• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب میں 9یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر طویل عرصے سے موجود نہیں۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد، بارانی یونیورسٹی راولپنڈی کی بربادی کا سبب بھی یہی ہوا کہ انھیں وائس چانسلر سے محروم کر دیا گیااور عارضی چارج دے دئیے گئے۔قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد تباہی کے جس موڑ پر پہنچ گئی ہے وہاں سے اسے واپس لانے کے لئے کوئی بہت مضبوط ایڈمنسٹریٹر درکار ہے۔وہاں سے تو مجھے لگتا ہے صرف کچھ طالب علموں کو نہیں بہت سے پروفیسروں کو نکالنا ہو گا۔دو دن پہلے قائد اعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور میں ،علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی الوداعی تقریب میں مہمان تھے۔میرے جی میں آیا کہ جہاں میں نے شاہد صدیقی کی شان میں رطب اللسان ہونا ہے وہاں قائد اعظم یونیورسٹی کے وائس چیئرمین کے خلاف بھی تقریر کروں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شاہد صدیقی نے اوپن یونیورسٹی کو زمین کی پستی سے اٹھا کر آسمان کی بلندی تک پہنچا دیا ہے آج کل وزیر تعلیم شفقت محمود خود بیٹھ کر تینوں یونیورسٹیوںکےلئے وائس چانسلروں کے انٹرویو کر رہے ہیں۔میرا ذاتی خیال ہے کہ انھیں خود ایسے لوگوں کو ڈھونڈ کر وہاں لگانا چاہیے تھا جنھوں نے ماضی میں شاہد صدیقی کی طرح کام کر کے دکھایا ہے۔ایسے لوگ وائس چانسلر بننے کےلئے خود درخواستیں نہیں دیا کرتے۔مثال میں پھر شاہد صدیقی کا نام لینا پڑ رہا ہے کہ اس نے دوبارہ وائس چانسلر بننے کے لئے ملازمت کی درخواست نہیں دی۔بات یونیورسٹیوں کی بربادی کی ہو رہی تھی۔عمران خان کے ایجنڈے میں تعلیم سر فہرست ہے۔اسلام آباد کی اسلامی یونیورسٹی بھی نئے پریزیڈنٹ کے انتظار میں ہے۔میں یہاں پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز کا ذکر نہ کروں تو انکے ساتھ زیادتی ہو گی۔انھوں نے صرف 3 ماہ میں برباد شدہ پنجاب یونیورسٹی کو پھر سے علم و حکمت کا گہوارہ بنا دیا ہے۔یونیورسٹی کی زرعی زمین جس پر ایک عرصے سے سابق اپوزیشن لیڈر قابض تھے،واپس لے لی اور وہاں پنجاب یونیورسٹی کے میڈیکل کالج کے منصوبے کا آغاز کر دیا گیا ہے۔عمران خان بہت جلد اس پروجیکٹ کا افتتاح کرنے والے ہیں۔پنجاب یونیورسٹی کی زمینوں پر جو شادی ہال بنا دئیے گئے تھے وہ بھی گرا دئیے گئے۔گزشتہ حکومت نے پنجاب یونیورسٹی کی جس زمین سے سڑک نکالی ہے،اس کے تقریباََ ساڑھے تین ارب ابھی تک پنجاب یونیورسٹی کو نہیں دئیے گئے میری وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے گزارش ہے کہ یونیورسٹی کو فوری طور پر یہ رقم ادا کی جائے تا کہ جلد سے جلد میڈیکل کالج کا آغاز ہو سکے۔ یونیورسٹیوں کی بربادی میں کچھ کردار ہائرایجوکیشن کمیشن کا بھی ہے۔ایچ ای سی کی صورتحال کچھ بہتر نہیں ۔ایچ ای سی ایک وفاقی ادارہ ہے۔اسکا کام تمام صوبوں کی یونیورسٹیوں کی کارکردگی کو دیکھنا ہے۔مگر ہر صوبے کا اپنا بھی ایک ہائر ایجوکیشن کمیشن بنا دیا گیا ہے۔جس کی وجہ سے اختیارات میں ایک آویزش سی برپا رہتی ہے۔فنڈنگ کے معاملات بھی بہتر طریقے سے حل نہیں ہو پاتے۔ایچ ای سی کے موجودہ چیئرمین کا انتخاب ن لیگ کی حکومت میں ہوا تھا، انھوں نے کوئی بہتر کارکردگی نہیں دکھائی تو کیا ان کو تبدیل نہیں کر دیا جانا چاہئے؟ انھیں تبدیل کرنا بہت ضروری ہے۔اس طرح چائنہ کی مدد سے جو پنجاب تیجن یونیورسٹی ٹیکنالوجی بنائی گئی اسکے وائس چانسلر کا چارج ا بھی تک لاہور کی انجینئر نگ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے پاس ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر محمود احمد رندھاوا جو تیجن یونیورسٹی کے وی سی بننے کےلئے اہل ترین شخص ہیں انکی فائل پچھلے کئی ماہ سے وزیر اعلیٰ آفس میں پڑی ہے۔وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اپنے ضلع میں ڈیرہ غازی یونیورسٹی کا وائس چانسلر تو لگا دیا مگر جھنگ یونیورسٹی ،ساہیوال ،ہوم اکنامکس یونیورسٹی اور کئی یونیورسٹیاں اپنے وائس چانسلر ز کے انتظار میں ہیں۔اسلام آباد میں شفقت محمود کی پوری کوشش ہے کہ جن یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کی مدت 8 تاریخ کو ختم ہو رہی ہے۔انکا چارج کسی کو عارضی طور پر نہ دینا پڑے اور نئے وائس چانسلر خود آکر ان یونیورسٹیوں کا چارج سنبھالیں اس سلسلے میں وقت بہت کم ہے ۔دیکھتے ہیں اس قلیل مدت میں شفقت محمود کیسے کامیاب ہوتے ہیں۔

یونیورسٹی میں کام کے حوالے سے میں پھر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا حوالہ دوں گا، جس کے بارے میں پہلے میں لکھ چکا ہوں کہ شاہد صدیقی کے دور میں علمی دائرے کو کشادہ کرنے اور اس کی ثروت کو بڑھانے کے لئے نئے شعبوں کا قیام عمل میں لایا گیا ۔نصابی کتب جدید تر تقاضوں کے مطابق تیار کرائی گئیں ۔ تحقیقی سرگرمیوں کو فروغ دیا گیا۔ انعامات واعزازات کا اجرا ہوا۔ عالمی وبین الاقوامی کانفرنسز منعقد کرائی گئیں ۔ علمی وادبی محافل کا اہتمام کیا گیا۔ ملکی وغیر ملکی تعلیمی وسماجی اداروں کے اشتراک سے نئے منصوبوں کا آغاز ہوا۔ ملازمین کی فلاح وبہبود کے لئے نئے اقدامات کئے گئے طلبہ و طالبات کونئی تعلیمی سہولتیں فراہم کی گئیں ۔ تحقیقی مجلات کے اجرا کے لئے انقلابی اقدامات کیے گئے۔اس وقت یونیورسٹی کے مختلف شعبوں سے سترہ تحقیقی مجلات شائع ہو رہے ہیں ۔ پاکستان میں یہ اعزاز صرف اسی یونیورسٹی کو حاصل ہے۔اور یہ سارا کام اسلام آبادکے مرکزی کیمپس تک محدود نہیں بلکہ علاقائی مراکز کو بھی فعال بنایا گیا ہے اور مختلف بڑے شہروں جیسے کراچی، لاہور، ملتان اور پشاور میں بھی یونیورسٹی کے پروگرام اور سیمینار تواتر کے ساتھ منعقد ہونے لگے ہیں۔بصارت سے محروم طلبہ کے لئے نئے فنی وتکنیکی مراکز قائم کیے گئے جو نہ صرف مرکز بلکہ پاکستان بھر میں پھیلے ہوئے ریجنل کیمپسز میں کام شروع کر چکے ہیں۔ مین کیمپس اور علاقائی دفاتر میں لائبریریوں کو بہتر بنایا گیا ہے اور اب یہ لائبریریاں صبح سے شام سات بجے تک ہفتے کے ساتوں دن کھلی رہتی ہیں۔ سماجی تعمیر و ترقی کی غرض سے پسماندہ علاقوں کی بچیوں کو مفت تعلیم فراہم کی گئی ہے ۔ جیلوں میں قیدیوں کے لئے بھی تعلیم مفت کر دی گئی ہے ۔ فاٹا اور بلوچستان کے لئے میٹرک تک تعلیم فری کی گئی ہے ۔ اس وقت پاکستانی جامعات میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اپنے منفرد انداز واسلوب اور جداگانہ رنگ وآہنگ کے باعث ایک ممتاز مقام حاصل کر چکی ہے۔ یونیورسٹی کا سفر تو لگ بھگ پینتالیس برس کے طویل عرصے پر پھیلا ہوا ہے۔ یونیورسٹی کا قیام ذوالفقارعلی بھٹو شہید کے ذہنِ رسا کا نتیجہ ہے۔اُس وقت اس کا نام '‘‘پیپلز اوپن یونیورسٹی‘‘ رکھا گیا جو بعد میں علامہ اقبال کے صد سالہ جشن ولادت کے موقع پر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں تبدیل کردیا گیا۔ اس یونیورسٹی کو دُنیا میں دوسری، جبکہ ایشیا میں پہلی فاصلاتی نظامِ تعلیم کی حامل یونیورسٹی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔‘‘میں سمجھتا ہوں کہ یونیورسٹیوں کی بہتری میں اس یونیورسٹی کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین