• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور مجھ میں قریباً ڈیڑھ دو سال کی عمر کا فرق ہے۔ بچپن سے لے کر آج تک ہم نے جنگ کا ذکر ہمیشہ بڑے تفاخر سے سنا۔ مجھ سمیت میرے بعد آنے والی تمام نسلوں کو نصابی کتابوں میں یہ اسباق رٹوائے گئے کہ جنگ اپنی بقاء کی ناگزیر شکل ہے۔ سرحد کے دونوں اطراف دشمن کو زیر کرنے کے طریقے شوق شہادت کے جذبے اور بہادری کے قصے ازبر کرائے گئے۔

ہمیں امن و سکون سے زیادہ جنگ کی ہولناکی اور فتح کا جشن خوش نما دکھائی دیا کھیل کے میدان سے لے کر تجارتی و سفارتی تعلقات تک ہر جگہ جنگی جنون ہمارے اعصاب پہ چھایا رہا۔ ہمارا بہترین سپر ہیرو ہمیشہ وہی ٹھہرا جو اچھی جنگ لڑ سکتا ہو اور زیادہ سے زیادہ تباہی کے ذریعے دشمن کو نیست و نابود کرسکتا ہو۔ یہی رویہ ہماری نئی نسل میں اس اشتعال اور عدم برداشت کو پروان چڑھا چکا ہے۔ جو آہستہ آہستہ ان کی شخصیت کا حصہ بنتی جارہی ہے۔

جنگ ایک مفروضہ ہے اور امن حقیقت، ہر مفروضہ اسی وقت کندن بن سکتا ہے جب اسے تشکیک کی بھٹی میں تنقید کی آنچ سے گزارا جائے، وگرنہ بالآخر وہ استرداد کے کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا ہے!‘‘

مفروضات صرف سائنسی حقائق ہی کی بنیاد نہیں ہوتے بلکہ سیاسی اور سماجی حقیقتوں کی راہیں بھی یہیں سے ہو کر گزرتی ہیں جن سے بچ کر نکلنا ناممکن ہے۔ سقراط سے افلاطون، ارسطو سے کارل مارکس اور لینن جبکہ گاندھی اور جناح کے نظریات و خیالات بھی صرف مفروضات ہی تھے جو تشکیک و تنقید کی چھلنی سے ہو کر قبولیت کے درجہ پر فائز ہوئے یا پھر مسترد کر دیئے گئے۔ سیاسی اور سماجی سائنس بہتے دریا کی طرح ہے جس کے حتمی ہونے کا تعین ممکن نہیں۔

برصغیر کی تقسیم میں دو ملکوں کے معرض وجود میں آنے کے علاوہ درد و غم کی کتنی ہی ایسی کہانیاں ہیں جو آج تک پوشیدہ ہیں۔ 1947سے 2018تک بھارت اور پاکستان کے درمیان چار جنگوں اور دیگر تنازعات خصوصاً کشمیر کے اندر دونوں اطراف کا جانی نقصان ہو رہا ہے۔ امن عامہ کی صورتحال مسلسل خراب، کشمیریوں سمیت دونوں ملکوں کے عوام آج بھی امن اور خوشحالی کے منتظر ہیں۔ 70سال سے جاری پاک بھارت کشیدگی کی وجہ سے دونوں ممالک اپنے اپنے بجٹ کا کثیر حصہ دفاع پر خرچ کرنے پر مجبور ہیں اور عوام انتہائی غربت، بے روزگاری، توانائی کے بحران، عدم انصاف اور صاف پانی کی فراہمی جیسی زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ یہاں تک کہ 50 فیصد سے زائد ہندوستانی ٹوائلٹ جیسی بنیادی ضرورت تک سے محروم ہیں۔ دہشت گردی اور مذہبی انتہاء پسندی دونوں ملکوں کا مشترکہ اور بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ڈھیر سارے سنگین مسائل کی موجودگی میں بغیر اس بات کا ادراک کئے کہ دونوں ممالک ایٹمی قوت ہیں، ایک دوسرے کو کمزور کرنے کی کوشش کرنا آتش فشاں پر بیٹھ کر خواب غفلت میں رہنے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ان تمام حالات میں ہم بھول جاتے ہیں کہ جنگ کتنی تباہ کن ہوتی ہے۔ آپسی تنائو کے وقت فوراً سے پیشتر ایٹم بم چلا دینا چاہتے ہیں مگر 36انچ کی چھاتی پھلاتے وقت ہم ہیرو شیما بھول جاتے ہیں۔ شام، عراق، لبنان، افغانستان کی بربادی دیکھ کر بھی اپنی انا کے اسیر اور مفروضوں کے قیدی بن کر سوچتے ہیں کہ ہمارا حشر ان جیسا نہیں ہو سکتا حالانکہ ان کے علاوہ بھی ماضی قریب کی خوفناک جنگوں کی باقیات جگہ جگہ موجود ہیں۔ بوسنیا میں ہونے والی جنگ کو تقریباً دو دہائیاں گزر چکی ہیں متحدہ یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے کے بعد نسلی تعصب کی بنیاد پر ہونے والی اس جنگ میں سربیا نے بوسنیائی مسلمانوں کی تاریخ کا بھیانک ترین قتل عام کیا۔

اب بوسنیا صرف تمباکو اور کاغذ کی صنعت پر گزارہ کر رہا ہے۔ تمام دنیا کی امداد کے باوجود معیشت سنبھل نہیں پا رہی۔ جنگ میں تباہ ہونے والا ریلوے کا سسٹم آج تک پٹڑی پر نہیں چڑھ سکا۔ یہ تو صرف معاشی خسارہ ہے، انسانی قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے، سربرینیکا کے قتل عام میں بے شمار لوگ مارے گئے۔ ذہنی اذیت اور تکلیف کے باعث زندگیاں برباد ہو گئیں، کئی لوگ آج بھی خوف کے مارے سو نہیں پاتے۔

پاکستان اور بھارت کا المیہ یہ ہے کہ یہ اپنے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ یہ اقوام متحدہ اور شنگھائی تعاون تنظیم کے لئے تو امن کر سکتے ہیں، اپنے کروڑوں افلاس زدگان کے لئے نہیں! چین اور امریکہ کی اسلحہ کی صنعت کو بڑھانے کے لئے تو جنگ لڑ سکتے ہیں لیکن سرحد کے آر پار بنیادی انسانی ضروریات سے محروم کروڑوں عوام کے حالات زندگی بہتر بنانے کے لئے نہیں، ایسا اس لئے ہے کہ دونوں اطراف کا برسراقتدار طبقہ یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ ان کی بقاء ادھورے امن اور نامکمل جنگ کا کھیل کھیلتے رہنے میں ہی ہے۔

یہ کبھی نہیں بتاتے کہ سرحد کے دونوں جانب غربت، افلاس اور بھوک کے ہاتھوں روز مرنے والوں کا ماتم کیسے کیا جاتا ہے، کیسے آئے دن دہشت گردی اور انتہاء پسندی کا شکار ہونے والے مظلوموں کے لواحقین کے بین اور نوحے ارباب اختیار کے کانوں تک پہنچنے سے پہلے ہی بے بسی سے دم توڑ جاتے ہیں، ظلم تو یہ ہے کہ سر جوڑ کر گفتگو کرنے والے اہل دانش ایک دوسرے کو جنگ کی ہولناکی اور سفاکیت دکھانے کے بجائے، جنگ کے جواز تراشتے ہیں، اس بات سے بے پرواکہ ان کے مفلس اور فاقہ زدہ عوام ہر روز پیٹ بھرنے کے لئے زندگی سے جنگ لڑتے لڑتے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ دشمنی اور اختلاف اپنی جگہ مگر جنگ کی ہولناکی اور تباہی کو خوبصورت بنا کر پیش کرنا ظلم ہے۔ وقت آ چکا کہ جنگ کے شان و شوکت سے آراستہ اور خوش نما معنی محدود کر دیئے جائیں۔ اس سے پہلے کہ بے رحم وقت ہم پر تلخ حقیقت آشکار کر دے۔

تازہ ترین