپورٹیں تیار کرنے کے لئے کسی اسسٹنٹ کی خدمات مستعار لینے کی درخواست کرتا ہے۔جی ایم بلا حیل و حجت اسسٹنٹ بھرتی کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ایک مکڑی کو سپروائزر بھنورے کی اسسٹنٹ کے طور پر ملازمت دے دی جاتی ہے۔چیونٹی خوش رہتی ہے ،بروقت دفتر آتی ہے ،کام میں جت جاتی ہے اور کام کرتے ہوئے من پسند گیت گاتی ہے۔اُدھر اپنے کام میں مہارت کی حامل مکڑی ریکارڈمرتب کرتی ہے ،بلاناغہ رپورٹیں تیار کرتی ہے جو سپروائزر سے ہوتی ہوئی جی ایم تک جاتی ہیں ۔جی ایم بہت خوش ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ چیونٹی کی کارکردگی کا گراف تیار کرو ،بجٹ کا تخمینہ بنائو اور پھر کلر پرنٹ لے کر کسی خوبصورت فائل کور میں لگائو ۔کام چل نکلتا ہے تو افرادی قوت میں اضافہ کرتے ہوئے ایک مکھی کو بطور ایڈمن آفیسر بھرتی کرلیا جاتا ہے۔اس کے ساتھ ہی دفتری اخراجات میں بھی اضافہ ہونے لگتا ہے کیونکہ ریکارڈ رکھنے کے لئے ایک کلر پرنٹر خریدا جاتا ہے اوراسٹیشنری کی مد میں بھی خرچ بڑھ جاتا ہے۔اگرچہ چیونٹی بہت محنت شعار ہے مگر اس نئے نظام میں اس کا بیشتر وقت رپورٹیں بنانے میں گزر جاتا ہے ،وہ بیزار ہونے لگتی ہے کیونکہ کاغذوں کا پیٹ بھرنے کے بعد کام کرنے کے لئے بہت کم وقت بچتا ہے۔لہٰذا چیونٹی جس شعبہ میں کام کرتی ہے اس کی کارکردگی متاثر ہونے لگتی ہے۔جنرل منیجر کو دن بدن خراب ہوتی صورتحال پر تشویش ہوتی ہے تو ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ تخلیق کرنے کا فیصلہ ہوتا ہے ۔گراس ہوپر جسے ٹِڈا یا گھاس کا کیڑا بھی کہتے ہیں ،اسے بطور ایڈمنسٹریٹر کام کرنے کی پیشکش کی جاتی ہے تو وہ سرکاری دفتر ،لگژری کار اور ایک پرسنل اسٹاف افسر کا مطالبہ کرتاہے جو انتظامیہ تسلیم کر لیتی ہے ۔اُدھر بدلتی ہوئی صورتحال میں چیونٹی کی کام میں دلچسپی بالکل ختم ہو کر رہ جاتی ہے ۔وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ جن افسروں کو محض جائزہ لینے یا نگرانی لینے کے لئے رکھاگیا ہے ان کی تنخواہیں اور مراعات تو بہت پرکشش ہیں مگر اسے نہایت قلیل معاوضہ دیا جاتا ہے اس کیساتھ ہی اسے عدم تحفظ کا احساس بھی ہونے لگتا ہے اور ہروقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کب اسے ملازمت سے فارغ کردیا جائے ۔کچھ ہی عرصہ میں یہ شعبہ خسارے میں چلاجاتا ہے اور صورتحال ٹھیک ہونے کے بجائے مزید خراب ہونے لگتی ہے تو جی ایم صاحب ایک مینجمنٹ کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔اس انڈسٹری میں اُلو کو سب سے بڑے کنسلٹنٹ کی حیثیت حاصل ہے ۔اُلو اچھا خاصہ مشاہرہ لینے اور کئی ماہ تک صورتحال کا جائزہ لینے کے بعدجو رپورٹ پیش کرتا ہے اس میں بتایا جاتا ہے کہ ملازمین کی تعداد بہت زیادہ ہے ،اگر ادارے کو ،منافع بخش بنانا ہے تو ڈائون سائزنگ کرنا ہوگی ۔جی ایم اس رپورٹ کی روشنی میں فوری طور پر کارروائی کرتے ہوئے چیونٹی کو نوکری سے نکال دیتا ہے تاکہ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔
ہمارے ہاں بھی سول سروس میں اصلاحات کی غرض سے اب تک یہی کچھ ہوتا آیا ہے اور افسوسناک بات یہ ہے کہ اب بھی ٹاسک فورس کے نام پر وہ سب دہرایا جا رہا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری بیوروکریسی بدعنوان ہے کیونکہ وہ اسی سماج کا حصہ ہیں مریخ سے نہیں آئی کالم لکھ رہا تھا تو ایک خبرنظر سے گزری کہ بیسیویں گریڈ کے سول سرونٹ نے دورے پر آئے غیر ملکی وفد کا دیناروں سے بھرا پرس چُرالیا ۔یہ واردات تب ہوئی جب کویتی وفد اقتصادی امور ڈویژن میں ایک اجلاس میں شریک تھا۔یہ واردات ہمارے نظام کے لئے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ۔آخر اتنے بڑے سرکاری افسر نے اتنی گھٹیا حرکت کیوں کی ؟کرپشن کی وجوہات پر تحقیق کرنے والے عالمی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پانچ فیصد لوگ اپنی جبلت کے باعث کبھی کرپشن پر آمادہ نہیں ہوتے حالات خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں ،اسی طرح پانچ فیصد افراد اپنی عِلت کے سبب ہر حالت میں کرپشن کی طرف مائل ہوتے ہیں چاہے صورتحال کتنی ہی سنگین کیوں نہ ہو جائے ۔البتہ باقی 90فیصد لوگ اپنے حالات کی پیدوار ہوتے ہیں ،اگر انہیں ایک معقول طرز زندگی فراہم کیا جائے تو کرپشن سے روکا جا سکتا ہے ۔میراخیال ہے ہماری افسر شاہی میں حالات دو مختلف انتہائوں کو چھو رہے ہیں ،ایک طرف وہ بدعنوان افسر ہیں جو دونوں ہاتھوں سے قومی خزانے کو لوٹ رہے ہیں اور دوسری طرف وہ دیانتدار اور فرض شناس افسر ہیں جنہیں حالات اور واقعات اس دلدل میں دھکیل دیتے ہیں ۔محکمہ کوئی بھی ہو،فیلڈ میں کام کرنے والے افسر کی حیثیت اس چیونٹی جیسی ہے جس کی نسبت نگرانی کرنے والے، خون چوسنے والے اور بھنورے زیادہ مراعات لے رہے ہیں۔مثال کے طور پر چند روز قبل آئی جی موٹرویز عامرذوالفقار کی دعوت پر شیخوپورہ ٹریننگ کالج جانے کا اتفاق ہوا تو موٹروے پولیس کے افسروں نے شکایات کے انبار لگا دیئے ۔بتایا گیا کہ شروع میں یہاں پنجاب پولیس کی نسبت تنخواہیں تین گنا تھیں مگر کارکردگی مثالی ہونے کے باوجود معکوس ترقی ہوتی چلی گئی اور اب پنجاب پولیس اور موٹروے پولیس کی تنخواہوں میں کوئی فرق نہیں رہا۔اسی طرح ایف بی آر نے فیلڈ افسروں کی حوصلہ افزائی کےلئے ایک قانون بنایا کہ ریکوری کا 2فیصد متعلقہ افسر کو بطور انعام دیا جائے گا مگر اس پرعملدرآمد نہیں ہوتا۔دو مثالیں تو میرے علم میں ہیں ،کراچی میں غفور نثار نامی افسر نے 800ملین ریکور کئے جبکہ اسلام آباد میں وحید خان نامی افسر نے 1.5بلین کی وصولی کی مگر دونوں کو تاحال پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملی ۔
جب ادارے خسارے میں جاتے ہیں تو خون چوسنے والے کسی اُلو سے رپورٹ بنواتے ہیں اور ڈائون سائزنگ کے نام پر چیونٹی یعنی فیلڈ افسر کو ہی فارغ کر دیا جاتا ہے جو ادارے کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے۔حالانکہ بدلنا ہے تو مے بدلو ،نظام مے کشی بدلو ۔ان جونکوں اور خون چوسنے والوں سے نجات حاصل کرو۔