• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مہذب اور ترقی یافتہ معاشرے، امن عامہ، پولیس، شہری دفاع، ہنگامی طبی امداد، بنیادی ضروریات زندگی، میونسپل عدالتوں، پبلک ٹرانسپورٹیشن، پبلک ورکس، گلیوںاور صحت و صفائی سے متعلق معاملات میں ہمہ وقت متحرک اور مربوط بلدیاتی نظام سے سے آراستہ ہوتے ہیں۔ جس ملک میں بلدیاتی نظام عوامی ضروریات کے عین مطابق ہو، عوام اور حکومت کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتا ہو وہاں حکومت کو قومی پروگراموں اور منصوبوں پر زیادہ سے زیادہ کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔ پاکستان کی آبادی کا 60فیصد سے زیادہ حصہ دیہی ہے جہاں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ اور متحرک بلدیاتی نظام کا وجود دیگر ترقی یافتہ ملکوں کی طرح ناگزیر سمجھا جاتا ہے لیکن بلدیاتی ادارے ہوتے ہوئے بھی آج تک یہ نظام نقائص سے بھرپور ہے۔ 71برسوںمیں اب تک اس پر بہت سے تجربات کئے گئے لیکن کوئی بھی عوامی توقعات اور اجتماعی فلاح کے تقاضوں پر پورا نہیں اترا اوربحیثیت مجموعی المیہ یہ رہا کہ قومی آمدنی یا قومی بجٹ کے ثمرات نچلی سطح تک نہیں پہنچ پائے متعدد بار بلدیاتی ادارے معطل رہنے سے ملک کی 60فیصد سے زیادہ آبادی براہ راست متاثر ہوئی جو آج بھی پینے کے صاف پانی، صحت و صفائی، پرائمری تعلیم ، منڈیوں کے مربوط نظام، مثالی پولیس اور تعمیر و ترقی سے آج بھی محروم ہے۔ حالت یہ ہے کہ نچلی سطح پر عوام سے اکٹھے کئے جانے والے محاصل کا بڑا حصہ بدعنوانی کی نذر ہو رہا ہے، سرکاری خزانے میں محصولات کے مطلوبہ اہداف جمع نہ ہونے اور ترقیاتی کاموں کے فقدان سے عوام کی اکثریت کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ آئے دن طرح طرح کے وبائی امراض نہیں گھیرے رکھتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے ابتدائی 100دنوں کی کارکردگی میں بلدیاتی نظام کو بھی شامل کرتے ہوئے اس کی اصلاحات کا بیڑا اٹھایا ہے اور اس کی ابتدا ملک کے سب سے بڑی آبادی والے صوبہ پنجاب سے کی ہے۔ انہوں نے نئے نظام کا خاکہ تیار کرنے کی جو ہدایات دے رکھی ہیں ان کے تحت گزشتہ روز وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وفاقی مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ شہزاد ارباب نے مشترکہ پریس بریفنگ میں حکومت کے 100روزہ پلان پر میڈیا کو پیشرفت سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب اور کے پی کے میں نظام کا مسودہ تیار ہو گیا ہے۔ دونوں صوبوںمیں بلدیاتی حکومتوں کے نئے نظام کے لئے تین امور پر اتفاق ہو گیا ہے، ان میں میئر کا براہ راست انتخاب یونین کونسل کی جگہ ویلیج کونسلوںکا قیام اور سروسز اور ایڈمنسٹریٹو محکموں کو میئر کے ماتحت کرنا شامل ہیں۔ پاکستان کے آئین میں وفاق صوبوں اور مقامی سطحوں پر بالاترتیب وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کے قیام کی ضمانت دی گئی ہے، آئین کے آرٹیکل32اور 140کے تحت ہر صوبہ ضلع کونسلیں اور میٹرو پولیٹن ادارے بالترتیب دیہی اور شہری علاقوں میں مقتدر حیثیت کے حامل ہیں۔ اس سارے نظام کے تحت اس وقت ملک بھر میں129ضلع کونسلیں،619دیہی کونسلیں، چارمیٹرو پولیٹن کارپوریشنیں، 13میونسپل کارپوریشنیں،96میونسپل کمیٹیاں، 148ٹائون کونسلیں، 360دیہی یونین کمیٹیاں اور 1925 دیہی کونسلیں بلدیاتی نظام کے تحت قائم ہیں لیکن سیاسی وابستگیوں، اقربا پروری، بدعنوانی اور انتقامی رجحانات کے پروان چڑھنے سے آج شہروں سے لیکر دیہات تک اس ترقی یافتہ دور میں بھی عوام بنیادی ضروریات کے حصول میں دنیا کے ترقی یافتہ ملکوںسے بہت پیچھے رہ گئے ہیں حالانکہ صحت مند معاشرے کو پرکھنے کی اصل کسوٹی ہی موثر اور صحت مند بلدیاتی نظام ہے۔ ملک میں بلدیاتی نظام پر کئی تجربات ہو چکے ہیں لیکن پائیدار اور مربوط نظام ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ عمران خان کی حکومت نے بلاشبہ اس طرف ایک اہم قدم اٹھایا ہے، امید واثق ہے کہ بلدیات کا یہ نیا نظام تمام تر خامیوں سے پاک اور صحت مند زندگی کے قیام کا باعث ثابت ہو گا۔

تازہ ترین