• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محترم ڈاکٹر جاوید اقبال کو اس جہان فانی سے گزرے تین سال ہوگئے آپ 5اکتوبر 1924کو پیدا ہوئے اور 3اکتوبر2015کو راہی ملک عدم ہوئے۔ اس موقع پر ایوان کارکنانِ پاکستان کی طرف سے ایک تعزیتی تقریب منعقد کی گئی جس میں درویش کو بھی دعوتِ خطاب دی گئی۔ سو عرض کی کہ ’’ہم نے علامہ اقبال کو تو نہیں دیکھا بس پڑھا ہے مگر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اقبال کی شخصیت کو کس طرح اپنی اپنی مرضی کے خانوں یا سانچوں میں ڈھال دیا گیا ہے جاوید اقبال تو ہمارا آج تھے ناچیز کی نظروں میں وہ اکیسویں صدی کے اقبال تھے قدرت نے جن کے ساتھ خوبصورت اور یادگار لمحات گزارنے کے مواقع بخشے لیکن افسوس ان کی شخصیت کو بھی سچائی کے ساتھ حقیقی طور پر بیان کرنے کی گنجائش کم ہی ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کا بڑا کارنامہ محض یہی نہیں ہے کہ انہوں نے اصل اقبال تک پہنچنے میں ہماری معاونت کی بلکہ اقبالیات کے کئی نئے گوشے بھی ہم پروا کیے۔ مختلف مواقع پر کئی قدم آگے بڑھتے ہوئے انہوں نے روایتی جامد افکار کو توڑنے کی کوشش کی اس کاوش میں انہوں نے اپنی شخصیت یا پاپولیریٹی کی بھی پروا نہیں کی۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ علامہ اقبال کو جس روایتی اسلوب میں پیش کیا جاتا ہے حقائق اس سے کافی مختلف ہیں۔ وہ روایتی مذہبی سوچ سے کہیں آگے بڑھ کر فرماتے ہیں کہ

کعبے میں، بت کدے میں ہے یکساں تری ضیا

میں امتیازِ دیر و حرم میں پھنسا ہوا

یہ اقبال ہی ہیں جو کبھی گوتم بدھ کے گیت گاتے ہیں تو کبھی سری رام چندر جی کو امام ہند قرار دیتے ہوئے اُن پر پوری نظم لکھتے ہیں اور کبھی بابا گورو نانک دیو جی کو ’’مردکامل‘‘ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے

ہند کو اک مرد کامل نے جگایا خواب سے

اس سب کے ساتھ ساتھ یہ اقبال ہی تھے جنہوں نے اپنے خطبات Reconstruction of religious thought in Islam میں فکرِ جدید کے حوالے سے اپنے بیشتر دھونے دھو دیے۔ یہاں محترمہ جسٹس ناصرہ جاوید اقبال کے علاوہ بہت سے پرانے احباب موجود ہیں جناب شاہد رشید ہیں سب گواہی دیں گے کہ جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبالؒ ہمیشہ نئی نسل کو یہ تلقین کیا کرتے تھے کہ وہ خطبات اقبال کو شاعری پر ترجیح دیتے ہوئے جدید تہذیبی اقدار کو سمجھیں۔ وطنِ عزیز کے حالات اور بالخصوص جبر سے وہ کس قدر دکھی تھے فرماتے تھے کہ یہ وہ پاکستان تو نہیں ہے جس کا خواب اقبال اور قائد نے دیکھا تھا بلکہ اُ ن کی تلخ نوائی یہاں تک تھی کہ اگر آج اقبال ؒ اور جناحؒ اپنا موجودہ پاکستان دیکھ لیں تو اس صدمے کو سہہ نہ سکیں گے دکھ اور مایوسی کے ساتھ مر جائیں گے۔ ان درد انگیز نالوں کے ساتھ ہم محترمہ جسٹس ناصرہ جاوید اقبال صاحبہ کی درازی عمر کے لیے دعا گو ہیں جنہوں نے اپنی محبت اور خدمت سے ڈاکٹر صاحب کو اپنا گرویدہ بنا ئے رکھا۔ محترم ڈاکٹر صاحب ہمارے محبوب تھے تو اس محترم خاتون کی کتنی شان ہے کہ ڈاکٹر صاحب عمر بھر ان کی محبت اور ستائش میں رطب اللسان رہے اور پھر ایک اجنبی مسافر کی طرح جہانِ فانی کی طرف کوچ کر گئے۔ ڈاکٹر صاحب اپنے حصے کی جو روشنی پھیلا گئے ہیں اس سے ہماری نسلیں مستفید ہوتی رہیں گی۔

دونوں جہاں تیری محبت میں ہار کے

وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے

اتنی نرم تقریر کے باوجود جناب شاہد رشید پیہم توجہ دلاتے رہے کہ افضال ریحان صاحب ہاتھ ہولا رکھیں۔

پروگرام کے اختتام پر جس طرح دیگر احباب جسٹس ناصرہ جاوید اقبال سے مل رہے تھے درویش نے بھی آگے بڑھ کر انہیں سلام کرتے ہوئے حال احوال پوچھا تو اُن کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے یہ درد ناک منظر تو ہم نے ڈاکٹر صاحب کی وفات کے موقع پر بھی نہیں دیکھا تھا جسٹس ناصرہ صاحبہ تو بڑے حوصلے اور ہمت والی خاتون ہیں تو پھر خلاف معمول غیر متوقع طور پر ان کے احساسات کو ایسی کونسی چوٹ لگی ہے جو معصوم بچوں کی طرح ان کی آنکھوں سے یوں موٹے موٹے آنسو چھلک پڑے؟ یہ جان کر دل مزید افسردہ ہو گیا کہ اس کا باعث ولید اقبال سے ان کی محبت یا مامتا ہے انہیں اس بات کا دکھ ہے کہ ناقدرے لوگوں نے ولید کی قدر کی ہے نہ اس کی صلاحیتوں کا خیال کیا ہے۔ میرا بیٹا اتنا پڑھ لکھ کر یورپ کی خوبصورت زندگی چھوڑ کر ملک و قوم کی خدمت کے جذبے سے پاکستان آیا اور سیاست میں عمران خان کا ساتھ دیتے ہوئے اُس نے دن رات ایک کر دیا ایک سیاسی کارکن کی طرح وہ گلیوں محلوں میں کونسی جگہ ہے جہاں نہیں گیا اس نے اتنے سالوں سے اپنے بیوی بچوں کو نظر اندار کیے رکھا ماشاء اللہ اس کا بیٹا پندرہ سال کا ہو گیا ہے اپنی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے وہ کبھی اُسے پورا ٹائم نہیں دے سکا۔ اُس کی بیوی آپ جانتے ہیں کتنی اچھی پڑھی لکھی اور سمجھدار ہے اس کے احساسات کا ادراک کریں۔ ہم سب کو کتنا دکھ پہنچا ہے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں ان لوگوں نے ولید کو ٹکٹ کے قابل بھی نہیں سمجھا۔

خدا کا دیا ہمارے پاس سب کچھ ہے ہم عہدوں یا ٹکٹوں کے محتاج نہیں ہیں لیکن یوں ناقدری بھی نہیں ہونی چاہیے کیا یہاں پارٹی میں اہمیت کا معیار مالی حیثیت ہے۔ عرض کی میڈم جی ایک غلطی آپ نے بھی کی ہے۔ ناقدروں سے دوستی لگانے کی۔ اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور کانوں سے سنتے ہوئے ڈاکٹر جاوید اقبال جیسے زیرک مدبر انسان کے وہ الفاظ بیان کر سکتا ہوں جو انہوں نے ان کے متعلق ادا فرمائے تھے۔آپ لوگوں کا جو اصل مقام تھا آپ کو وہیں رہنا چاہیے تھا میرا خیال ہے یوسف صلاح الدین صاحب کا جو قریبی تعلق تھا ان کے ساتھ وہی ولید کے ادھر جانے کا باعث بنا۔اب ان سب کو مل کر ان سے بات کرنا چاہیے تھی۔ حضرت علامہ اقبال اور ڈاکٹر جاوید اقبال کے گھرانے سے اپنی اپنائیت کی بنیاد پر پی ٹی آئی میں اپنے دوستوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنی قیادت سے بات کریں ولید اقبال ہی کو نہیں اس کے قابل صد احترام باپ دادا کی خدمات کو دیکھیں اس پر میڈم ناصرہ جاوید اقبال فرمانے لگیں کہ یہ کوئی وراثتی معاملہ نہیں ہے اور نہ ہی ہم ولید کے باپ دادا کی نسبت سے ایسی کوئی توقع یا مطالبہ کر رہے تھے ولید خود صلاحیتوں سے مالا مال ہے اور اس نے خدمت کی ہے، کام کیا ہے، وہ میرٹ پر پورا اترتا ہے تو پھر اس کے ساتھ یہ بے انصافی کیوں کی گئی ہے۔ ۔۔یہ نہیں ہے کہ مجھے ڈاکٹر صاحب کے جانے کا دکھ نہیں ہے بہت دکھ ہے مگر ولید کے ساتھ جو زیادتی ہوئی ہے اس کی تکلیف تو مجھے ڈاکٹر صاحب والے دکھ سے بھی زیادہ ہے۔

ن لیگ والے جیسے بھی ہیں، انہوںنے ڈاکٹر جاوید اقبال کو سینیٹر بنوایا تھا اور پھر دوسری ٹرم کے لیے بھی وہ انہیں لانا چاہتے تھے لیکن ڈاکٹر صاحب نے ازخود انکار کر دیا تھا کہ اب میری عمر اور صحت مجھے اس کی اجازت نہیں دیتی۔یہ احساسات ہم پارٹی قیادت کی خدمت میں رکھتے ہیں کہ اپنی تحریک کے نام کی لاج رکھتے ہوئے کم از کم ولید اقبال کے معاملے میں انہیں انصاف ضرور کرنا چاہیے تھا۔ قومی انتخابات کے موقع پر انہیں ان کی پسند کا قومی حلقہ دیتے ہوئے کھلے بندوں ان کی انتخابی مہم چلاتے اور ان کی جیت کو اپنی جیت خیال کرتے یا پھر ضمنی الیکشن میں اپنی چھوڑی ہوئی سیٹ پر حسب وعدہ انہیں لاتے اور انہیں بہتر ذمہ داری سونپتے یہ بھی نہیں ہو سکتا تھا، ان کی کچھ مجبوریاں تھیں تو بھی ہم توقع رکھتے تھے کہ انہیں بطورِ سینیٹر ضرور لایا جائے گا بلکہ پچھلے دنوں جب صدارتی امیدواران کی بحث چھڑی تھی تو تواتر سے اس نوع کی خبریں آرہی تھیں کہ محترمہ جسٹس ناصرہ صاحبہ کو بطور صدرِ پاکستان لایا جارہا ہے ہمیں خوشی ہوئی تھی کیونکہ ماقبل ہم محترمہ عاصمہ جہانگیر کے متعلق یہ سوچتے اور لکھتے رہے کہ وہ پاکستان کی پہلی خاتون صدر منتخب کر لی جائیں گی مگر ان کی رحلت کے بعد یہ خبر خوشگوار لگی کہ ایک معزز خاتون بطور پہلی خاتون صدر منتخب ہونے جا رہی ہیں بعدازاں معلوم ہوا کہ سب پروپیگنڈہ تھا۔اب بھی ولید اقبال کو بہتر طور پر ایڈ جسٹ کرنے میں کوئی امر مانع نہیں۔ اس ہونہار نوجوان کی خدمات اور صلاحیتوں سے قوم کو فیضیاب ہونے کا موقع دینا کو ئی بُری بات نہیں ہے۔ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی ورنہ لوٹا کریسی سے جو بدنامی و مایوسی ہو رہی ہے اس کے منفی اثرات تبدیلی کے نعرے کو ڈبو رہے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین