• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کی شاید شدید ترین معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ قوم ایک طرف اربوں ڈالر کے غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے تو دوسری طرف برآمدات کے مقابلے میں درآمدات کا حجم بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے تجارتی خسارے سے دو چار ہے۔ اس صورت حال پر قابو پانے کے لئے عمران خان کی حکومت اپنے دو سب سے قریبی دوستوں چین اور سعودی عرب کی طرف دیکھ رہی ہے جو اس کی مشکل آسان کر سکتے ہیں۔ چین سے مستقل رابطے جاری ہیں جبکہ سعودی عرب کا ایک وفد بھی ان دنوں سعودی وزارت توانائی صنعت و معدنی وسائل کے مشیر احمد حمید الغامدی کی قیادت میں پاکستان کے دورے پر آیا ہوا ہے جس سے بات چیت جاری ہے اس حوالے سے پاکستان کی سعودی عرب سے ادھار تیل دینے کی باقاعدہ درخواست غیر متوقع نہیں ہے۔ بتایا گیا ہے کہ پاکستان نے تین ماہ تک روزانہ 2لاکھ بیرل تیل ادھار مانگا ہے۔ پاکستان مجموعی طور پر سالانہ2ارب 25کروڑ ڈالر مالیت کے تیل کی کم ازکم دو سال کے لئے ادھار خریداری کا خواہش مند ہے اور مالی مشکلات میں کمی کے لئے سعودی وفد سے گرانٹ دینے پر بھی تبادلۂ خیال کیا گیاہے، سعودی عرب پاکستان کو پیٹرولیم کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً مالی امداد بھی دیتا ہے جبکہ خلیج تعاون کونسل کے پلیٹ فارم سے تجارتی شراکت دار بھی ہے۔ دونوں ملکوں میں دو طرفہ تجارت کا حجم 15ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے پاکستان سعودی عرب کی دفاعی ضروریات پوری کرتا ہے اور حرمین شریفین کے تحفظ کے عہد پر کاربند ہے۔ 1979 میں جب مرتدین نے خانہ کعبہ کے تہ خانے پر قبضہ کرلیا تھا تو پاک فوج کے کمانڈوز نے اسے آزاد کرایا تھا۔ مضبوط فوجی، اقتصادی، تجارتی، ثقافتی، مذہبی اور سیاسی رشتوں میں منسلک ہونے کی بنا پر دونوں ملک اسٹرٹیجک پارٹنرز ہیں۔ سعودی عرب نے نہ صرف دیامر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی تعمیر میں سرمایہ کاری کے لئے دلچسپی ظاہر کی ہے بلکہ توانائی اور کئی دوسرے شعبوں میں بھی اس کے بھاری سرمایہ لگانے کے روشن امکانات ہیں۔ اس سلسلے میں سعودی وفد کے دورے کے دوران مختلف معاہدوں پر دستخط ہوں گے جنہیں حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ توقع ہے کہ سعودی عرب سے ادھار تیل کی خریداری بھی انہی معاہدوں کا حصہ ہو گی۔ ادھار تیل خریدنا کوئی نئی روایت نہیں ہے۔ دنیا کے کئی دوسرے ممالک بھی اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے اس طرح کے فیصلے کرتے رہتے ہیں۔ ہماری ضرورت اگر سعودی عرب پوری کر لے تو ہمیں قرضوں کے لئے آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی اداروں سے رجوع نہیں کرنا پڑےگا اور یوں قوم اپنے ایک مہربان دوست کی مدد سے قرضوں کے مزید بوجھ سے بچ جائے گی۔ فی الوقت آئی ایم ایف کا ایک مشن بھی پاکستان آیا ہوا ہے وزارت خزانہ اور ایف بی آر سے اس کی تفصیلی بات چیت ہوئی ہے اس نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ مالی وسائل بڑھانے کے لئے مزید محصولات لگائے۔ اس نے ضمنی بجٹ میں لگائے گئے ٹیکسوں پر بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آئی ایم ایف سے مزید قرضہ لینے کی قوم کو کتنی بھاری قیمت چکانا پڑے گی اس لئے حکومت کی پہلی ترجیح یہی ہونی چاہیئے کہ آئی ایم ایف یا کسی بھی عالمی مالیاتی ادارے سے قرضہ لینے کی بجائے خود انحصاری کی راہ اختیار کرے۔ قرضوں پر انحصار کم کر کے قومی وسائل کو زیادہ سے زیادہ بروئے کار لائے اس سلسلے میں وزیراعظم کی کفایت شعاری کی مہم لائق تحسین ہے حکومت خسارے میں چلنے والے قومی اداروں کو منافع بخش بنانے کے لئے اقدامات کرے۔ برآمدات میں اضافے کے لئے ترغیبات بڑھائے۔ ملکی پیداوار بڑھانے پر توجہ دے کاروباری افراد کے لئے آسانیاں پیدا کرے۔ پالیسی سازوں کو ان معاملات میں قومی خدمت کے جذبے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ حکومت مثبت اقدامات سے قوم کو معاشی بحران سے نجات دلانے میں کامیاب ہو جائے گی۔

تازہ ترین