• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاست میں حادثاتی طور پر کچھ  نہیں ہوتا، اگر کوئی حادثہ بھی ہو تو آپ شرطیہ طور پر کہہ سکتے ہیں کہ اس کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔(سابق امریکی صدر، فرینکلن ڈی روزویلٹ)

رانا مشہود کا بیان خیال خام ہی تھا مگر اس پر ردعمل نے اسے چھو کر پارس پتھر کی طرح کندن کر ڈالا ۔حالانکہ اس سے قبل ایسے لایعنی و بے معنی بیانات نظر انداز کئے جانے کے سبب اپنی موت آپ مرجایا کرتے تھے ۔اگر قوم کا حافظہ اور یادداشت زیادہ کمزور نہیں تو خاموشی کو اظہار بنانے کی شاعرانہ تعلی تو یاد ہوگی۔

دھرنوں کے دوران امپائر کے انگلی اٹھانے کی باتیں ہوتی رہیں ،جاوید ہاشمی تحریک ا نصاف سے الگ ہوئے تو عمران خان سے منسوب خوفناک انکشافات کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا ۔بذات خود عمران خان انتخابات سے قبل ان خدشات کا اظہار کرتے رہے کہ ان کے سیاسی مخالفین کو این آر او دینے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔اور پھر شیخ رشید کے کیا کہنے ،فرزند راولپنڈی ہونے کے ناتے ان کا تو حقِ شفع بنتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ ڈنکے کی چوٹ پر اداروں کی ترجمانی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔شیخ رشید نے بارہا ایسے بیانات دیئے جو وضاحت طلب تھے اور جن سے ابہام پیدا ہوا لیکن ایسے کسی بیان کو درخور اعتناء نہیں سمجھا گیا ۔بعض سادہ لوح افراد کا خیال ہے کہ رانا مشہود کے خیالِ خام پر بھی حسب دستور خاموشی کی زبان سے ہی جواب دیا جاتا لیکن کیا ہے کہ یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے ،یہ بڑے نصیب کی بات ہے ۔ہزاروں اور لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں بدقسمت سنگریزوں میں سے کوئی ایک آدھ ہی ایسا خوش بخت ہوتا ہے جسے پارس چھو کر انمول کردے ۔اب یہ اعزاز رانا مشہود کے حصے میں آیا تو شکایت کیسی؟

شریف خاندان کے زیر عتاب آنے کے بعد مسلسل ڈیل اور این آراو کی باتیں ہورہی ہیں ۔ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں نااہلی کے بعد احتساب عدالتوں میں نیب کے دائر کئے گئے ریفرنسز پر سماعت آخری مراحل میں داخل ہوئی اور نوازشریف اپنی بیٹی مریم نواز کے ہمراہ کلثوم نواز کی عیادت کے لئے لندن گئے تو باخبر اینکرز نے بتایا کہ کھیل ختم ہو گیا ہے اور اب نوازشریف کبھی پاکستان واپس نہیں آئیں گے ۔چند روز تک یہ باتیں اس قدر وثوق سے کی جاتی رہیں کہ ’’واٹس ایپ زدہ صحافت‘‘ سے کوسوں دور رہنے والے صحافی بھی ایک بار یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ کہیں واقعی کوئی مفاہمت تو نہیں ہو گئی ۔لیکن قصور کی زینب انصاری کے قاتل عمران علی کے بینک اکائونٹس کی طرح یہ کہانیاں جھوٹی ثابت ہوئیں اور نواز شریف نے مریم نواز کیساتھ واپس آکر گرفتاری دیدی ۔انتخابات سے قبل بھی ڈیل یا ڈھیل کے الزامات لگائے جاتے رہے ،شہبازی مسلک کے انداز و اطوار سے بھی بعض اوقات محسوس ہوتا کہ یہ خدشات بے جا نہیں ۔لیکن حالات جوں کے توں رہے تحریک انصاف کی حکومت تشکیل پانے کے بعد ایک بار پھر نوازشریف سے مفاہمت کی باتیں ہونے لگیں ۔ باخبر اینکرز نے بتایا کہ سعودی عرب نے نوازشریف کو رہا کرنے کے بدلے دس ارب ڈالر دینے کی پیشکش کی ہے کلثوم نواز کے سانحہ ارتحال پر نوازشریف اور مریم کی پیرول پر رہا ئی نے ان خبروں میں نئی جان ڈال دی سعودی عرب اور ترکی کے سفیروں نے جاتی امرا میں نوازشریف کو پرسہ دینے کے لئے ملاقاتیں کیں تو مفاہمت کی افواہوں نے زور پکڑ لیا۔چند روز بعد ہی اسلام آباد ہائیکورٹ نے احتساب عدالت کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے نوازشریف ،ان کی صاحبزادی اور داماد کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیاتو افواہ ساز فیکٹریوں کی پیداوار میںکئی گنااضافہ ہوگیا۔لیکن سعودی وفد پاکستان آیا تو دس ارب ڈالر کے پہاڑ سے اُدھار تیل کا چوہا نکلا اور وہ بھی مرا ہوا۔فرض کریں ،نوازشریف چی گویرا نہیں بلکہ ایک روایتی سیاستدان ہے جس کا مقصد ووٹ کو عزت دلوانا نہیں بلکہ اپنا کھویا ہوا مقام واپس پانا ہے اور وہ ڈیل کرنے کے لئےبہت بیتاب ہے تو یہ ڈیل کس سے ہوگی ؟حکومتِ وقت ،عدلیہ یا پھر اسٹیبلشمنٹ سے ؟یقیناً آپ کاجواب ہوگا کہ عدلیہ اور حکومتِ وقت کی کیا مجال کہ ڈیل یا ڈھیل دے ،ایسی کوئی مفاہمت ہوتو لامحالہ طاقتور اسٹیبلشمنٹ سے ہی معاملات طے کرنا پڑیں گے ۔اگر اس حوالے سے واقعی کوئی بات چیت ہو رہی ہے تو نوازشریف کی زجر وتوبیخ اور لعن طعن سے فرصت پاتے ہی ایک آدھ حرفِ ملامت اس اسٹیبلشمنٹ کے لئے بھی رکھ چھوڑیں جو ’’مودی کے یار‘‘ سے رسم و راہ بڑھا رہی ہے ،کوئی سنگِ ملامت بطور علامت اس کٹھ پتلی حکومت کی طرف بھی اچھال دیں جو ’’چور ٹبر‘‘ سے ڈیل ہوتی دیکھ کر بھی اقتدار سے چمٹے ہوئی ہے ۔اس کے برعکس اگر آپ کے خیال میں ڈیل یا ڈھیل کا دور دور تک کوئی امکان نہیں تو پھر ان جھوٹوں پر لعنت بھیجنا نہ بھولیں جو ڈیل کا تاثر دیکر یہ ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ نوازشریف چی گویرا نہیں بلکہ ایک روایتی سیاستدان ہے۔

ہاں البتہ نوازشریف اور ان کی صاحبزادی کی طویل چُپ بہت معنی خیز ہے۔ناصر کاظمی حیات ہوتے تو پوچھتے :

چُپ چُپ کیوں رہتے ہو ناصر

یہ کیا روگ لگا رکھا ہے

روگ اور سوگ کا پسِ منظر تو ہم سب جانتے ہیں مگر منصب ِقیادت کے بھی کچھ تقاضے ہوا کرتے ہیں۔اپنے پیاروں کی جدائی کے غم میں گھلتے رہنا رسم ِ دنیا ہے توذاتی صدمے سے بالاتر ہو کر قومی المیے پر اظہار خیال بھی دستورِ زمانہ ہے۔بلاشبہ خموشی اِک انداز گفتگو ہے اور بے زبانی بھی شیوہ کلام ہے لیکن بہت ہو چکی اجزائے ہستی کی پریشانی ،یہ خاموشی کہاں تک؟ لذت فریاد پیدا کر۔ نوازشریف نے لب سی لئے ہیں تو کم ازکم مریم نوازکو چیخنا چاہئے ؟باقی صدیقی نے کہا ہے:

باقی جو چُپ رہو گے تو اٹھیں گی انگلیاں

ہے بولنا بھی رسمِ جہاں بولتے رہو

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین