• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گو کہ پارلیمان آئندہ چند مہینوں میں اپنی مکمل مدت پوری کرنے والی ہے مگر حکومت تاحال عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ اس قابل بچاؤ غیر یقینی کے معیشت پر شدید ترین اثرات مرتب ہو رہے ہیں کیوں کہ پالیسی سازی کے وہ فیصلے تاخیر کا شکار ہیں جن کی ایک مکمل بحران سے بچنے کے لئے فوری اور اشد ضرورت ہے۔ ملک کی بد سے بد ترین ہوتی معاشی پوزیشن کی داخلی اور بیرونی دونوں جہات پر حکومتی اقدام کی عدم موجودگی نے ایک ایسے بحران کے خطرے کو دو چند کر دیا ہے۔ حکومتی قائدین انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے ملے جلے اشارے دے رہے ہیں۔ کبھی ان کا کہنا ہے کہ انتخابات مارچ2013ء میں ہوں گے اور دوسرے موقعوں پر میڈیا کو دیئے گئے مبہم بیانات یا غیر سرکاری اطلاعات میں انہوں نے اشارہ دیا ہے کہ انتخابات ممکنہ طور پر اپریل یا مئی میں منعقد کئے جائیں گے۔ اس سیاسی طرز عمل کے دو مقاصد ہیں، سیاسی حریفوں کو اس حوالے سے قیاسات میں الجھا کر عدم توازن سے دوچار کرنا اور انتخابات کی تاریخ کا حزب اختلاف کے ساتھ ایک عبوری انتظامیہ کی بابت ٹوٹتی جڑتی بات چیت میں سودے بازی کی حکمت عملی کے طور پر استعمال جس کی تقرری کی حکومت معاہدے کے تحت آئینی طور پر پابند ہے۔ حزب اختلاف کے رہنما نوازشریف نے اس طرز عمل کی بابت کبھی کبھار سوال اٹھایا ہے مگر انہوں نے انتخابات کی حتمی تاریخ مقرر کرنے کے لئے زیادہ دباؤ نہیں ڈالا اور غالباً وہ پُراعتماد ہیں کہ انتخابات جب بھی ہوئے جیت انہی کی ہو گی۔ حکمراں اتحاد کی دوسری جماعتیں جب تک بھی ممکن ہوں اقتدار کی راہداریوں سے باہر نہیں نکلنا چاہتیں اور اسی لئے جلد انتخابات کی تاریخ کا اعلان ان کے لئے کم ہی کشش رکھتا ہے۔ کسی بھی پارلیمانی نظام میں انتخابات کی تاریخ کا تعین حکمراں جماعت کا خصوصی استحقاق ہوتا ہے جو اسے تقریباً ہمیشہ اپنے سیاسی مفاد کے لئے استعمال کرتی ہے مگر کوئی بھی حکومت انتخابی تاریخ کے بارے میں اس طرح تماشا نہیں دکھاتی جس طرح پی پی پی کی سربراہی میں حکمراں اتحاد دکھا رہا ہے اور جان بوجھ کر انتخابی تاریخ کے بارے میں الجھاؤ اور غیر یقینی کی کیفیت کو پھیلایا جا رہا ہے۔ اس طرز عمل نے ایک بار تو میڈیا میں ان قیاسات کو تحریک دی کہ انتخابات موخر ہو سکتے ہیں۔ یہ طرز عمل اس حقیقت کے منافی ہے کہ مارچ2013ء میں حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے اور اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد60دن کے اندر انتخابات منعقد کئے جانے ہیں۔ حکومت نے ایک ایسے وقت میں انتخابات کی تاریخ کو مبہم کرنے کا انتخاب کیا ہے جب ملک میں بدنظمی بڑھ رہی ہے اور حالات تازہ مینڈیٹ کی حامل نئی حکومت کے متقاضی ہیں تاکہ قیادت میسر آئے اور نئی راہ عمل کا تعین کیا جا سکے۔ گزشتہ ہفتے ہوئے فرقہ وارانہ اور دہشت گردانہ حملے ملک بھر میں لاء اینڈ آرڈر کے بریک ڈاؤن کی تازہ ترین یاد دہانی تھے۔ کراچی میں بلا روک ٹوک جاری لاقانونیت، بلوچستان میں حکومتی رٹ کی تباہی اور بڑھتے ہوئے معاشی و اقتصادی بحرانات یہ سب گورننس اور قیادت کی کمی کا نتیجہ ہیں۔ اس گمبھیر صورت حال کو رائے دہندگان کے تازہ مینڈیٹ کی ضرورت ہے تاکہ نئی حکومت متعدد ناگزیر مسائل کے بارے میں فیصلہ کن طرز عمل کا مظاہرہ کر سکے۔ پی پی پی کی اصلاحات سے گریزاں حکومت طویل عرصے سے فیصلے کرنا ترک کر چکی ہے اور فی الوقت پالیسی اقدامات سے دامن چھڑانے کے لئے آنے والے انتخابات کا سہارا لے رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ انتخابات تک کے عرصے کے دوران حکمراں اتحاد اقتدار کے سنگھاسن پر تو براجمان رہے گا مگر کوئی پالیسی فیصلے نہیں کرے گا، اس کی تمام تر توجہ سیاست بازی پر مرکوز رہے گی نہ کہ مسائل حل کرنے پر اور یہ اپنے عدم اقدامات کا سبب انتخابی مہم کی مصروفیت کو قرار دیتا رہے گا اور ملک میں موجود بدنظمی امکانی طور پر بدستور جاری رہے گی۔ اس تناظر میں انتخابات کی تاریخ کے بارے میں غیر یقینی کیفیت حکمراں جماعت کے مقصد کو تقویت دے گی جب کہ ملکی مفاد نظر انداز ہو جائے گا۔ یہ کیفیت بدتر معاشی صورت حال سے سب سے زیادہ عیاں ہے۔ بد سے بد تر ہوتے بجٹ اور ادائیگیوں کے خسارے میں عدم توازن کے لئے درکار اصلاحتی اقدامات میں تاخیر ہر گزرتے دن کے ساتھ معیشت کو نئی رفتار کے ساتھ تباہی کے گڑھے کی طرف دھکیل رہی ہے۔ حکومت کی معاشی ٹیم کا واشنگٹن کا مجوزہ دورہ فوری طور پر درکار وسائل کے حصول کی شدید کوشش ہو سکتی ہے کیوں کہ حکومت اب تک بیرونی فنانسنگ کو یقینی بنانے میں ناکام رہی ہے اور اب وہ شاید امریکہ سے اتحادی سپورٹ فنڈ مانگنے کی کوشش کرے گی مگر حقیقت یہ ہے کہ ہاتھ میں کشکول لے کر پھرنے کی پالیسی نے پہلے ہی دم توڑ دیا ہے کیوں کہ ملک کی معاشی ضروریات اس قدر وسیع ہو چکی ہیں کہ اب انہیں ایڈہاک معاشی انتظام سے پورا نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت کی پیوند کاری کی کوشش پہلے ہی ملکی فنانس کو ناتواں حالت میں ڈال چکی ہے اور اس کیفیت میں متعدد پریشان کن عناصر کی وجہ سے اضافہ ہو رہا ہے جنہیں درست حالت میں لوٹانے کا کوئی اشارہ موجود نہیں مثلاً بے قابو مالی خسارہ جو2008ء کی سطح سے اوپر جا سکتا ہے، زوال پذیر داخلی و خارجی سرمایہ کاری، مرکزی بنک اور تجارتی بنکوں سے لئے جا رہے ریکارڈ قرضے اور آسمان کو چھوتی افراط زر اور مرے پر سو درّے کے مصداق توانائی کے شعبے کو دی جانے والی بلند مراعات اور انٹر ایجنسی قرضے میں اضافہ حل سے محروم توانائی کے بحران پر مستقل تیل چھڑک رہا ہے۔ اس مہلک صورت حال کو سرکاری وسائل کی شہہ رگ سے جونک کی طرح لگے پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کے نقصانات مزید پیچیدہ کر رہے ہیں۔ وسائل کی پیداوار اور اخراجات کو محدود کرنے کے لئے صوبوں کے مابین عزم و وابستگی کے بغیر محصولات کی تقسیم کے نئے فارمولے کے تحت مالی عدم مرکزیت بھی بجٹ کی مجموعی حیثیت پر دباؤ شدید کر چکی ہے۔ سب سے بڑھ کر انتخابی مہم کے دوران حکومت کی معاشی عدم توجہی عوامی فنانس کی رگوں سے خون نچوڑ رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے گندم کی سپورٹ پرائس میں اضافے کا اعلان دیہی علاقوں سے ووٹوں کو یقینی بنانے کی واضح کوشش ہے۔ اس دوران ملک کا بیرونی کھاتہ گرنے کے قریب ہے، برآمدات جمود کا شکار ہو رہی ہیں اور غیر ملکی سرمایہ کاری ملکی تاریخ میں کم ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے کے بشمول دیگر بڑے بیرونی قرضوں کی ادائیگی ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو مسلسل گھن کی طرح چاٹ رہی ہے جس کے نتیجے میں روپے پر پڑنے والے دباؤ نے ڈالر کے مقابلے میں اس کی قدر کو ملکی تاریخ میں نچلی ترین سطح تک گرا دیا ہے۔ پاکستان کی کمزور ہوتی بیرونی حیثیت کا حوالہ دیتے ہوئے عالمی مالیاتی فنڈ کے دورے پر آئے ہوئے ایک وفد نے اکتوبر میں ’دشوار صورت حال‘ سے نمٹنے کے لئے ’فیصلہ کن‘ عمل کا مطالبہ کیا۔ رواں سال کے آغاز میں آئی ایم ایف کی ایک اسٹاف رپورٹ اس سے زیادہ مفصل تھی۔ رپورٹ نے کہا کہ حکومت کی پالیسی ’معیشت کو ایک عدم مستحکم اور خطرناک راستے پر لئے جا رہی‘ ہے۔ رپورٹ نے خبردار کیا کہ پاکستان کو بڑے مالی مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے کیوں کہ جاری کھاتے کے وسیع ہوتے خسارے اور فنڈ کو قرضوں کی واپسی کی وجہ سے بین الاقوامی ریزرو کا سہارا گھٹنا شروع ہو چکا ہے۔ نازک ترین وقت قریب آ رہا ہے۔ ملک کی معیشت اس حالت میں نہیں ہے کہ وہ کسی مخالف عالمی یا داخلی صورت حال کا دھچکا برداشت کر پائے۔ حتیٰ کہ اس دھچکے کے بغیر بھی ایک بھیانک صورت حال عیاں ہے۔ بیرونی آمد زر کے خشک ہوتے سوتوں اور غیر ملکی قرضوں کی سر پر لٹکتی تلوار کے ساتھ پاکستان ایک ایسی جگہ پھنس چکا ہے جہاں یہ دوسرے ممالک سے رقومات کی بڑی ترسیلات کے با وجود اپنے معاشی تقاضوں کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہو گا۔ آئی ایم ایف کو اس مہینے605ملین ڈالر کی قسط ادا کی جانی ہے اور جنوری، فروری میں704ملین ڈالر کی قسط بھی سر پر کھڑی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مرکزی بنک میں ملکی زرمبادلہ کے9.1بلین ڈالر کے موجودہ ذخائر اس حد تک کم ہو جائیں گے کہ رواں مالی سال کے اختتام تک ایک ماہ کی درآمدات کے خرچ کو بمشکل ہی پورا کیا جا سکے۔ یہ صورت حال ملک کو ادائیگیوں کے توازن کے بحران میں ڈال سکتی ہے جس کا خطرہ حکومت کی سست رو مالی و مالیاتی پالیسیوں کی بدولت شدید تر ہو چکا ہے۔ اس صورت حال کا مداوا آئی ایم ایف سے ہنگامی قرضے کے سوا ممکن نہیں ہے مگر اسے یقینی بنانے کے لئے ایک وسیع سیاسی حمایت درکار ہو گی تاکہ بلا رکاوٹ اصلاحاتی اقدامات کو بروئے کار لایا جا سکے۔ اس کا مطلب ہے تازہ مینڈیٹ اور سیاسی مضبوطی کی حامل نئی حکومت جو پالیسی اصلاحات کی راہ پر قدم رکھ سکے۔ مگر اتحادی حکومت کے انتخابی منصوبے کے بارے میں سوچے سمجھے متضاد اشارے اس بات کی توقعات کو دھندلا کر رہے ہیں۔ حکمراں جماعت کے لئے یہ ایک اچھی سیاست ہو سکتی ہے مگر اس کے سوا ہر چیز کے لئے یہ ایک خراب پالیسی ہے۔ اس تناظر میں سیاسی تبدیلی معاشی تبدیلی سے ہم آہنگ نہیں جو بحران سے بچنے کے لئے درکار ہے۔ ملکی معاشی استحکام کے سامنے کھڑے اس خطرے کو کم کرنے کا واحد راستہ جلد از جلد نہ کہ بدیر انتخابات کا انعقاد ہے تاکہ اگلی حکومت کے پاس معاشی زوال سے بچنے کے اقدامات کرنے کے لئے کافی وقت میسر ہو۔ غیر یقینی کا خاتمہ، معیشت کے لئے مہلک سیاسی بازیگری کی نمائش سے چھٹکارا…اور قومی استحکام (آج) ملک کی (شدید ترین) ضرورت ہے۔
تازہ ترین