• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو کے مابین واشنگٹن میں ہونے والی ملاقات میں دوطرفہ تعلقات پر مذاکرات کا دور بغیر کسی ٹھوس نتیجے کے ختم ہو گیا تاہم دونوں ممالک نے افغان امن عمل میں طالبان کی شمولیت پر زور دیا جبکہ امریکہ نے اپنے ریفارم ایجنڈے پر عملدرآمد کے لئے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ ملاقات کے بعد جاری ہونے والے بیان میں بتایا گیا کہ ’’دونوں ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ افغان طالبان کے پاس یہی وقت ہے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل کے مواقع حاصل کریں۔ ‘‘ وائٹ ہائوس میں امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن سے شاہ محمود قریشی کی ملاقات کے بعد بیان جاری کیا گیا کہ ’’پاکستان، افغانستان میں افغان قیادت کی امن اور مصالحت کی کوششوں کی حمایت جاری رکھے گا۔ ‘‘ امریکہ کی طرف سے مذکورہ مذاکرات کے بارے میں کوئی موقف سامنے نہیں آیا۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں امن پاکستان اور امریکہ کی اولین ترجیح ہے لیکن یہ خواہش جموں و کشمیر کا بنیادی تنازع سمیت دیگر تنازعات حل کئے بغیر ممکن نہیں مذاکرات کے پیغام کو بھارت نے رد کیا۔ یہ حقیقت قابل استرداد نہیں کہ پاکستان اور امریکہ کو کل بھی ایک دوسرے کی ضرورت تھی، آج بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔70سالہ یہ تعلقات بہت سے اتار چڑھائو دیکھنے کے باوجود کسی نہ کسی طرح قائم ہیں تو اس کی کوئی ایک نہیں درجنوں وجوہات ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ امریکہ کے رویے میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سردمہری آتی گئی اور اب وہ افغانستان میں اپنے فوجیوں کے لاشے اٹھاتا ہے تو تلملا کر پاکستان کو دھمکیاں دینے لگتا ہے۔ پاکستان کا اس حوالے سے قومی بیانیہ یہ ہے کہ اب کسی اور کی جنگ نہیں لڑیں گے۔ شاید یہ نوبت نہ آتی لیکن بدقسمتی سے امریکہ کو ڈونلڈ ٹرمپ جیسا صدر مل گیا، جس کے اقدامات اور بیانات نے پوری دنیا کے امن کو دائو پر لگانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے نہ صرف پاکستان کی امداد بند کی، پاکستانی فوجی افسروں کی امریکہ میں تربیت کا سلسلہ ختم کر دیا بلکہ سی پیک کی بھی مخالفت کی۔ اس کے ساتھ ہی امریکی انتظامیہ پاکستان کو لالچ دینے پر بھی مستعد رہی تاہم پاکستان اپنے موقف پر قائم رہا۔ ٹرمپ اور امریکہ چاہتے ہیں کہ پاکستان افغانستان میں طالبان کا صفایا کرے جبکہ خود طالبان سے مذاکرات کے خواہاں ہیں۔ امریکہ خطے میں ڈبل گیم کر رہا ہے، ڈومور پاکستان سے کہتا ہے جبکہ بھارت کو مضبوط تر کرنے میں مشغول ہے۔ اسی تناظر میں امریکہ سی پیک کا بھی مخالف ہے کہ یہ منصوبہ چین اور پاکستان کو معاشی استحکام ہی نہیں بخشے گا بلکہ اس سے خطے کے ممالک کے باہمی مراسم بھی مضبوط ہوں گے۔ روس اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے یکجا ہونے سے کشمیر کے مسئلے کے حل کی صورت بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سی پیک امریکہ، بھارت اور اسرائیل کے لئے ناقابلِ قبول ہے۔ مثال ایک عرب ملک کی ہے جس کے بارے میں خبر آتی ہے کہ وہ سی پیک کا تیسرا پارٹنر ہو گا لیکن دوسرے ہی روز حکومت کا یہ بیان سامنے آجاتا ہے کہ عرب ملک 50ارب ڈالر مالیت کے سی پیک معاہدے میں شریک نہیں ہو گا۔ عرب ملک کی جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری کی نوعیت مختلف ہو گی، اس عمل کو دبائو سے تعبیر کیا جا رہا ہے ۔تاہم وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا دورہ امریکہ اس اعتبار سے کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے کہ دونوں ملکوں نے امن کے لئے مل کر کام کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ حالات کا جائزہ لیا جائے تو اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ ہے بھی نہیں۔ احسن عمل یہ ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے مابین سردمہری کے خاتمے کی امید پیدا ہوئی ہے اور پاکستان نے افغانستان، بھارت اور کشمیر کے بارے میں کھل کر اپنے موقف کا اظہار کیا ہے، جس پر امریکہ کو اس لئے بھی غور و خوض کرنا ہو گا کہ وہ افغانستان میں رسوائی سے بچ سکے۔ پاکستان کے لئے بہتر یہ ہے کہ وہ امریکہ کی مخاصمت سے بچا رہے ۔

تازہ ترین