• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے ایک شخص نے ایک ویڈیو بھیجی ہے جس میں ایک اوورسیز پاکستانی‘ جو کینیڈا میں رہتا ہے، کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ اس ویڈیو میں ایک شخص نے کہا ہے کہ میں نے اپنی ساری زندگی کی جمع پونجی ایک پاکستانی بینک کے فارن کرنسی اکائونٹ میں قانونی طریقے سے بھیجی تاکہ رقم بھی محفوظ رہے اور ملک کو بھی فائدہ ہو لیکن اُس بینک کا ایک افسر مبینہ طور پر اس پاکستانی اور دیگر افراد کے27 کروڑ روپے جعل سازی سے نکال کر بیرون ملک فرار ہو گیا ہے۔ بہت سارے بااثر افراد نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے بینک سے اپنی رقم واپس حاصل کر لی ہے لیکن یہ سالِ رواں میں تین ماہ تک پاکستان کے ہر ادارے کی کنڈی اور زنجیر عدل کو ہلاتا رہا لیکن کہیں سے بھی داد رسی نہ ہو سکی۔ جب یہ پاکستانی تھک ہار کر واپس کینیڈا پہنچا تو ایک مرتبہ پھر کمر کس لی کہ دال روٹی کمائے اور دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو لیکن واپسی پر اس شخص پر یہ عقدہ کھلا کہ کینیڈا والوں نے بھی اسے نوکری سے نکال دیا ہے۔

ہم نے سیلاب زدگان کو بسانا ہو یا زلزلہ زدگان کی دوبارہ آباد کاری کرنا ہو، اسپتال بنانے ہوں یا ڈیم کی تعمیر کرنا ہو، اپنے ملک کی محبت کا ڈھول اٹھا کر پیٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہماری مذہبی تنظیمیں ہوں، سیاسی پارٹیاں ہوں یا غیر سرکاری تنظیموں کا کشکول ہو، ہر کوئی ان اوور سیز پاکستانیوں سے اپنے لیے چندہ مانگتے نظر آتا ہے حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ دوسرے ممالک میں آمدنی کم ہو یا زیادہ، ہر دو صورتوں میں پیسہ کمانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ کوئی ٹیکسی چلاتا ہے، تو کوئی مڈل ایسٹ کے تپتے صحرائوں میں اپنی کمر دہری کرکے محنت مزدوری کرتا ہے۔ میں نے سخت سردی میں لندن جیسے شہر میں ان پاکستانیو ں کو گاڑیاں دھوتے بھی دیکھا ہے اور موٹر سائیکلوں پر پیزا تقسیم کرتے ہوئے بھی۔ بڑے بڑے اسٹورز پر طویل وقت کیلئے ڈیوٹی دیتے ہوئے بھی دیکھا ہے اور اچھے پڑھے لکھے پاکستانیوں کو سارا سارا دن کھڑے ہو کر قصائیوں کا کام کرتے بھی دیکھا ہے۔ جب بھی مادرِ وطن کو ضرورت محسوس ہوتی ہے، ان لوگوں کے دل بھر آتے ہیں اور اکثر لوگ اپنی مشکل سے کمائی ہوئی رقم پاکستان کو چندے کے طور پر دے دیتے ہیں لیکن پرائے تو پرائے، اپنے بھی انہیں چونا لگانے سے نہیں چوکتے۔ ہوتا یہ ہے کہ ان کے اپنے گھروں میں رہنے والے اُس نوجوان سے پوچھو کہ جس نے گاڑی پر رنگ برنگی بتیوں کے قمقمے سجائے ہوتے ہیں کہ تم کیا کرتے ہو تو سینہ تان کر کہتا ہے کہ بھائی دبئی میں ہوتا ہے۔ گاڑیوں کے شو روم بنا کر کلف لگا سوٹ پہن کر اور آنکھوں پر مہنگا دھوپ کا چشمہ سجانے والے سے پوچھو کہ یار بڑی عیاشی کر رہے ہو، کتنا پیسہ انویسٹ کیا ہے تو کہتا ہے کہ بھائی جاپان ہوتا ہے۔ پتھر اور گارے یا عام سے ڈھانچے کے گھر کو جب کئی کئی منزلہ عمارت میں تبدیل ہوتے دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ابا جان سعودیہ میں ہوتے ہیں۔ اپنے ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کیلئے بے چارے سخت حالات میں کام کرکے جب اکائونٹس کھولتے ہیں تو جعل سازی سے بینک کا عملہ ان کی رقم ہڑپ کرجاتا ہے۔ اپنے اہلِ خانہ اور بچوں کیلئے پلاٹ خریدتے ہیں تو اس پر قبضہ ہو جاتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ قبضہ گروپ کے ساتھ سرکاری مافیا بھی ملا ہوا ہے۔ اگر یہی لوگ کسی پروجیکٹ میں یا اپنی انڈسٹری لگانے کیلئے پیسہ انویسٹ کرتے ہیں تو علم ہوتا ہے کہ اپنے ہی ملک میں انویسٹمنٹ کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ہر ادارہ اور ہر شخص یوں منہ کھول کر بیٹھا ہے جیسے یہ لوگ درختوں سے ڈالرز، پائونڈز، یورو، ریال اور درہم توڑ کرلاتے ہیں، ان اوورسیز پاکستانیوں کیلئے جو ادارے حکومتی سطح پر بنے ہوئے ہیں وہ صرف اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ ان اداروں میں نوکریاں قائم رہیں، ان کو اچھی سے اچھی مراعات ملتی رہیں اور جن اوورسیز پاکستانیوں کو سہولتیں دینے کیلئے یہ ادارے بنے ہیں وہ یونہی بے آسرا بھنور میں غوطے کھاتے پھر رہے ہیں۔ ایک چھوٹی سی مثال ہے کہ اوورسیز پاکستانی کے ان بچوں کی تعلیم‘ جو پاکستان میں ہی ہوتے ہیں، کیلئے اوور سیز فائونڈیشن کے تحت او پی ایف تعلیمی ادارے موجود ہیں جس میں 3600 اوور سیز پاکستانیوں کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں اور اس کے عوض انہیں ایک ارب تیس کروڑ روپے کی سبسڈی دینا پڑتی ہے۔ یعنی ایک بچے کی تعلیم پر تقریباً ماہانہ تیس ہزار وپے خرچ کئے جا رہے ہیں۔ اگر یہی ماہانہ وظیفہ بچے کو دے دیا جائے یا یہی رقم تین بچوں میں دس دس ہزار فی بچہ کے حساب سے تقسیم کر دی جائے تو ان کو زیادہ بہتر سہولتیں دی جا سکتی ہیں اور اسی بجٹ میں زیادہ بچے مستفید ہو سکتے ہیں بلکہ ان علاقوں کے بچے بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں جہاں او پی ایف اسکول نہیں ہیں لیکن اس کیلئے اوورسیز پاکستانیوں کے بچوں کی دردِ دل، ہمدردی اور اچھی پالیسی بنا کر خدمت کرنے کی ضرورت ہے۔ اوور سیز پاکستانیوں کو محض چندے کی مشین نہ سمجھا جائے۔

twitter:@am_nawazish

تازہ ترین