• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برباد بستی کے ہم کنگال ، ملنگ ، موالی ، بیکار اور بونگے ناچتے گاتے ڈھول بجاتے ایئر پورٹ پہنچے ۔ حج فلائٹ کی آمد آمد تھی ۔ ایئرپورٹ کا چپہ چپہ حاجیوں کا استقبال کرنے کے لئے آئے ہوئے دوست ، احباب اور رشتہ داروں سے بھر گیا تھا ۔ استقبال کرنے کے لئے آنے والوں کا تانتا بندھا ہوا تھا، ہم بھی جاکر اس ہجوم میں شامل ہوگئے ۔ میلے کا سماں تھا بچے اچھل کود کررہے تھے ۔ اسکالیٹرز یعنی بجلی سے چلنے والی سیڑھیوں سے بچے خوب محظوظ ہورہے تھے کبھی آمد والے فلور سے روانگی والے فلور پر آتے اور کبھی روانگی والے فلور سے آمد والے فلور پر اترتے۔ اتنی بڑی تعداد میں بچے پہلے کبھی میں نے نہیں دیکھے تھے ۔ لوگ ہاتھوں میں پھولوں کے ہار لئے جھمگھٹوں میں ادھر سے ادھر گھوم رہے تھے ۔ ایئر پورٹ اتھارٹی نے حج فلائٹ کی آمد میں دوگھنٹے تاخیر کا اعلان کردیا تھا ۔ چائے کیک بسکٹ اور کولڈ ڈرنک کے اسٹالوں پر لوگوں کا ہجوم تھا لیکن سب سے زیادہ بھیڑ مٹھائی کی دکان پر تھی ۔ لوگ مٹھائیوں کے ڈبے خرید رہے تھے ۔ کچھ لوگ وہیں کھڑے کھڑے رس گلّے، رس ملائی ، گلاب جامن ، برفی اور جلیبیاں چٹ کررہے تھے یعنی کھا رہے تھے ۔ جن لوگوں نے مٹھائی کے ڈبے خریدے تھے وہ ایئر پورٹ پر چلتے پھرتے مٹھائی کھا رہے تھے ۔ کچھ آلتی پالتی مارکر ایئر پورٹ کے فرش پر بیٹھ گئے تھے اور مٹھائی کھاتے کھاتے اپنی انگلیاں چاٹ رہے تھے ۔
برباد بستی کے ہم دوچار دوست ایئر پورٹ کے دور افتادہ کونے میں بیٹھے چائے پی رہے تھے ۔ ہم برباد بستی کے دوچار دوست اپنی بستی کے باغی بڈھے سید حیدر علی صدیقی کو لینے آئے تھے ۔ وہ شاعر وغیرہ نہیں تھے لہٰذا باغی ان کا تخلص نہیں تھا ۔ اپنی جنونی کیفیت کی وجہ سے سب ان کو باغی بڈھا کہتے تھے،کوئی نہیں جانتا کہ وہ سید تھے یا صدیقی تھے ۔ انہوں نے جان بوجھ کر اپنے نام کے ساتھ دو ذاتیں یعنی سرنام آگے پیچھے لگا دیئے تھے ، ایک سید اور دوسرے صدیقی ۔ پوچھنے پر اپنے مخصوص انداز میں بات ٹال جاتے تھے ۔ کہتے تھے ” میری مرضی ، میں اپنی مرضی کا مالک ہوں ۔ میں اپنا نام شیخ حیدر علی شاہ بھی رکھ سکتا ہوں ۔ میں اپنا نام مرزا حیدر علی چانڈیو بھی رکھ سکتا ہوں“۔ لیکن آج کل بڈھے باغی جواب میں کچھ اور کہتے ہیں” اگر ایک زرداری اپنی مرضی سے بھٹو کہلا سکتا ہے تو میں سید حیدر علی صدیقی یا شیخ حیدر علی شاہ یا مرزا حیدر علی چانڈیو کیوں نہیں کہلا سکتا؟“
کراچی ایئر پورٹ کے دور افتادہ کونے میں چائے پیتے ہوئے ہم دوست سوچ رہے تھے کہ حج کرنے کے بعد حیدر علی کیا کہلائیں گے؟ حاجی حیدر علی صدیقی ! حاجی حیدر علی رضوی ! حاجی حیدر علی شاہ ! ہم ان کو کیا کہہ کر بلائیں گے؟
بہت دیر تک سوچنے کے بعد سب نے کہا، حیدر علی سر پھرا بڈھا ہے ۔ اچھا ہوگا کہ ہم اس بات کا فیصلہ اسی پر چھوڑ دیں وہ جو چاہے گا ، ہم اسی نام سے اس کو بلائیں گے ۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے کی بات ہے ۔ اتنے میں جہاز کی لینڈنگ کا اعلان کردیا گیا ۔ ادھر ادھر بکھرے ہوئے لوگ دوڑتے ہوئے آئے اور آناً فاناً ارائیول لاؤنج کے سامنے جم غفیر اکٹھا ہوگیا ۔ کافی دیر کے بعد کسٹم اور امیگریشن سے ہوتے ہوئے حجاج ایک ایک کرکے باہر آنے لگے ۔ جیسے ہی لدی لدائی ٹرالی کے ساتھ کوئی حاجی باہر آتا ، احباب ، دوست اور رشتہ دار ان پر پھول نچھاور کرتے ، ہار ان کے گلے میں ڈالتے اور لدی لدائی ٹرالی کا کنٹرول سنبھال لیتے ۔ یہ منظر دیکھتے دیکھتے دو گھنٹے گزر گئے لیکن ہمارے حیدر علی نظر نہیں آئے ۔ پوچھ گچھ کرانے کے بعد پتہ چلا کہ کسٹم والوں نے کچھ حاجیوں کو روک لیا تھا ۔ کچھ حاجی پچیس تیس واچز لائے تھے ۔ کچھ حاجی ایسے بھی تھے جن کی صندوقیں واچوں اور اسی طرح کی قیمتی اشیاء سے بھری ہوئی تھیں ۔ کچھ حاجی صاحبان اپنے ساتھ قیمتی کپڑے کے تھان اور بجلی کا سامان لے آئے تھے ۔ ان سب کو کسٹم حکام نے روک لیا تھا اور مرکزی سرکار کے افہام تفہیم کے اصولوں پر سختی سے عمل کرتے ہوئے روکے ہوئے حاجیوں کو مع مال کے چھوڑتے جارہے تھے اور خود بھی مالا مال ہوتے جارہے تھے ۔
برباد بستی کے ہم لوگ حیران اور کچھ کچھ پریشان تھے کہ باغی بڈھا اپنے ساتھ ایسی کونسی چیز لے آیا ہے کہ کسٹم حکام نے اسے روک لیا ہے ۔ بڈھا باغی ہم سب کی طرح کنگلا ہے، پھکڑ ہے ۔ ہم سب نے بڑے پاپڑ بیلنے کے بعد اسے حج کرنے کے ٹکٹ اور دیگر اخراجات کے لئے رقم جمع کرکے دی تھی ۔ کچھ لوگوں نے چندہ جمع کیا،کچھ لوگوں نے بھتہ وصول کیا، کچھ لوگوں نے خنجر کی نوک اور پستول کی نالی دکھا کر عید الاضحیٰ سے بہت پہلے ہزاروں بکروں ، دنبوں ، گائے ، بیل حتیٰ کہ اونٹوں کی کھالوں کے عوض رقم ہتھیالی تھی ۔ کچھ نوجوانوں نے خاصی تعداد میں موبائل فون اور پرس چھینے تاکہ معقول رقم اکٹھی ہوجائے اور ہم بڈھے باغی کو حج پر بھیج سکیں ۔ ہم نے طے کرلیا تھا کہ رقم کے ذرائع کی خبر باغی بڈھے تک پہنچنے نہیں دیں گے ورنہ وہ کسی بھی صورت میں حج کرنے کے لئے راضی نہیں ہوگا ہم سب سمجھنے سے قاصر تھے کہ کنگلا حیدر علی اپنے ساتھ کیا چیز لے آیا ہے کہ کسٹم حکام نے اسے روک لیا ہے ۔ ہمارے درمیاں بیٹھے ہوئے بونگے بادشاہ نے کہا ” میں سمجھتا ہوں حیدر علی حجر اسود چرا کر لے آیا ہے “۔ ” اوئے تو بکواس بند کر بونگے بادشاہ ۔ “ سب نے اسے ڈانٹا اور کہا ” تو جو پاکستان کا صدر بننے کا خواب دیکھتا رہتا ہے ، تیرا وہ خواب کبھی پورا نہیں ہوگا “۔
دوستوں نے مجھ سے کہا ” بالم بھائی تم پیر سائیوں کے معتقد ہو ۔ مکھی بن کر اندر جاوٴ اور دیکھو کہ باغی بڈھے کو کسٹم والوں نے کیوں روکا ہے؟ “
سندھ اور ملتان کے پیر سائیوں کی دعاوٴں سے میں آدمی سے مکھی بن کر کسٹم والوں کے پاس جا پہنچا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ کسٹم کے کچھ افسروں نے بڈھے باغی کو اپنے نرغے میں لے رکھا تھا ۔ میز پر کپڑے کا تھیلا پڑا ہوا تھا ۔ مجھے حیرت ہوئی کہ اتنی ذرہ سی کھجوریں وہ پوری بستی کے لوگوں کے لئے لے آیا تھا ۔ میں حیدر علی عرف بڈھے باغی کے کان پر جا بیٹھا اور اسے جلی کٹی سناتے ہوئے میں نے کہا ” گنتی کی کھجوریں لے آنے سے بہتر تھا کہ تو ہمارے لئے کچھ نہ لاتا“۔
” ابے بالم ہے کیا ؟ “ بڈھے باغی نے چونکتے ہوئے کہا” اس تھیلے میں کجھوریں نہیں،کنکر ہیں“۔ ایک کرخت کسٹم آفیسر نے بڈھے باغی سے کہا” سچ مچ کے پاگل ہو یا پاگل بننے کی اداکاری کررہے ہو؟ “ ” میں بالم بھائی سے بات کررہا تھا“۔ بڈھے باغی نے کہا“۔ میں پاگل نہیں ہوں“۔ ” لوگ کھجوروں کی بوریاں بھر کر لائے ہیں،کپڑا لائے ہیں،گھڑیاں لائے ہیں، عطر لائے ہیں“۔ کسٹم آفیسر نے پوچھا” اور تم کنکر کا تھیلا بھر کر لائے ہو اور پھر بھی کہتے ہوکہ تم پاگل نہیں ہو؟“
موٹی توند والے آفسر نے پوچھا ” کیا کروگے ان کنکروں کا؟ “ ” میں نے حج کے تمام ارکان پورے کئے تھے سوائے ایک کے، میں نے شیطان کو کنکر نہیں مارے تھے“۔ بڈھے باغی نے کہا” میں نے سوچا تھا کہ پاکستان میں شیطان اور اس کے حواریوں کی کمی نہیں ہے، یہ کنکر لے جاکر میں ان کو ماروں گا اور آخری رکن پورا کروں گا“۔
تازہ ترین