• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ ایک پرانا اور فضول سا لطیفہ ہے کہ جوئے کے ایک کھیل میں ایک بازی ایسی لگی کہ دو کھلاڑی اڑ گئے ان میں سے کوئی بھی نہ ”شو“ کرانے کو تیار نہ پتّے پھینکنے کو۔ ان میں سے ایک کے پاس تین اکّے تھے۔ اس نے تنگ آکر دوسرے سے کہا کہ یہ دیکھو۔ یہ تین اکّے…تم ہار گئے۔ دوسرے نے کہا کہ یہ بھی دیکھ لو…میرے پاس ستّے کی جوڑی ہے اور ایک پستول…تین اکّے والا سمجھدار تھا۔ بولا، ٹھیک ہے۔ تم جیت گئے۔ اس لطیفے پر ہنسی تو کسی کو کیوں آئے، رونے کا مقام یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جو کھیل کھیلے جاتے ہیں ان میں بھی پلہ اسی کا بھاری ہوتا ہے جس کے پاس ہتھیار ہوں۔ گویا تشدد اور قوت کو دلیل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر کسی کے پاس تین اکّے ہوں تب بھی اسے یہ ڈر رہتا ہے کہ دوسرے کے پاس کوئی پستول نہ ہو۔ میرا اشارہ صرف جرائم پیشہ افراد کی جانب نہیں ہے جو اسلحہ کے زور پر لوگوں کو لوٹ لیتے ہیں یا ڈاکے ڈالتے ہیں۔ ہتھیار کو آپ قوت کے معنوں میں لیں تو یہ تو ہمارے پورے نظام کی بنیاد ہے۔ دہشت گردی اور تشدد کی فضا میں طاقت کے غیرانسانی اور غیرمنصفانہ استعمال کو دیکھنے،سمجھنے اور بدلنے کے امکانات بھی پیدا نہیں ہو رہے۔
اب آپ یہ دیکھئے کہ انتہا پسند، خواہ وہ مذہبی ہوں یا سیاسی، اختلاف کرنے والوں کو بالکل برداشت نہیں کرتے۔ جمہوریت کے بارے میں کسی نے یہ کہا تھا کہ یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب آپ کو کسی سے اختلاف کرنے سے ڈر نہ لگے۔ امریکی صدر روزویلٹ نے جن چار بنیادی آزادیوں کا ذکر کیا تھا ان میں، اظہار کی آزادی اور عقیدے کی آزادی کے ساتھ خوف سے آزادی اور محتاجی سے آزادی کا ذکر تھا۔ ہم جس دنیا میں رہتے ہیں اس پر خوف کا راج ہے۔ مستقل یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کوئی ادارہ، کوئی گروہ، کوئی فرد جس کے پاس بندوق ہے ہم سے اتنا ناراض نہ ہو جائے کہ ہم اس کا ”ٹارگٹ“ بن جائیں اور اگر جان خطرے میں نہ ہو، تب بھی ایک باعزت اور پُرسکون زندگی گزارنے کی مہلت مشکل سے ملتی ہے۔ اگر آپ سنجیدگی سے اپنے پورے معاشرتی نظام کا مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ کہیں اقتدار کا ہتھیار استعمال ہوتا ہے،کہیں عقیدے کا اور کہیں فرسودہ روایات کا۔ انسانی تہذیب کے طویل سفر میں یہ بنیادی اصول تو کئی سو سال پہلے مان لیا گیا تھا کہ سب انسان برابر ہیں لیکن ہمارے معاشرے کے بڑے حصے میں اس برابری کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ یہ بھی انتہائی دکھ کی بات ہے کہ نچلے طبقے کے بیشتر افراد یا تو اسے اپنی تقدیر سمجھتے ہیں یا اپنی ذلت سے رہائی پانے کی ان میں سکت نہیں ہے۔ جسے ہم سماجی انصاف کہیں وہ کسی عدالت کے فیصلے سے قائم نہیں ہوتا۔ یہ وہ حقوق ہیں جن کا نفاذ ایک زندہ اور ترقی پذیر معاشرے کی پہچان ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ مقتدر طبقے کے بظاہر پڑھے لکھے لوگوں جنہوں نے دنیا دیکھی ہے اور جو اپنی سیاست میں جمہوریت اور عوام کے حقوق کی باتیں کرتے ہیں وہ بھی طبقاتی جبر کی روایات کو تبدیل کرنے کی شعوری کوشش نہیں کرتے۔ ایک مثال مجھے یاد آتی ہے ایک وڈیرے کے بیٹے کو میں جانتا تھا جب وہ کئی سال امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاکستان آیا تو اس نے جیسے پہلی بار اپنی سوسائٹی کی ناانصافی کو دیکھا۔ اس سے ایک ملاقات مجھے یاد ہے جب وہ اشتعال کی کیفیت میں تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ ہم اپنے نوکروں سے ایسا سلوک کیوں کرتے ہیں، یہاں اتنی غریبی کیوں ہے وغیرہ وغیرہ۔ مجھے توقع یہ تھی کہ وہ اپنے خاندان اور اپنی روایت سے بغاوت کرے گا۔ ایسا کچھ نہ ہوا۔ مہینوں اور سالوں بعد وہ معمول کے بہاؤ میں بہنے لگا۔ ہاں، اپنے ملازموں سے اس کا رویہ خاصا ہمدردانہ رہا۔ اپنی زمینوں اور اپنے علاقے میں اس کی حکمرانی برقرار رہی۔ یہی حال قبائلی اور نیم قبائلی علاقوں کے بڑے لوگوں کا ہے جو شہروں میں اپنے دوستوں اور واقفوں کے لئے کچھ اور ہوتے ہیں اور اپنے آبائی ماحول میں کچھ اور …کہنے کی بات یہ ہے کہ روایات کا اور قدامت پرستی کا ہتھیار بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ خواتین کے بارے میں جو نظریات صدیوں سے قائم ہیں ان میں تبدیلی ابھی تک جزوی ہے۔ ایک طرف طالبان کی دہشت گردانہ سوچ ہے کہ بچیوں کو تعلیم ہی نہ دی جائے تو دوسری طرف پڑھے لکھے گھرانوں میں بھی، پسند کی شادی کرنے والی لڑکیوں کو ان کے اپنے خاندان والے جان سے مار دیتے ہیں۔ یہ سب ہمارے ملک میں ہورہا ہے۔ ابھی، چار پانچ مہینے پہلے حیدرآباد کی ایک عدالت میں ایک وکیل نے اپنی بہن کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔ الزام وہی کہ اس نے اپنی زندگی کا ایک اہم فیصلہ خود کیوں کیا۔ اس واقعے کی بازگشت عالمی میڈیا میں بھی سنائی دی۔ عجیب بات ہے، جدید اور اعلیٰ تعلیم بھی کچھ لوگوں کو مہذب بنانے میں ناکام ہے۔اگر آپ یہ کہیں کہ خواتین کی تعلیم اور ترقی کا تعلق تہذیب سے نہیں ہے تو ضرور آپ کی سوچ پر طالبان جیسے انتہا پسندوں کا سایہ ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ یہ سایہ گہرا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایک طرف دہشت گردی میں یعنی ہتھیاروں کے وحشیانہ استعمال میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جیسے ملالہ پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ اسی ہفتے صحافی اور اینکرپرسن حامد میر کی کار کو بم سے اڑانے کی کوشش کی گئی۔ آزاد صحافت پر جس طرح بندوق تانی جا رہی ہے، یہ خوفناک علامتیں ہیں۔ فرقہ وارانہ دہشت گردی پاکستان کی اسلامی شناخت پر ایک حملہ ہے اور جس طرح اس دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے اس کی مثال ہم نے گزشتہ ہفتے دیکھ لی کہ نویں اور دسویں محرم کو کتنے غیر معمولی سیکورٹی انتظامات ضروری سمجھے گئے۔ انتہا پسندی کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کے ہاتھ میں جہالت کا ہتھیار بھی ہے۔ ان کے پیادوں میں زیادہ تعداد ایسے نوجوانوں کی ہے جن سے بات کرنا بھی مشکل ہے۔خوف کے اسی راج میں وہ لوگ کیا کریں جو ملک میں سماجی انصاف قائم کرنا چاہتے ہیں؟ جو ایک آزاد اور پُرامن معاشرے کا خواب دیکھتے ہیں؟ جو لڑکیوں کی تعلیم کو سماجی تبدیلی کی بنیاد جانتے ہیں؟ ایسے افراد کی مشکل یہ ہے کہ ان کے ہاتھ میں بندوق نہیں ہے، اگر ہوتی بھی تو اس سے خون خرابے میں اضافہ ہی ہوتا۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ کیا ہو اور کیا کچھ بدلے کہ جس چھوٹی بچی کو ٹریفک سگنل پر میں بھیک مانگتے دیکھتا ہوں وہ بڑی ہوکر ایک تعلیم یافتہ اور باوقار خاتون بن جائے۔ عقل کہتی ہے کہ یہ ممکن تو ہے اگر… اور اگر اس کا دارومدار حکمرانوں کی سوچ اور ان کی قوت عمل پر ہے۔ انتہا پسندی سے لڑنے میں جتنی دیر انہوں نے کی، اتنی ہی مشکلات پیدا ہوئیں۔ اب جو صورت حال ہے، کبھی ایسی تو نہ تھی۔ کھیل کوئی بھی ہو جیتنے کے حقدار تو عوام ہی ہیں، انہی کے ہاتھوں میں تین اکّے ہیں۔
تازہ ترین