• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو کے نواح میں ایک جھیل کے کنارے کسی جاپانی نے دیکھا کہ ایک مرغابی کے جسم میں ایک چھوٹا سا تیر پیوست ہے۔وہ تیر غالباً کسی بچے کے کھلونے کا حصہ تھا اور کسی بچے نے ہی نادانی میں وہ تیر چلا کر مرغابی کا شکار کرنا چاہا لیکن تیر چھوٹا ہونے کیوجہ سے مرغابی کو مارتو نہ سکا لیکن اس کے جسم میں پیوست ہو گیا۔جاپانی شہری نے اس زخمی مرغابی کو دیکھا تو اس نے ریسکیو والے عملے کو فون کردیا۔دیکھتے ہی دیکھتے ریسکیو کا عملہ گاڑیوں سمیت وہاں پہنچ گیا۔لیکن جب مرغابی کو پکڑنا چاہا کہ اس کے جسم میں پیوست تیر نکال دیا جائے تو مرغابی اڑان بھر کر جھیل کے دوسرے کنارے پر چلی گئی۔یہ صورتحال دیکھ کر ریسکیو کے عملے نے اپنے ہیڈکوارٹر سے مزید مدد مانگی اور دیکھتے ہی دیکھتے ریسکیو کا ہیلی کاپٹر اپنے عملے سمیت وہاں پہنچ گیا اور یہ بات جاپانی میڈیا تک بھی پہنچ گئی۔ ریسکیو عملہ اس مرغابی کو علاج کی غرض سے پکڑنا چاہ رہا تھا اور میڈیا کے لوگ ملک بھر کے عوام کو لائیو کوریج کے ذریعے آگاہ کر رہے تھے یوں جاپان کے بچے، مرد اور خواتین اس مرغابی کے بارے میں متفکر ہو گئے۔ ہرکوئی اس بے زبان پرندے کی تکلیف کے حوالے سے پریشان تھا اور انہیں یہ فکر لاحق تھی کہ کہیں یہ مرغابی اس چھوٹے تیر کی وجہ سے مر نہ جائے۔کئی گھنٹوں کی تگ و دو کے بعد مرغابی کو پکڑ کر اسے ویٹرنری ہسپتال لے جایا گیا۔جوں ہی مرغابی میڈیا کے کیمروں کے سامنے سے اوجھل ہوئی، درد دل رکھنے والے مزید پریشان ہو گئے۔حالانکہ میڈیا پر کسی سربراہ مملکت کی طرح اس کی صحت کے حوالے سے آگاہ کیا جا رہا تھا۔خدا خدا کرکے مرغابی کا تیر نکال کر اس کے زخم کا علاج کرنے کے بعد اسے ایک عوامی ہجوم کے سامنے فضاء میں اڑا دیا گیا۔لوگوں نے تالیاں بجا کرخوشی کا اظہار کیا اور یوں ایک بے زبان پرندے کی جان بچ گئی۔ شاید وہ پرندہ کہیں جا کر جاپان کے لوگوں کے لئے سٹیٹمنٹ تو نہ دے سکے، شاید جاپان کی حکومت اور وہاں کے ریسکیو کے ادارے کے حق میں پریس کانفرنس بھی نہ کرسکے لیکن اس پرندے کے ذریعے ان کے اپنے ہی ملک کے لوگوں کو یہ پیغام ضرور گیا ہو گا کہ انسان توانسان، چرند پرند بھی اللہ کی مخلوق ہیں اور ان کو بھی دکھ اور تکلیف سے بچانا چاہئے۔
28نومبر کو کراچی میں اسٹیٹ لائف بلڈنگ سے ایک نوجوان کے جاں بحق ہونے کی خبریں سب نے دیکھی اور پڑھی ہوں گی۔23 سالہ یہ نوجوان جس کا نام اویس بیگ بتایا جاتا ہے، ایک مریض باپ کا بیٹا تھا جس نے نہ صرف بی کام کر رکھا تھا بلکہ بی کام کے امتحانات میں پہلی دس پوزیشنیں حاصل کرنے والے اسٹوڈنٹس میں اس کا نام شامل تھا۔یہ نوجوان ایم بی اے کرنا چاہتا تھا لیکن پڑھائی کے ساتھ ساتھ محنت کرکے اپنے اخراجات اور گھروالوں کی مدد بھی کرنا چاہتا تھا۔ اویس بیگ پانچ بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھا۔اس کی بڑی بہن کی شادی ہوچکی ہے اوراویس بیگ اپنے والدین کا بوجھ بانٹنا چاہتا تھا۔وہ اسٹیٹ لائف بلڈنگ کے آٹھویں فلور پر کے ای ایس سی کے دفتر میں انٹرویو کیلئے گیا تھا۔وہ شارٹ لسٹ ہو چکا تھا اور اس کا فائنل انٹرویوہونا تھا۔ اس کے ساتھ اس کے دو دوسرے دوست بھی تھے کہ اچانک شارٹ سرکٹ کی وجہ سے بڑی عمارت کے نچلے فلور پر آگ لگ گئی، آگ کے شور اور اسی دوران بجلی کی معطلی نے ماحول کو خطرناک صورتحال سے دوچار کردیا۔اویس بیگ نے گھبرا کر اپنے دوستوں کو آواز دی لیکن کوئی جواب نہ آنے پر وہ اپنے اوسان بحال نہ رکھ سکا اور شاید اس کے ذہن میں بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں لگنے والی آگ اور اس سے ہونے والی ہلاکتوں کے واقعہ نے مزید خوف پیدا کردیا تھا۔ اویس بیگ نے کھڑکی کے راستے باہر نکلنے کی کوشش کی چونکہ آٹھویں منزل سے کھڑکی کے راستے نکلنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے، گھبراہٹ میں اویس بیگ اس کھڑکی سے لٹک گیا۔بلڈنگ کے نیچے لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہو گیا۔گزرتی ٹریفک میں بھی لوگ اس نوجوان کو یوں زندگی اور موت کے درمیان لٹکا دیکھتے رہے۔میڈیا کے لوگ بھی اپنے کیمرے لے کر پہنچ گئے اور شاید سب ہی اس لڑکے کے گرنے کا انتظار کرنے لگے۔ بلڈنگ میں آگ کا خطرہ بھی لوگوں کو اس کی مدد سے دور رکھنے پرمجبور کر گیا اورجو ہمارے بارے میں لطیفہ مشہور ہے کہ یہاں پیزا اور فاسٹ فوڈ ہوم ڈیلیوری کیلئے دس سے پندرہ منٹ میں پہنچ جاتا ہے لیکن پولیس، ڈاکٹر یا فائربریگیڈ گھنٹوں میں آتی ہے۔بس اویس بیگ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا وہ بے چارا پندرہ منٹ تک انتہائی بے بسی کے ساتھ سینکڑوں لوگوں کے سامنے لٹکتا رہا اسی دوران اویس بیگ نے ضرور اپنی ماں کو پکارا ہوگا، اپنے باپ کو یاد کیا ہوگا اپنی بڑی بہن جسے اس نے اپنے ہاتھوں سے ڈولی میں بٹھایا ہوگااویس کو اپنی اس بہن کی یادتو آئی ہو گی، اپنی چھوٹی بہن اور دونوں بھائیوں کو پکارا توہوگا۔اپنی زندگی کے سارے خواب اس کے ذہن میں ایک فلم کی طرح چل رہے ہونگے، ایک عام نوجوان کی طرح کبھی وہ بھی اپنی کرکٹ ٹیم کی جیت پر خوش یا غم ناک ہوا ہو گا۔ملک کی ہر کامیابی پر اس کا بھی سر فخر سے بلند ہوا ہوگا۔لیکن آج اپنے ہی ملک میں اس کا کوئی غم خوار ایسا نہ تھا جو اسے زندگی دے سکے اور اس اپنے ہی دیس میں اویس کے لئے کوئی ہیلی کاپٹر اڑان نہ بھر سکا۔لوگ اس کی بے بسی کا تماشا تو دیکھتے رہے لیکن کسی نے اس زمین پر حفاظتی طور پر فوم کے گدے نہ بچھائے جہاں کچھ دیر کے بعد گر کر اویس نے دم توڑ دینا تھا۔
کاش وہ جاپان میں رہنے والی ایک مرغابی ہوتا۔۔۔۔!
تازہ ترین