• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے کسی جنم میں، میں نےمرزا غالب کو کہتے ہوئے سنا تھا، ’’بدل کر فقیروں کا ہم بھیس غالب، تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں۔‘‘

میں غالب کا شیدائی ہوں۔ اس لئے مجھے غالب کی ہر بات، ہر ادا اچھی لگتی ہے۔ میں نے فیصلہ کر لیا کہ اگلے کسی جنم میں غالب کی طرح میں بھی بھیس بدل کر اہل کرم کے تماشے دیکھوں گا۔ اہل ستم کے تماشے دیکھوں گا۔ اہل ظلم کے تماشے دیکھوں گا۔ اہل علم کے تماشے دیکھوں گا۔اہل انصاف کے تماشے دیکھوں گا۔ میں ہر وہ تماشا دیکھوں گا جو تماشا ہم بھیس بدلنے کے سوا کبھی نہیں دیکھ سکتے۔ آپ بجا طور پر سوچ رہے ہونگے کہ جس جنم میں ، میں نے غالب کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ ، بدل کر فقیروں کا ہم بھیس غالب، تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں۔ تب میں نے تماشائے اہل کرم دیکھنے کے لئے بھیس کیوں نہیں بدلا تھا؟ سوال اچھا ہے ۔ جواباً عرض ہے کہ تب میں کوتوال کا ایک ادنیٰ سا سپاہی تھا۔ مجھے غالب کی جاسوسی پر مامور کیا گیا تھا۔ میں سائے کی طرح غالب کے پیچھے لگا رہتا تھا۔ عین اسی طرح جس طرح آج کل کے دور میں ادیبوں اور شاعروں پر نظر رکھنے کے لئے بلکہ نظر بد رکھنے کے لئے مختلف محکموں نے اپنے کارندے لگائے ہوئے ہیں۔ ایک روز میخانہ میں غالب میرے قریب آکر بیٹھے۔ کہنے لگے، میاں میرے پیچھے کیوں لگے رہتے ہو؟ میں نے کہا، مرزا صاحب میں آپ کا شیدائی ہوں۔ مسکرائے۔ کہنے لگے ، تنخواہ پر کوئی کسی کا شیدائی نہیں بنتا۔ میں ہکا بکا رہ گیا۔ گنگناتے ہوئے اٹھے، کہتے چلے گئے ، ’’بدل کر فقیروں کا ہم بھیس غالب، تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں۔

میرا پچھلا جنم ادبیوں، شاعروں اور دانشوروں کی جاسوسی کرتے ہوئے گزر گیا۔ مگر اس جنم میں بھیس بدلنا میری عادت بن چکا ہے۔ شروع میں فقیروں کے بھیس میں دنیا دیکھی۔ دوست دیکھے۔ دشمن دیکھے۔ تماشائے اہل ہنر دیکھے۔ مٹی سے سونا اور سونے کو مٹی بنانے کی کیمیا گری دیکھی۔ جنتر دیکھے۔ منتر دیکھے۔ طوطے کو توپ چلاتے ہوئے دیکھا۔ فاسٹ بائو لر کو اسپنر بنتے دیکھا۔ تب مجھے بھیس کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔ کوئی شخص اس دنیا میں آتے ہوئے اپنے ساتھ کسی قسم کا کوئی لباس نہیں لاتا۔ کسی قسم کا کوئی لباس پہن کر نہیں آتا۔ وہ روتے ہوئے، بلکتے ہوئے ننگ دھڑنگ اس دنیا میں آتا ہے۔ دنیا میں آنے کے بعد اسے بھیس کا بھید سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔ داخلہ مل جانے کے بعد اسے اسکول جانےکے لئے لازمی طور پر یونیفارم پہننا پڑتا ہے۔ یونیفارم کے بغیر اسے اسکول آنے کی اجازت نہیں ملتی۔ اسکول یونیفارم اس کا پہلا بھیس ہوتا ہے۔ اسکول کے دروازے پر کھڑے ہوئے چوکیداروں کی وردی ان کا بھیس ہوتا ہے۔ چور وردی نہیں پہنتے۔ مگر پولیس والے وردی پہنتے ہیں۔ دیکھنے میں سب پولیس والے ایک جیسی وردی پہنتے ہیں۔ مگر ان کی وردی اصل میں ایک جیسی نہیں ہوتی۔ جس وردی پر تارے، ستارے، میڈل وغیرہ ہوتے ہیں وہ وردی بڑے افسروں کی وردی ہوتی ہے۔ بڑے افسرکی پہچان اس کے لباس پر لگے ہوئے تارے ، ستارے اور میڈلوں سے ہوتی ہے۔ بغیر وردی کے اس کی کوئی پہچان نہیں ہوتی۔

کبھی کبھی بھیس یعنی وردی دھوکہ دینے کے لئے بھی پہنی جاتی ہے۔ حال ہی میں ایران میں کچھ دہشت گردوں نے بھیس بدل کر یعنی فوجی وردی پہن کر فوجی پریڈ پر حملہ کر دیا تھا۔ اس حملے میں تیس پینتیس لوگ مارے گئے تھے۔ آپ نے ایک کہاوت ضرور سنی ہو گی، جیسا دیس، ویسا بھیس ، ایسا کرنے سے کوئی آپ کی اصلیت کا اندازہ نہیں لگا سکتا تمام ملازمتوں میں سب سے زیادہ جان جوکھوں میں ڈالنے والی ملازمت، فائر بریگیڈ کی ملازمت ہوتی ہے وہ آگ کے لپکتے ہوئے شعلوں سے لڑتے ہیں۔ کبھی کبھار اپنی نیلی وردی کے ساتھ بھسم ہو جاتے ہیں۔ وردی میں قانون نافذ کرنے والوں کو دیکھ کر دہشت گرد بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ مگر نیلی وردی میں ملبوس آگ بجھانے والوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔ ان کو آگ کے شعلوں سے لڑنا پڑتا ہے۔ آگ پسپا نہیں ہوتی۔ آگ کو بجھانا پڑتا ہے۔جان لیوا کام سب سے کم تنخواہ لینے والے فائر مین کرتے ہیں۔

فقیروں کا بھیس ان کی وردی ہوتی ہے۔ ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لوگ قانون نافذ کرنے والوں سے نہیں ڈرتے۔ وہ قانون نافذ کرنے والوں کی وردی سے ڈرتے ہیں۔ اگلے وقتوں کے بادشاہ سونے کا تاج سر پر سجاتے تھے۔ آج کل کے بادشاہ سر پر سونے کا تاج نہیں سجاتے۔ وہ سونے کے کموڈ بنواتے ہیں اور استعمال کرتے ہیں۔ تمام وردیوں کی طرح فقیروں کے بھیس کا تعلق ان کی روزی روٹی سے ہوتا ہے ۔ آپ کسٹم آفیسر کی وردی میں بھیک نہیں مانگ سکتے۔ بھیک مانگنے کے لئے فقیروں کے بھیس میں ہونا ضروری ہے۔ بلکہ لازمی ہے۔ مجھے تمام وردیوں میں یعنی بھیسوں میں، فقیروں کا بھیس اچھا لگتا ہے۔ مجھے انسپکٹر جنرل آف پولیس کی وردی اچھی لگتی ہے۔ مجھے کلیکٹر کسٹمز کی وردی بھی بہت اچھی لگتی ہے۔ مگر، آپ کو اور مجھے انسپکٹر جنرل آف پولیس کی وردی پہننے کی اجازت نہیں ملتی، کلیکٹر آف کسٹمز کا بھیس بدلنے کی اجازت نہیں ملتی۔ مگر جب ہم اپنی مرضی اور منشا کے مطابق انسپکٹر جنرل آف پولیس اور کلیکٹر کسٹمز کا بھیس دھار لیتے ہیں تب پکڑےجاتے ہیں اور جیلوں میں سڑتے رہتے ہیں۔ مگر فقیروں کا بھیس بدلنے کے لئے آپ کو کسی سے اجازت لینےکی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ آپ جب چاہیں فقیر بن سکتے ہیں، میرا مطلب ہے کہ آپ جب چاہیں ایک فقیر کا بھیس بدل کر فقیر دکھائی دے سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں جب چاہتا ہوں فقیروں کا بھیس بدل کر تماشائے اہل کرم دیکھتا ہوں۔ فقیروں کا بھیس بدلنے کے لئے مجھے کسی سے اجازت لینا نہیں پڑتی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین