• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کمال کے لکھاری ہیں اور بلا کا ڈرامہ تحریر اور تخلیق کیا ہے ۔محترم انورمقصود اپنا مقصود و مدعا ‘مخاطب کو ہنسا کر جس خوبصورت انداز میں ذہن نشین کروا دیتے ہیں‘ اس کا کوئی ثانی نہیں۔ اسلام آباد میں دیکھنے کی کوشش کی لیکن وقت نہ نکال سکا یا پھر رش آڑے آتا رہا ۔ اللہ بھلا کرے شاعر اور باذوق بھائی فیصل سبزواری کا جنہوں نے کراچی میں انور مقصود کے اس شاہکار اسٹیج ڈرامے(پونے چودہ اگست) سے لطف اٹھانے اور سبق حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا۔ اس ڈرامے میں قائداعظم محمد علی جناح‘ علامہ محمد اقبال اورجوش ملیح آبادی عالم ارواح سے پاکستان کا نظارہ کرنے آئے ہوتے ہیں ۔ یہاں کراچی ایئرپورٹ کے لاؤنج میں پاکستان کی موجودہ سیاسی اور عسکری اشرافیہ یا پھر نوجوان نسل سے ان کا جو مکالمہ ہوتا ہے ‘ وہ دیکھنے والوں کو لوٹ لوٹ کر ہنسنے پر مجبور کردیتا ہے اور پھر یہاں ہر چیز کی ابتری دیکھ کر قائداعظم اور اقبال جس طرح پھوٹ پھوٹ کر روتے ہیں‘اس کی وجہ سے ہال میں موجود کم و بیش ہر دیکھنے والے کے آنسو نکل آتے ہیں ۔
ایک موقع پر جوش اقبال کو طعنہ دیتے ہیں کہ”اقبال کاش تم اس روز سوتے ہی نہ جس روز تم نے پاکستان کا خواب دیکھنا تھا“۔ کراچی ایئرپورٹ کے لاؤنج میں جب مسلم لیگ(ن) کے ایک رہنما اقبال اور قائداعظم سے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ ”شیر“ کی مسلم لیگ(ن) سے وابستہ ہیں تو وہ دونوں یہ سن کر چونک اٹھتے ہیں کہ کس طرح ان کی چھوڑی ہوئی جماعت کے ساتھ ن‘ ق‘ ف‘ ض اور اسی نوع کے دیگر لاحقے اور سابقے لگ گئے ہیں۔ قائداعظم کی مسلم لیگ کا جو حشر ہونا تھا سو ہوچکا لیکن میں ڈرامہ دیکھنے کے بعد سوچ رہا تھا کہ اگر کسی وقت ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان آکر اپنی چھوڑی ہوئی پیپلز پارٹی کی حالت دیکھی تو ان کی حالت کیا ہوگی؟ یہاں آکر جب انہیں پتہ چلے گا کہ ان کی دشمن نمبرون نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما حاکم علی زرداری کے وارث ان کی جماعت کے تنہا وارث بن گئے ہیں، ان کی بنائی ہوئی جماعت کی پہچان کرپشن اور لوٹ مار بن گئی ہے، وہ اسٹیبلشمنٹ کی رجعت پسند پالیسیوں کی وکیل بن گئی ہے ۔ وہ ڈیل کرتی بھی ہے اور دیتی بھی ہے، رعایت کرتی بھی ہے اور لیتی بھی ہے ۔ غیرمعمولی لچک بھی دکھاتی ہے اور بوقت ضرورت آنکھیں بھی ۔حکمت سے بھی کام لیتی ہے اور مصلحت سے بھی‘ مخاصمت بھی اس کے ہتھیار ہیں اور مفاہمت بھی اس کا نعرہ ہے لیکن یہ سب کچھ ان کی جماعت ملک‘ قوم یا جمہوریت کے لئے نہیں بلکہ اقتدار کے دوام اور ذاتی یا پارٹی مفادات کے لئے کرتی ہے۔ جب وہ دیکھیں گے ان کی جماعت کے حادثاتی وارث نے نمبرون کا خطاب تو حاصل کرلیا ہے لیکن اسٹیٹمین شپ میں نہیں بلکہ سیاسی چالوں میں۔ جب وہ دیکھیں گے کہ وہ انور سیف اللہ جن کے ایک بھائی مسلم لیگ (ق) کے رہنما ہیں اور دوسرے بھائی مسلم لیگ (ہم خیال ) کے صوبائی صدر ہیں ‘ کو خیبرپختونخوا میں پارٹی کا صدر بنا دیا گیا ہے اور جیالے ان کے زندہ باد کے نعرے لگانے پر مجبور ہیں۔ جب انہیں پتہ چلے گا کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب (جہاں پیپلز پارٹی کی تاسیس ہوئی ) کو جنرل ضیاء کے ساتھ سیاسی بلوغت کی منازل طے کرنے والے منظور احمد وٹو کے سپرد کردیا گیا ہے اور اب انہیں منظور احمد وٹو نہیں بلکہ منظور احمد بھٹو کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ بلوچستان میں ان کی جماعت اور حکومت رئیسانی صاحب کے سپرد ہے جن کا اصول یہی ہے کہ وزیر وزیر ہوتا ہے چاہے چوری کرے یا ڈاکے ڈالے۔
ان کے اپنے صوبہ سندھ میں ان کی جماعت ‘ اس کے مختارکل کے منہ بولے بھائی کے سپرد ہے اور وہ صوبے کو ایسا چلا رہے ہیں کہ جیسا یہ پیپلز پارٹی کا اپنا نہیں بلکہ سوتیلا یا منہ بولا صوبہ ہو۔ جب ذوالفقار علی بھٹو اپنی جماعت کی یہ حالت دیکھیں گے تو کیا ان کی کیفیت اقبال اور قائداعظم سے مختلف ہوگی اور کیا وہ پیپلز پارٹی بنانے پر پچھتائیں گے نہیں؟ پھر اچانک میرا دھیان مرحوم خان عبدالغفار خان کی طرف جاتا ہے۔ سوچتا ہوں کہ اگر وہ عالم ارواح سے اپنی جماعت کی حالت دیکھنے پاکستان تشریف لائے تو ان کی کیا حالت ہوگی؟
یہاں آکر جب وہ دیکھیں گے کہ ان کی جماعت کی ایک ٹانگ پیپلز پارٹی کی پلیٹ میں اور دوسری اسٹیبلشمٹ کی پلیٹ میں ایسی پھنس گئی ہے کہ ادھر ہل سکتی ہے اور نہ اُدھر ۔ جب وہ دیکھیں گے کہ ان کی جماعت پہلی مرتبہ اقتدار میں آئی ہے اور اس میں پختون ماضی کے کسی بھی دور سے زیادہ مررہے ہیں اور رُل رہے ہیں ۔ جب اس مرددرویش کو پتہ چلے گا کہ ان کی جماعت کی حکومت کرپشن میں نمبرون آگئی ہے تو کیا وہ اس جماعت کی بنیاد رکھنے پر شرمندہ نہیں ہوں گے؟ پھر میرا دھیان مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کی طرف جاتا ہے ۔ سوچتا ہوں اگر وہ اپنی جماعت اسلامی کی حالت دیکھنے پاکستان آگئے تو ان کی کیا کیفیت ہوگی؟ عمر بھر امریکی ایجنٹ کے طعنوں اور روایتی مولویوں کے فتووں کا سامنا کرنے والے یہ صاحب علم جب دیکھیں گے کہ آج فاروق چوہان جیسے لوگ ان کی جماعت کے ترجمان بن گئے ہیں جنہوں نے ان کی جماعت کو امریکی ایجنٹ اور سیکولر کے فتوے بانٹنے والی جماعت بنا دیا ہے تو ان کے کرب کی کیا حالت ہوگی؟ جب راسخ سوچ کی حامل اس شخصیت کو پتہ چلے گا کہ ان کی چھوڑی ہوئی جماعت آج افغانستان ‘ جہاد اور طالبان کے حوالوں سے سب سے زیادہ کنفیوزڈ جماعت بن گئی ہے تو ان کی ذہنی کیفیت کیا ہوگی؟ جب وہ دیکھیں گے کہ ان کے پرانے جانشین جماعت اسلامی کو مولانا فضل الرحمن کی طرف کھینچ رہے ہیں اور نئے جانشین مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی طرف۔ ایک کا رخ سعودی عرب کی طرف ہے اور دوسرے کا ایران کی طرف۔ اور جب تنقید کی جاتی ہے تو دلیل سے جواب دینے کی بجائے وہ فاروق چوہان جیسوں کو میدان میں اتارتے ہیں جو دلیل سے جواب دینے کی بجائے تنقید کرنے والوں کو فتووں سے نوازتے ہیں۔ ان کے یہ جانشین اپنے ترجمانوں کو یہ نہیں بتاتے کہ مذہبی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے کی عمارت میں دراڑیں تنقید کرنے والوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اکرم خان درانی اور مولانا سمیع الحق کے خلاف محترم آصف لقمان قاضی کی پریس کانفرنسوں کے نتیجے میں پڑی تھیں۔ سوچتا ہوں اگر مولانا مودودی نے اپنی قائم کردہ جماعت کے یہ معیارات دیکھے تو ان کے تاثرات کیا ہوں گے؟ انور مقصود صاحب کے ڈرامے میں تو یہ شخصیات دنیا اور پاکستان میں واپس آجاتی ہیں لیکن شکر ہے حقیقی دنیا میں اس طرح کی واپسی کا کوئی امکان نہیں ۔شکر ہے قائداعظم ‘ علامہ اقبال ‘ ذوالفقار علی بھٹو ‘ خان عبدالغفار خان اور مولانا مودودی جیسی شخصیت واپس نہیں آسکتیں ۔ انہوں نے یہاں بہت دکھ جھیلے تھے اور اپنے وارثوں کے لئے پاکستان‘ مسلم لیگ‘ پی پی پی ‘ اے این پی اور جماعت اسلامی کی صورت میں یہ کمائیاں کرکے چھوڑی تھیں۔ شکر ہے وہ اس دنیا میں واپس آکر اس شرمندگی کا سامنا کرنے سے محفوظ ہیں۔
تاہم مجھے افسوس ہے کہ ان کی روحیں اپنی اپنی تخلیقوں کی یہ حالت دیکھ کر ضرور تڑپ رہی ہوں گی ۔ البتہ یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ حضرت مفتی محمود کی روح خوش ہوگی اور خوش کیوں نہ ہوگی جب دیکھے گی ان کے صرف ایک نہیں بلکہ سب صاحبزادے ان کے بچھائے ہوئے دسترخوان سے بالاتفاق بھرپور طریقے سے مستفید ہورہے ہیں اور فضا میں ان نعروں کی گونج عملی شکل اختیار کررہی ہے کہ” مفتی تیرا کارواں رواں دواں رواں دواں“۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ اور تحریک انصاف کے موسسین حیات ہیں اور اپنی اپنی تحریکوں کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ یقینا کبھی تو اپنے گریبانوں میں جھانک کر سوچ رہے ہوں گے کہ کیا بنانے چلے تھے اور کیا بنا بیٹھے ہیں۔ ایک کا اپنے شہر میں رہنا ناممکن بن گیا ہے اور دوسرے کے متوالوں کے لئے ان کی پارٹی میں رہنا مشکل ہوگیا ہے۔
تازہ ترین