• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ اسے جو مرضی ہے کہیں، پاکستان میری محبتوں کا مرکز، وجود کا حصار اور تمنائوں کا جزیرہ ہے۔ آپ پاکستان کو تضادستان کہیں یا فسادستان مجھے میرا ملک مسائلستان لگتا ہے۔ گھر سے باہر نکل کر سڑک پر نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے میرا ملک لاقانونیت کا شاہکار لگتا ہے۔ جہاں قدم قدم پر قانون سسک رہا ہے اور طاقتور اپنا قانون بنا کر ملکی قانون کو پامال کررہا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے پاکستان قبضہ گروپوں کے آہنی پنجے میں پھنسا اور جکڑا ہوا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے پر قبضہ گروپ حاوی ہیں اور غربت و بیکاری کے مارے نوجوان ان گروپوں اور گروہوں کے آلہ کار بن رہے ہیں۔ جب ریاست نوکری، ملازمت اور پیٹ پالنے کا ذریعہ فراہم نہ کرسکے تو لوگ مجبور ہو کر جرائم کی دنیا کے بادشاہوں کی فوج بن جاتے ہیں۔ یہ لاہور کا ’’ڈان‘‘ منشا، جو بیس برسوں کے دوران منشا سے منشا بم بنا، باقاعدہ ایک بٹالین کا کمانڈر تھا جو بیکار نوجوانوں پر مشتمل تھی اور منشا بم کے حکم پر لوگوں کی زمینوں پر قبضے کرتی، مخالفین کو روندتی، ان کے گھروں پر فائرنگ کرتی اور عام لوگوں کو دھمکا کر خوف سے ان کے منہ بند رکھتی تھی۔ سپریم کورٹ نے مداخلت کی اور قبضہ گروپوں سے زمین چھڑانے بلکہ رہا کروانے کا حکم دیا تو پنجاب حکومت حرکت میں آئی۔ اخباری خبروں کے مطابق صرف منشا بم نے اربوں روپے کی سینکڑوں، ہزاروں کنال اراضی پر قبضہ کررکھا تھا۔ اس اراضی میں سرکاری اراضی زیادہ تھی کیونکہ سمجھدار مجرم جانتے ہیں کہ سرکاری اثاثے اور سرکاری زمین لاوارث ہوتی ہے۔ جب تک سرکار کے لاوارث ہونے کا تاثر قائم رہے گا ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ جن ملکوں میں حکومتیں مضبوط، طاقتور اور اہل ہوتی ہیں وہاں کسی کی مجال نہیں ہوتی کہ سرکاری اثاثے پر ہاتھ رکھے یا زمین پر قبضہ جمائے۔ گزشتہ سال انگلستان کے ایک اخبار میں یہ خبر پڑھ کر میں رشک کرنے لگا کہ کمزور انسان صرف رشک ہی کرسکتا ہے۔ تحقیقی رپورٹ تھی کہ لندن کی مشہور ہائیڈ پارک کے رقبے میں سینکڑوں برس گزر جانے کے باوجود ایک انچ رقبہ کم نہیں ہوا۔ میں سوچنے لگا کہ ہمارے پیارے وطن.... مسائلستان.... میں تو خود وزیراعلیٰ اور وزیراعظم منظور شدہ سرکاری ہائوسنگ اسکیموں میں قانون کو روندتے ہوئے پارکوں کو پلاٹوں میں تبدیل کر کے اپنے پسندیدہ حضرات کو الاٹ کردیتے ہیں۔ یہ پلاٹ اراکین اسمبلیوں کی وفاداری اور محبت خریدنے کے لئے بھی استعمال ہوتے ہیں اور الیکشن کے اخراجات پورے کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ جب حکمران سرکاری اراضی کو یوں ریوڑیوں کی مانند بانٹیں گے تو پھر قبضہ گروپ کیوں نمودار نہیں ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ قبضہ گروپ لاقانونیت کی پیداوار ہوتا ہے۔ یہ محض ایک کیس سٹڈی (CASE STUDY)ہے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے لاہور جیسے اہم شہر اور صوبائی دارالحکومت میں محمد منشا منشا بم بن کر ابھرا اور اس نے ہزاروں کنال اراضی پر قبضہ کر لیا، وہاں مارکیٹیں، دکانیں اور گھر بنا دیے۔ اس کہانی کی عمر صرف بیس سال پرانی ہے اور اس دوران کئی حکومتیں آئیں اور رخصت ہوئیں لیکن منشا بم کو کسی نے بھی ’’فیوز‘‘ کرنے کی جرات نہ کی۔ اس کی ایک بڑی وجہ وہ سیاسی حمایت تھی جو اس نے خرید رکھی تھی۔ ایم این اے، ایم پی اے اس کے سفارشی اور سرپرست، پولیس افسران اس کی گرم جیب میں بند اور انتظامیہ بے بس و نااہل۔ تجربہ بتاتا ہے کہ کسی شہر میں بھی قبضہ گروپ، ڈان، سیاسی حمایت اور پولیس کی سرپرستی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ قبضہ گروپ کیا کرتا ہے؟ وہ سرکاری لاوارث جائیدادوں پر قبضے کرتا، فروخت کرتا اور دولت بناتا ہے اور اس دولت کا کچھ حصہ انتخابات میں لگا دیتا ہے، امیدواروں پر سرمایہ کاری کرتا ہے اور ایک حصہ پولیس کے لئے مختص کردیتا ہے۔ پٹواری ان کے گھر کا ملازم اور سرکاری زمین کا مخبر ہوتا ہے۔ طویل بحث کو مختصر کرتے ہوئے مجھے بتایئے کہ آخر یہ منشا بم بیس سال سے مجرمانہ کاروبارکرہا تھا اوراس عرصے میں شہباز شریف جیسا سخت گیر حاکم تقریباً دس برس تک قانون کی حکمرانی کا درس دیتا رہا، ان کی حکومت نے اسے کیوں نہ پکڑا؟ اس سے قبل مشرف کی فوجی حکومت تھی وہ کیوں صرف نظر کرتی رہی؟ اس صورت کی ایک وجہ منشا بم جیسے قبضہ گروپوں کی سیاست پر Investmentہے۔ اسی لئے اس نظام کو جسے آپ پاکستانی جمہوریت کہتے ہیں۔ قریب سے دیکھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پاکستانی جمہوریت غریب کے دکھوں کا مداوہ نہیں کرتی صرف دولت مندوں کے مفادات کی گرانی کرتی ہے۔ غریب اور بے وسیلہ شہری اس جمہوریت میں قبضہ گروپوں کی حاکمیت، بے رحم پولیس کے ظلم و ستم، انتظامیہ کی سردمہری اور سیاستدانوں کے تکبر کی چکی میں پستا رہتا ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے اس کی حالت زار میں کوئی بہتری نہیں آئی جب کہ ہماری آنکھوں کے سامنے سینکڑوں ہزاروں نئے دولت مند خاندانوں معرض وجود میں آگئے ہیں۔ پاکستان میں زندگی کے ہر شعبے میں قبضہ گروپ طاقتور ہو چکے ہیں اور وہ جب چاہیں کسی چیز کی قلت پیدا کر کے قیمت بڑھا دیتے ہیں۔ میں اس کالم میں سینکڑوں بار لکھ چکا ہوں کہ قبضہ گروپوں نے دور دراز کے علاقوں میں اسکولوں کی عمارتوں پرقبضے کر رکھے ہیں۔ بار بار التجا کے باوجود گزشتہ صوبائی حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی۔ آج کی خبر ہے کہ ایک تحصیل میں اے سی نے اسکول کی دو عمارتیں قبضہ گروپ سے واگزار کروائی ہیں۔ اس طرح کے سینکڑوں اسکول ہیں جن پر بااثر لوگ قابض ہیں۔

مختصر یہ کہ وطن عزیز میں ہر شعبے میں قبضہ گروپوں کی حکمرانی ہے۔ قانون کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا۔ پاکستانی جمہوریت بے وسیلہ اور غریبوں کے لئے نہیں بلکہ بااثر اور امراء کے لئے وضع کردہ نظام ہے۔ اس جمہوریت نے قانون کی حکمرانی قائم کرنے کی بجائے لاقانونیت کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ لاقانونیت کے سمندر کے سامنے بند باندھنا اس حکومت کے بس کا روگ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ یہ بیچاری کمزور حکومت اپنے ہی وعدوں کا شکار ہوتی نظر آتی ہے۔

تازہ ترین