• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جوں جوں کراچی کی صورت حال بگڑ رہی ہے، امن وامان کی بحالی اور برقراری کیلئے نت نئی تجاویز سامنے آرہی ہیں۔ کہیں آواز اٹھتی ہے کہ رینجرز کو پولیس کے اختیارات دے دو۔ کوئی کہتا ہے کہ انٹیلی جنس اداروں کو متحرک کرو تاکہ واردات کی پیشگی اطلاع مل سکے۔ کوئی فوج بلانے کی بات کرتا ہے، تو کسی کے نزدیک یادگار قسم کا بے رحم آپریشن مسئلے کا حل ہے۔ ایک طبقہ بحالیٴ امن کیلئے سپریم کورٹ کے فیصلے کی دہائی دے رہا ہے کہ اس پر عمل نہ کر کے سندھ حکومت توہین عدالت کی مرتکب ہو رہی ہے۔ ہمارے وزیر داخلہ نے تو بے حد آسان نسخہ دریافت کرلیا ہے کہ موٹر سائیکلوں اور موبائل فون پر پابندی لگا دو اور چین کی بانسری بجاؤ، کیا مجال کہیں کوئی واردات ہوجائے۔ اسٹیک ہولڈر سیاسی جماعتیں بھی اپنا اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔ 19 نومبر کو سینٹ نے عوامی نیشنل پارٹی کی ایک قرارداد منظور کرتے ہوئے حکومت سے درخواست کی کہ کراچی کو اسلحہ سے پاک کرنے کیلئے موٴثر اقدامات کئے جائیں۔ اگلے روز (20 نومبر) قومی اسمبلی میں متحدہ قومی موومنٹ کی قرارداد منظور ہو گئی اگر ڈی ویپنائزیشن کرنی ہے تو پورے ملک میں کی جائے، جزوی اقدامات سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔
بنظر غائر دیکھا جائے تو متحدہ قومی موومنٹ کی قرارداد نسبتاً حقیقت پسندانہ ہے ہتھیاروں کی اسمگلنگ اور ملکی پیداوار کو ختم کئے بغیر کراچی یا ملک کے کسی بھی حصے کو اسلحہ سے پاک کرنے کا خواب دیوانے کی بڑ کے سوا کچھ نہیں۔ ہمارے ہاں اسلحہ برداری کی ایک روایت چلی آرہی ہے اور ہم اس خطے کے باسی ہیں جہاں اسلحہ کو مرد کا زیور کہا جاتا ہے جہاں اسلحہ کی غیرقانونی ساخت، خریدوفروخت، ترسیل اور نمائش پر پابندی تو ہے مگر اس پر عمل کرنے کو کوئی تیار نہیں بلکہ قانونی وغیرقانونی اسلحہ کی نمائش کو اسٹیٹس سمبل شمار کیا جاتا ہے۔ خیبر پختونخوا کی پرائیویٹ اسلحہ ساز فیکٹریاں پچھلے سو برس سے رواں دواں ہیں جہاں سادہ پستول سے لیکر جدید کلاشنکوف تک تیار کی جاتی ہے اور ایک اندازے کے مطابق ملک بھر میں صرف کلاشنکوف گن کی تعداد دو کروڑ کے لگ بھگ ہے۔
قبائلی سماج میں جڑیں رکھنے کی وجہ سے ملک کی آبادی کا بڑا حصہ روایتی طور پر دشمن دار ہے اور دشمن کے شر سے نمٹنے کیلئے اسلحہ پاس رکھنا ضروری خیال کرتا ہے۔ اصولی طور پر شہریوں کے مال وجان کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے مگر ہماری ریاست اس ذمہ داری کا جس قدر پاس کر رہی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ شہروں میں آباد امن پسند لوگ بھی ذاتی دفاع کیلئے اسلحہ کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔
کراچی ایک میٹرو پولیٹن شہر ہے جہاں پاکستان کے مختلف علاقوں سے آئے باشندے ہی نہیں دنیا بھر سے مختلف قومیتوں کے لوگ آباد ہیں ایسی جگہوں پر ہر کوئی اپنا کلچر ساتھ لیکر آتا ہے۔ بلوچستان یا پختونخوا سے آکر کراچی میں آباد ہونے والوں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اپنے ”روایتی زیور“ کو آسانی سے خیرباد کہہ دیں گے، عبث ہو گا۔ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں بھی لوگوں کو ہر قسم کا قانونی اور غیرقانونی اسلحہ متعلقہ تھانوں میں جمع کرانے کو کہا گیا تھا اور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی تھی۔ کوئی بھی اپنے ہاتھ کاٹ کر دینے کیلئے تیار نہ تھا پھر اسلحہ چھت پررکھا واٹر ٹینک نہیں کہ دور سے نظر آجائے۔ یہ چھوٹی سی چیز ہے جو دوسروں کی نگاہ سے پوشیدہ رکھنا چنداں دشوار نہیں۔ ایسے میں کون ہو گا جو اپنی ”ضرورت کی قیمتی چیز“ پولیس کے حوالے کر دے اور کیا ہماری پولیس اور قانون نافذ کرنے والی دیگر ایجنسیوں میں اتنی سکت ہے کہ ایک ایک گھر کی تلاشی لیکر اسلحہ برآمد کرسکیں۔ ماضی کا تجربہ گواہ ہے کہ اس قسم کی درشنی مہمات میں ہمیشہ لائسنس والا اسلحہ ہی پولیس کے ہتھے چڑھا جس کی وجہ سے شرفاء کو افسوسناک واقعات بھی پیش آئے اور یہ کہاں کا انصاف ہے کہ امن پسند شہریوں کو نہتا کر کے گینگسٹرز کے سامنے ڈال دیا جائے۔
ہم بھی کیا لوگ ہیں، دور کی کوڑی لاتے ہیں۔ جھاڑی کے گردوپیش کی دھنائی کر دیتے ہیں مگر اصل جگہ پر کبھی نشانہ نہیں لگاتے۔ مسئلے کے حقیقی حل کی جانب بالکل نہیں آتے۔ حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ کراچی کا مسئلہ سیاسی ہے اور اسے سیاسی طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی، سنی تحریک اور دیگر سمیت اسٹیک ہولڈرز ڈھکے چھپے نہیں مگر بدقسمتی سے مسئلے کو ہیڈ آن لینے کے بجائے شاطرانہ سیاست کے جال بچھائے بیٹھے ہیں۔ ڈے ٹو ڈے بنیاد پر کام چلانے والے ان لوگوں کو احساس ہی نہیں کہ ان کا یہ طرز فکروعمل ملک کی جڑوں کے ساتھ ان کی اپنی جڑوں کو بھی کھوکھلا کر رہا ہے ایسا نہ ہو کہ ان کی بساط بچھی رہ جائے اور زمانہ قیامت کی چال چل جائے۔ سو ہم سب کو منافقت چھوڑنا ہو گی، سینوں کو کھولنا ہو گا، دلوں کو ٹٹولنا ہو گا اپنے اپنے کارڈ میز پر رکھنا ہوں گے، اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا اعتراف کرنا ہو گا۔ یہ کیا بات ہوئی کہ میں تو فرشتہ ہوں سارا قصور دوسروں کا ہے اگر اللہ نے نطق میں برکت دی ہے تو اسے منفی شور شرابے کیلئے استعمال نہ کیا جائے جیسا کہ ٹی وی شوز میں ہو رہا ہے۔ متحارب گروہوں کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ دنیا کا موٴثر ترین ہتھیار دلیل ہے۔ گولی کا جواب گولی سے دے کر آپ دہشت کا توازن تو برقرار رکھ سکتے ہیں اور وہ بھی وقتی طور پر، مگر پائیدار امن کی طرف نہیں بڑھ سکتے۔
کراچی کی یہ جنگ فی الحقیقت مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی پشت پناہی سے جرائم پیشہ گروہوں کے درمیان لڑی جا رہی ہے جن میں لینڈ مافیا اور قبضہ گروپ بھی ہے، جن میں بھتہ خور اور ڈرگ بیرن بھی ہیں جن میں کم حیثیت ریت اور بجری والے بھی ہیں اور اسلحہ کے نامی گرامی اسمگلر اور بیوپاری بھی اور یہ سب اس قدر منظم، بے خوف اور طاقتور ہیں کہ انہیں بآسانی انڈر ورلڈ کا نام دیا جا سکتا ہے اور بزعم خود یہ سب اپنی اور اپنی اپنی پشت پناہ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی بقاء بلکہ بالادستی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ محدود سے علاقے میں لڑی جانے والی یہ ایک مقامی لڑائی ہے، جسے پورے کراچی کی جنگ قرار دینا نامناسب ہو گا کیونکہ قصائی کالونی، مچھر کالونی، خاموش کالونی، قصبہ کالونی، ملیر، لانڈھی، یوسف گوٹھ، خدا کی بستی، اورنگی، پیپری اور دھابیجی میں جب خانہ جنگی کا عالم ہوتا ہے تو اصل کراچی میں ہمیشہ کی طرح شانت اور سکون ہوتا ہے۔ سو کراچی کو بدنام کرنے کی بجائے تمامتر توجہ شہر سے کوسوں دور بسنے والی ان بدنصیب بستیوں پر دینے کی ضرورت ہے جو رقبہ اور آبادی کے اعتبار سے کراچی کا عشر عشیر بھی نہیں، زیادہ سے زیادہ 15/20 فیصد اور بس۔
کراچی میں بسنے والے جملہ سیاسی، لسانی، مذہبی اور نسلی پلیئرز ایک حقیقت ہیں اور کوئی بھی دوسرے کو اٹھا کر بحیرہ عرب میں پھینکنے سے رہا۔ متحدہ شہر کی بڑی سیاسی جماعت ہے اور اس کے تمامتر اسٹیکس اسی شہر میں ہیں۔ ان کے پاس جانے اور سستانے کیلئے کوئی خاص اور ٹھکانہ نہیں۔ وہ سندھی اور پاکستانی بعد میں ہیں پہلے کراچی کے شہری ہیں۔ الطاف حسین اس نکتے کو اپنے انداز میں یہ کہہ کر واضح کر چکے ہیں کہ پانچ کروڑ انسانوں کو تو بھارت بھی قبول نہیں کر سکتا۔ متحدہ کے مخالفین کو البتہ ایک بات کھٹکتی ہے کہ شہر کی آبادی کا 45% ہونے کے باوجود اردو اسپیکنگ کمیونٹی شہر کی 76% صوبائی نشستوں پر قابض ہے اگر پنجابیوں، پختونوں اور سندھیوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے نمائندگی حاصل نہیں تو اس کا کریڈٹ متحدہ کی اعلیٰ تنظیمی صلاحیتوں کو جاتا ہے باقی لسانی گروپ بھی تنظیم سازی بہتر کر کے بہتر انتخابی نتائج کی کوشش کر سکتے ہیں۔ مذہبی جماعتیں کبیدہ خاطر ہیں کہ ان کے پاؤں تلے کی زمین سرک گئی انہیں بھی الزام تراشی کی بجائے ازسرنو صف بندی کر کے انتخابی سیاست میں اترنے اور نقصانات کے ازالے کی کوشش کرنا چاہئے۔ غرض چیں بہ جبین ہونے اور ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی بجائے سبھی صبروتحمل اور مثبت سوچ کے ساتھ ایکشن پلان تیار کریں۔ 2005ء کے زلزلے اور فاٹا اور سوات آپریشن کے نتیجے میں کثیر تعداد میں پختونوں نے کراچی کا رخ ضرور کیا اور آج وہ 40 لاکھ کی تعداد میں ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اس پر بھی متحدہ والوں کو پریشان نہیں ہونا چاہئے کیونکہ بندوں کو باہر سے لا کر کوئی بھی ان کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے سے رہا۔پختونوں کی پختونخوا میں بھی ضرورت ہے سبھی کراچی اٹھ آئے تو ان کے اپنے گھر پر دوسری قومیتیں قبضہ کر لیں گی۔ 14% پنجابیوں سے بھی کوئی خدشہ نہیں ہونا چاہئے کہ شہر کی سیاست میں ان کی دلچسپی صفر سے زیادہ نہیں البتہ فرزندان وطن سندھیوں کی تشویش قابل فہم ہے کہ وہ اپنے ہی صوبے کے سب سے بڑے شہر اور کیپٹل سٹی میں محض 9% ہیں پورے سندھ پر ان کی حکومت ہوتے ہوئے بھی کراچی میں انہیں ڈھونڈنے کیلئے مائیکرو اسکوپ کی ضرورت پڑتی ہے۔
اور رہا کراچی کے مسئلے کا اصل حل تو یہ اسلحہ کے خاتمے کی بجائے مجرموں کے خاتمہ میں مضمر ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جس کا پوری طرح سے ادراک ہے اور وہ اس پر عمل درآمد کی پوری صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ ضرورت ہے تو صرف اور صرف سیاسی عزم کی جس دن یہ گوہر نایاب ہاتھ آگیا، کراچی بلکہ ملک بھر سے مجرموں کا صفایا ناممکن نہیں رہے گا۔
تازہ ترین