• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کے دوروزہ دورۂ بھارت میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کے بعد دونوں ملکوںمیں میزائل نظام سمیت 20معاہدے متوقع ہیں۔ روس بھارت جنگی سودوں میں 5ارب ڈالر کا ایس 400میزائل سسٹم اور ایک ارب ڈالر کاموف ٹی 226، ہیلی کاپٹر بھی شامل ہیں۔ امریکی اہلکاروں نے اس معاہدے کےخلاف بھارت کو خبردارکرتے ہوئے پابندیوں کی دھمکی بھی دی ہے۔ اگست 2017میں امریکی صدر نے امریکی انتخابات میں مداخلت کے الزامات پر روس کی 39کمپنیوںپر پابندی عائد کی تھی جن میں وہ دفاعی کمپنی بھی شامل ہے جو ایس 400دفاعی میزائل شیلڈ بناتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ خبط و خناس کا علاج دندان شکن تھپڑ ہی ہوا کرتا ہے لیکن عہد ِحاضرمیں یہ ایک ایسا آپشن ہے جسے استعمال کرنے کے لئے کوئی بھی ذی شعور آمادہ نہ ہوگاکہ ایسی کوئی بھی مڈبھیڑ دنیا کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کرسکتی ہے۔ بھارت کا بڑا ملک ہونے کا خبط اورپورے خطے پر چوہدراہٹ کا خناس نیا نہیں، یہ تقسیم ہند کے فوری بعد شروع ہو گیا تھا۔ اس نے نہ صرف پاکستان کے اثاثے اور اسلحہ روک لیا بلکہ کشمیریوں کی منشا کے خلاف عسکری طاقت کے ذریعے کشمیر پر جارحانہ قبضہ کرکے ایک ایسا تنازع کھڑا کردیا جو جنوبی ایشیا کا سب سے حساس معاملہ ہے اور کسی وقت بھی جنگ کی بھٹی دہکانے کا باعث بن سکتا ہے۔ پاکستان اوربھارت کے مابین جتنی بھی لڑائیاں ہوئیں ان کی بنیاد ی وجہ مسئلہ کشمیر ہی ہے جس پر بھارت کی کہہ مکرمنیاں بھی دنیا کے سامنے ہیں اورکشمیریوں پر انسانیت سوز مظالم بھی۔ اب بھی نئی پاکستانی حکومت نے بھارت کو مذاکرات کی دعوت دی جسے اس نے قبول نہ کرکے اپنی بدنیتی کا ثبوت دیا۔ خطے میں اسلحے کی دوڑ بھی بھارت نے شروع کی، تقسیم ہند کے وقت دنیا دو بلاکوں پر مشتمل تھی۔ ایک کا سرخیل سوویت یونین تھا اور دوسرے کاامریکہ۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ پاکستان نے امریکی بلاک میں کیوں شمولیت اختیار کی۔ لیکن اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ امریکہ کا ہرجائی پن بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اس نے ہرمشکل وقت پر پاکستان کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا۔ اب بھی پاکستان اور امریکہ کے مابین سردمہری سب پر عیاں ہے اور اس کی نگاہ التفات پاکستان کی بجائے انڈیا پر ہے کہ وہ چین کا ناطقہ بند کرنے کی پوزیشن میں آسکے۔ یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ امریکہ بھارت کو اربوںڈالر کا اسلحہ ، جنگی جہاز اور مہلک آلات فراہم کرکے اس کے جنگی جنون میںاضافہ کر رہا ہے جس کا ہدف پاکستان ہی ہے۔ اس کا اندازہ بھارتی لیڈروں اور آرمی چیف کی دھمکیوں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب اگرچہ پاکستان اور روس کے تعلقات میں قدرے بہتری آئی ہے لیکن روس کی بھارت پرنوازشات نے حالات کوپھربے یقینی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ دنیامیں رونما ہونے والی حالیہ تبدیلیوںکامرکز و محور پاک چین اقتصادی راہداری ہے جس سے پاکستان اور چین ہی نہیں دنیا کے بیشتر ممالک مستفید ہوں گے۔ جنگی جنون میں مبتلا بھارت کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہمسائے تبدیل نہیں کئے جاسکتے اور ہمسائیگی میں آگ لگانے کی سعی اپنا دامن بھی جلا دیا کرتی ہے۔ بزعم خویش دنیا کے ذمہ دارممالک کو بھی سوچنا چاہئے کہ وہ محض اپنا اسلحہ فروخت کرنے کےلئے دنیا کی سلامتی کو دائوپرلگا رہے ہیں اور خدانخواستہ کہیں بھی کوئی چنگاری بھڑک اٹھی تو دنیا کو جلا کر راکھ کردے گی۔ امریکہ اورروس سمیت دنیاکے ان تمام ممالک کو جو اسلحہ سازی کی صنعت کے منافعے سے پرسکون زندگی گزاررہےہیں، یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ حالات بگڑ کر ان کے خلاف بھی ہوسکتے ہیں۔ دنیا کی بہتری اسی میں ہے کہ جنگی جنون کا خاتمہ کیا جائے ناکہ اسلحہ فروخت کرکے جنگ کے امکانات کو تقویت دی جائے۔ اقوام متحدہ اور خاص طور پر اسکی سلامتی کونسل کے رکن ممالک اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھیں اور منہ زور ملکوں کولگام دیں بصورت ِ دیگر جنوبی ایشیا ہی کیا دنیا کے امن کی بھی کوئی ضمانت نہیں دے سکتا۔

تازہ ترین