• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انگریزی کا ایک لفظ ہے ’’ڈبل تھنک‘‘ ۔ اسے جارج آر ویل نے اپنی افسانوی ضرورت کے تحت گھڑا تھا۔ اس کا مفہوم بغیر کسی وضاحت کے ، کچھ کچھ سمجھ میں آتا ہے۔ ایک ترجمہ اس کا ’’دہری سوچ‘‘ بھی ہوسکتا ہے۔ آرویل نے اس کا استعمال اس کیفیت کے لئے کیا ہے کہ جب کوئی دومتضاد خیالات۔ پر بیک وقت یقین کرے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس وقت پاکستان تحریک انصاف یعنی وزیراعظم عمران خان کی حکمراں جماعت ’’ڈبل تھنک‘‘ کا مظاہرہ کررہی ہے۔ وہ یوں کہ نیا پاکستان بنانے کے لئے اس نے جس جدوجہد کا آغاز کیا ہے اس کی بنیادی ضرورت یہ ہے کہ ملک میں کسی حد تک اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ سکون اور امن کی فضا قائم ہو کہ جس میں معاملات پر سنجیدہ اور دلیل کے ساتھ گفتگو ممکن ہو۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ حزب اختلاف سے زیادہ تحریک انصاف کے رہنما سیاسی اختلافات کو ہوا دے رہے ہیں۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا انداز بیان کہ جس سے ان کادہن بھی بگڑ جاتا ہے آپ کے سامنے ہے۔ دوسرے کئی رہنما بھی جیسے آستین چڑھا کر مسلم لیگ نواز کی رخصت ہونے والی حکومت کو کوسنے میں مصروف رہے ہیں۔ فواد چوہدری نے ایک دن کے بعد دوسرے دن بھی اپنا حملہ جاری رکھا اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس حکمت عملی کو عمران خان کی حمایت حاصل ہے۔ اور اگر آپ اس تقریر کو یاد کریں جو عمران خان نے انتخابات کے نتائج واضح ہوتے وقت کی تھی تو یہاں بھی کھلا تضاد نظر آتا ہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ یہ لوگ اقتدار کی میز پربیٹھے ہیں اور انداز کچھ ایسے ہیں کہ جیسے کنٹینر پر کھڑے ہوں۔ گویا ملک کو تقسیم کرکے اسے متحد کرنے کا کام کیا جارہا ہے۔ انتخابات کو اب ڈھائی مہینے ہو چلے ہیں اور ابھی تک انتخابی سیاست کا بخار نہیں اترا۔ ایک کھیل ہے کہ جاری ہے اور تماشائیوں کی داد لینے کے لئے چوکے ، چھکے لگائے جارہے ہیں۔ یہ منظر بھی آپ نے دیکھا کہ ایک وزیر کہ جنہوں نے انتخابات سے کچھ عرصہ پہلے ہی اپنی وفاداری کو تبدیل کیا تھا کیسے پچھلی حکومت کو کھری کھری سنارہے تھے۔

مثالیں تو کئی ہیں لیکن اس کالم کا دامن تنگ ہے اور پھر جو کچھ میں کہنا چاہتا ہوں وہ اس سے آگے کی بات ہے۔ اس وقت ساری توجہ معیشت پر ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ معاشرے کی مفلسی کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔ بلکہ سیاسی تنائو نے پورے معاشرے کو ذہنی اور جذباتی طور پر الجھا رکھا ہے۔ ہاں، کرپشن ایک بڑا موضوع ہے۔ احتساب کا ڈھول بج رہا ہے۔ اخراجات کم کرنے کے لئے سادگی کا پرچم بلند کیا گیا ہے اوراس کے سائے میں کاروں اور بھینسوں کے نیلام کا تماشا بھی کیا گیا ہے۔ تعلیم کا بھی ذکر ہے۔ یہاں بھی حوالہ ان انسانی وسائل کا زیادہ ہے جو کاروبار اور روزگار کے لئے لازم ہیں۔ اس تعمیر کی بہت بات ہورہی ہے کہ جس کے لئےسیمنٹ اور لوہے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس تعمیر کی بات نہیں ہورہی کہ جس کا تعلق انسانی رشتوں سے ہے۔ کردار میں ہے، سوچنے کی اور بات کرنے کی آزادی سے ہے۔ مسکرانے اور گیت گانے سے ہے۔ مختصر یہ کہ جس کا تعلق اس زندگی سے ہے جوہم سب جی رہے ہیں۔

میر ی مشکل یہ ہے کہ مجھے یہاں بھی ، یعنی معاشرے کی فکری اور تہذیبی مفلسی کو دور کرنے کے عمل میں ’’ڈبل تھنک‘‘ کی کارفرمائی دکھائی دے رہی ہے۔ بجٹ کے خسارے گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں۔ ڈالر کی قیمت گرتی، بڑھتی رہتی ہے، ترقی کی رفتار اور فی کس آمدنی میں اتار چڑھائو دکھائی دیتا ہے۔ اقتصادی محاذ پر جنگ جاری رہتی ہے۔ لیکن معاشرے کی ذہنی اور جذباتی صورت حال ویسی ہی رہتی ہے کہ جیسی ہے۔ حکومتوں کے آنے جانے سے اس پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔ جن نفرتوں کی ہم نے اتنے برسوں آبیاری کی ہے ان کی جڑیںاب ہماری اجتماعی سوچ میںاترچکی ہیں۔ اور ہم اس تبدیلی کے بارے میںسوچنے کی ہمت بھی نہیں کررہے جو ان جڑوں کو اکھاڑ کر اس زمین میں پھولوں کا باغ لگانے سے آئے گی۔ تحریک انصاف ایک بڑی اور کئی خاص حلقوں میں مقبول پارٹی ہے۔ ووٹوں کا شمار کسی نے کیسے کیا اس سے قطع نظر ، عمران خان کی حکومت فی الحال بہت مضبوط ہے۔ سو ایک نیا پاکستان بنانے کے لئے کوئی بڑی پیش قدمی اس کےبس میں ہونا چاہئے۔ کیا یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ حکومت معاشرے کو تبدیل کرنے کے انقلابی عمل کا آغاز کرسکتی ہے؟ اس سوال کا جواب آپ خود سوچیں۔ پہلا مرحلہ تو یہی ہے کہ آخر اس تبدیلی کی سمت کیا ہوگی؟ ایک ترقی پذیر ، روشن خیال معاشرہ کہ جو نئی دنیا سے جڑا ہوا ہو یا ایک قدامت پرست ، عدم برداشت سے معمور معاشرہ کہ جو سماجی اور فکری آزادیوں کو محدود کرے؟ اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ اس بنیادی ، نظریاتی کشمکش سے ہٹ کر ہم ان اقدامات پر گزارہ کرلیں جن کا وعدہ عمران خان کی جماعت نے اپنے منشور اور کئی نکاتی اعلانات میں کیاہے۔ لیکن پھر یہاں نئی مشکلات کا سامنا ہوگا۔ میں ’’ڈبل تھنک‘‘ کی بات کررہا ہوں۔ کوئی کہےگا کہ واہ، یہ تو آپ ’’یوٹرن‘‘ کے رتبے کو بڑھا رہے ہیں۔ اب آپ فواد چوہدری کی اس تقریر کو یاد کریں جو انہوں نے صرف مشورہ دینے والی ایک کمیٹی کے ممبر کے دفاع میں کی تھی۔ کتنا جوش تھا ان کے لہجے میں۔ اور دلیل بھی بھاری تھی۔ اگر عمران خان اس موقع پر اپنے اس عزم کا اظہار کرتے کہ جو ان کی قیادت کا جواز فراہم کرتا ہے تو شاید ہم ایک نئے پاکستان کی طرف جانے والے راستہ پر آگے بڑھ سکتے۔ لیکن یہاں صرف معاشرےکی مفلسی ہی نہیں، طاقت کی کمزوری بھی عیاں ہوگئی۔ عمران خان کا ایک وعدہ یہ بھی ہے کہ ملک میں تعلیم کا ایک ہی نظام ہوگا۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ وعدہ وفا نہیں ہوگا۔ اب آپ کہیں گے کہ صرف عمران خان کی جماعت ہی نہیں،پاکستان کا حکمراں ذہن بھی ’’ڈبل تھنک‘‘ کاشکار ہے۔ تو پھر تبدیلی کہاں ہے! نیا پاکستان کیسے بنے گا؟ جو کچھ آپ سن رہے ہیں اس میں کہیں مدینے کی ریاست کا ذکر ہے۔ کہیں یورپ کی تحسین ہے اور کہیں چین کے نقش قدم پر چلنے کا اشارہ اور اس سارے خلفشار میں معاشرہ نہ آگے بڑھ رہا ہے۔ نہ کھڑا ہے بلکہ پیچھے کھسک رہا ہے۔ سیاسی تنائو نے اس میں ایک اور جہت کا اضافہ کردیا ہے۔ بھلے لوگ نواز شریف اور عمران خان کے مسئلے پر الجھ پڑتے ہیں۔ دوستیوں میں بال آجاتا ہے۔ اور کوئی یہ سمجھ نہیں پاتا کہ کون، کس نظریے کا علمبردار ہے۔ اور یہی تو سمجھنے کی بات ہے کہ پاکستان کیسا ہے اور اسے کیسا ہونا چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین