• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ضمنی انتخابات کے نتائج آئندہ کی سیاست کا رخ متعین کریں گے

مقصود اعوان، لاہور

وفاقی دارالحکومت سمیت چاروں صوبوں میں 14اور 21اکتوبر کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 39حلقوں میں ضمنی انتخابات کے لئے جوڑ توڑ اور تیاریاں آخری مراحل میں داخل ہو گئیں۔ان ضمنی انتخابات میں پنجاب میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے 37حلقوں میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کے درمیان میں اصل انتخابی معرکے ہوں گے ۔صدر ڈاکٹر عارف علوی وزیر اعظم عمران خان اسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی ، قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف اور وفاقی وزراء فواد چودھری اور غلام سرور خاں سمیت دیگر سرکردہ اراکین کی خالی کردہ نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے لئے امیدواروں کی انتخابی مہم فیصلہ کن رائونڈ میں داخل ہو گئی ہے ۔ان ضمنی انتخابات میں اپنے امیدواروں کی کامیابی کے لئے دونوں پارٹیوں کے سرکردہ افراد سردھڑ کی بازی لگا رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کے جن 12حلقوں میں انتخاب ہوا ہے ان میں پاکستان تحریک انصاف کے 7مسلم لیگ (ن) کے ایک مسلم لیگ (ق) کے 2اراکین نے خالی کیں ہیں جبکہ دو حلقوں میں این اے 103فیصل آباد سے امیدوار کی خودکشی اور این اے 60راولپنڈی سے مسلم لیگ (ن)کے امیدوار حنیف عباسی کے عدالت سے عمر قید کی سزا ہونے پر انتخاب ملتوی ہونے پر اب 14اکتوبر کو پولنگ ہوگی۔ 

کے پی کے کے این اے 35بنوں کی وزیر اعظم عمران خان کی خالی کردہ نشست پر پاکستان تحریک انصاف اور متحدہ مجلس عمل اور اس کی اتحادی جماعتوں کے مشترکہ امیدوار کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہے جبکہ کراچی صدر مملکت اور وزیر اعظم عمران خان کی خالی کردہ دو نشستوں این اے 247اور این اے 231کراچی پر پاکستان تحریک انصاف، پیپلز پارٹی ، ایم کیو ایم کے امیدواروں کے درمیان ہی انتخابی میدان لگے گا جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور لاہور سے وزیراعظم عمران خان اور این اے 53، این اے 131،این اے 56اٹک ، این اے 60راولپنڈی اور این اے 63راولپنڈی اور این اے 124لاہور پر ہونے والے ضمنی انتخاب میں پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن)کے امیدواروں کے درمیان ہی اصل مقابلے ہوں گے جس کے لئے دونوں بڑی حکمران اور اپوزیشن جماعتیں ایک دوسرے کو انتخابی میدان میں مات دینے کے لئے سرگرم عمل ہیں ۔ان کے علاوہ پنجاب کے ضمنی انتخاب میں اسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی اپنی قومی اسمبلی کی دونوں نشستوں این اے 65چکوال اور این اے 69گجرات اپنے خاندان کے افراد کو قومی اسمبلی کے ایوانوں تک پہنچانے کے لئے بڑی موثر انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ میئر چودھری پرویز الٰہی کے چکوال اور گجرات کے دونوں انتخابی حلقوں میں انتخابی و سیاسی جوڑ توڑ کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن)کے امیدوار ضمنی انتخاب سے قبل ہی ہمت ہار چکے ہیں۔ قومی اسمبلی ان دونوں حلقوں میں سابق وزیر اعظم چودھری شجاعت حسین کے صاحبزادے چودھر ی سالک حسین اور چودھری پرویز الٰہی کے صاحبزادے چودھری مونس الٰہی کے کامیابی کے واضح امکانات ہیں ۔

اس طرح لاہور میں وزیر اعظم عمران خان اور قائد حزب اختلاف پنجاب حمزہ شہباز کی خالی کردہ قومی اسمبلی کے دونوں حلقوں میں ضمنی انتخاب کی سب سے بڑ ی انتخابی جنگ لڑی جا رہی ہے ان حلقوں کے انتخابی نتائج پر عوام کی نظریں لگی ہوئی ہیں ۔میاں حمزہ شہباز نے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ (ن)کے امیدواروں کی کامیابی کے لئے انتخابی مورچہ سنبھال رکھا ہے اور وہ اپنے رفقاء کار کے ساتھ بڑے موثر انداز میں این اے 124میں مسلم لیگ (ن)کے امیدوار سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں ان کے مقابلے پی ٹی آئی کے غلام محی الدین کی اکیلے انتخابی مہم چلانے سے لگتا ہے کہ شاہد خاقان عباسی کی جیت کی راہ میں کوئی بڑی رکاوٹ نہیں۔تاہم وزیر اعظم عمران خان کی خالی نشست این اے 131پر پاکستان تحریک انصاف اپنے امیدوار ہمایوں اختر خاں کو کامیاب کرانے کے لئے بڑی سرگرم ہے اس حلقے میں مسلم لیگ(ن)کے خواجہ سعد رفیق بڑے مضبوط امیدوار ہیں ان کی موثر انتخابی مہم کے نتیجے میں انتخابی نتائج کے بارے کوئی پیشگوئی کرنا بہت مشکل ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ہمایوں اختر خاں کے لئے گورنر پنجاب چودھری محمد سرور اور سینئر وزیر عبدالعلیم خاں اور ان کے رفقاء کار یہ نشست جیت کر پارٹی قائد عمران خاں کی امانت ان کو واپس کرنا چاہتے ہیں لیکن مسلم لیگ(ن)کے قائد سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی جیل سے رہائی کے بعد مسلم لیگی کارکنوں میں نیا حوصلہ اور ولولہ دیکھنے میں آیا ہے۔جس سے چاروں مسلم لیگی امیدواروں کی انتخابی مہم میں جان پڑ گئی ہے۔ دوسری جانب وزیراعظم کے پی ٹی آئی کے وزراء کو ضمنی انتخابات میں سرکاری مداخلت سے روک دینے سے بھی پاکستان تحریک انصاف کے لئے مسلم لیگ(ن)سے سیاسی قلعہ لاہور کو سر کرنے کے خواب کا پورا ہونا مشکل ہو گیا ہے۔

اگر پاکستان تحریک انصاف این اے 131کی نشست پر دوبارہ کامیاب ہو گئی تو یہ کسی معجزے سے کم نہیں ہو گا تاہم اس کا حتمی فیصلہ لاہور کے عوام 14اکتوبر کو اپنے ووٹ سے کریں گے۔ پنجاب کے دیگر اضلاع میں ہونے والے ضمنی انتخاب بھی بعض وفاقی اور صوبائی وزراء کے لئے کسی امتحان سے کم نہیں ہوں گے اگر وفاقی و صوبائی وزراء اپنے متعلقہ اضلاع میں پی ٹی آئی کے اراکین کی خالی نشستوں پر امیدوار دوبارہ کامیاب نہ کروا سکے تو ان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھ سکتے ہیں تاہم ضمنی انتخابات کے نتائج کچھ بھی ہوں اس سے آئندہ سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کے حکم پر پنجاب میں بڑے بڑے قبضہ گروپوں کے خلاف آپریشن کا آغاز ہو گیا۔ وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کی زیر صدارت اہم اجلاس میں پنجاب کے بڑے بڑے شہروں میں اربوں روپے مالیت کے کمرشل پلاٹوں کو بااثر قبضہ مافیا سے واگزار کرانے کی منظوری دی ہے قبضہ مافیا کے خلاف آپریشن لاہور سے شروع کیا ہے ان سرکاری زمین پر بڑے بڑے جرائم پیشہ اور بدمعاش قبضہ گروپ کئی برسوں سے قابض تھے ان قبضہ گروپوں کو وکلاء بیوروکریٹ پولیس اور سیاسی شخصیات کی پشت پناہی حاصل ہے جب ایک پولیس افسر نے لاہور میں قبضہ مافیا کے خلاف اپریشن کے دوران پی ٹی آئی کے ایم این اے کے ٹیلی فون کا چیف جسٹس آف پاکستان کو بتایا کہ انہوں نے سیاسی شخصیت کی سرزنش کی اور دونوں اراکین اسمبلی کو قبضہ گروپ کے سرغنہ منشاء بم کی سفارش کرنے پر اسمبلی کی رکنیت خطرے میں پڑ گئی ۔ پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی ملک کرامت کھوکھر برادری کا شریف النفس شخص جانے جاتے ہیں انہیں صرف فون کرنے کی پاداش میں عدالت عظمیٰ سے معافی مانگ کر جان چھڑانا پڑی۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین