• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے پچھلے کئی برسوں سے اپنے اوپر چند نہایت بیہودہ قسم کی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں ۔ان پابندیوں کو بیہودہ اس لئے کہاکیونکہ میرے اپنے فائدے میں ہونے کے باوجود ان پابندیوں کے مطابق زندگی بسر کرناایسے ہی ہے جیسے کسی شوگر کے مریض کو چاکلیٹ فیکٹری میں فور مین لگا دیا جائے ۔مثلا ً میں نے خود پر جو پابندیاں لگا رکھی ہیں ان میں صبح تڑکے چھ بجے اٹھنا ،ڈیڑھ سو ڈنڈ بیٹھکیں نکالنا، پورے دن میں 2500کیلوریز تک کی ڈائٹ لینا( چاہے کھانے کی میز گرما گرم کلچوں اور بونگ پاؤں سے ہی کیوں نہ مزین ہو )کم از کم تین میل دوڑ لگانا اوررات گیارہ بجے سے پہلے سو جانا شامل ہیں ۔ان پابندیوں کا پارٹ ٹو بھی ہے جو میں نے حال ہی میں ریلیز کیا ہے اور جس کی رو سے میں نے اس ماہ کی یکم تاریخ سے تمام تلی ہوئی اشیا بھی ممنوع قرار دے دی ہیں (خود پر )۔ میں نے ان پابندیوں پر عمل نہ کرنے کی صورت میں اپنے لئے چند سزائیں بھی تجویز کی ہیں جن میں کم سے کم سزا متواتر دو گھنٹے تک کوئی بھی پاکستانی نیوز چینل دیکھنا ہے جبکہ زیادہ سے زیادہ سزا مسلسل پندرہ دن تک مارننگ شو دیکھنا ہے۔ان تمام انسانیت سوز سزاؤں کے باوجود، الحمد للہ،میں نے آج تک ان خود ساختہ پابندیوں میں سے کسی ایک بات پر بھی پوری ایمانداری کے ساتھ عمل نہیں کیا!پابندیوں کا یہ چارٹ میری کمپیوٹر ٹیبل کے بالکل سامنے والی دیوار پر چسپاں ہے اور میں آتے جاتے اسے نہایت حقارت کی نظر سے دیکھتا ہوں ۔یار دوست سمجھتے ہیں کہ غالباً میں اس ہدایت نامے کی روشنی میں روز بروز اپنی قوت میں اضافہ کر رہا ہوں حالانکہ سچی بات یہ ہے کہ ان پابندیوں کی دھجیاں اڑا کر میرے دل کو محض یہ تقویت ملتی ہے کہ کسی بھی قسم کی پابندی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی…چاہے وہ پابندی ذاتی ہو،اخلاقی یا پھر قانونی۔
ہمارے ملک میں بھی طرح طرح کی پابندیاں عائد ہیں مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمیں کبھی ان پابندیوں کا احساس تک نہیں ہوا۔مثلاً آپ نے اکثر لوگوں کو یہ کہتے سنا ہوگا کہ غیر قانونی اسلحے پر پابندی لگا دینی چاہئے ،ملاوٹ کرنے والے کو قید میں ڈال دینا چاہئے ،جعلی دوائیاں بیچنے والے کو پھانسی دے دینی چاہئے ،سرکاری سکولوں سے غیرحاضر رہنے والے اساتذہ کو نوکری سے نکال دینا چاہئے، کرپٹ پولیس افسروں کی پیٹیاں اتروا لینی چاہئیں، ٹیکس چوری کرنے والوں کو جیل بھیج دینا چاہئے ،پیسے بٹورنے والی فراڈ این جی اوز کی رجسٹریشن منسوخ کر دینی چاہئے ،فضا میں زہر آلود مادہ چھوڑنے والی فیکٹریوں کو تالا لگا دینا چاہئے ،بغیر سائلنسر والی گاڑیوں کو ضبط کر لینا چاہئے، منشیات کی سمگلنگ کرنے والوں کوڑے مارنے چاہئیں ،بچوں سے بیگار لینے والوں کو عمر قید کی سزا سنا دینی چاہئے وغیرہ وغیرہ۔یہ سب باتیں بظاہر بہت دلکش لگتی ہیں مگر اصل رونا یہ ہے کہ ان سے متعلق پابندیاں اور قوانین پہلے سے ہی موجود ہیں ۔کیا ملک میں دہشت گردی پر پابندی نہیں ہے ؟ کیا غیر قانونی اسلحہ لے کر پھر نا جائز ہے ؟ کیا ملاوٹ کرنے والے کے لئے قانون موجود نہیں ؟کیا منشیات کے سمگلروں کے لئے قانون میں پھولوں کے ہار پہنانے کی سزا رکھی گئی ہے؟کیا پولیس اور دیگر محکموں کے کرپٹ ملازمین کے احتساب کے قوانین پہلے دن سے ہی موجود نہیں ؟کیا بچوں سے بیگار لینے پر پابندی نہیں؟جب یہ تمام قوانین اور پابندیاں پہلے سے ہی قانون کی کتابوں میں موجود ہیں تو پھر ہم ان پابندیوں کا ”پارٹ ٹو“ کیوں ڈیمانڈ کرتے ہیں ؟ اس بات پر غور کرنے کی بجائے کہ موجودہ قوانین کی پاسداری کیوں نہیں ہوتی ،ہم ریاست کی طرف سے مزید قوانین اور پابندیاں لگانے کو مسئلے کا حل کیوں سمجھتے ہیں ؟جب ریاست پہلے سے موجود قوانین پر عملدرآمد کروانے میں کامیاب نہیں ہو سکی تو کیا گارنٹی ہے کہ نئے قوانین پر عمل کروالے گی ؟
قانون پر عمل کروانے کی ریاستی طاقت یا اتھارٹی کو ”رٹ آف اسٹیٹ “ کہتے ہیں ۔یہ بہت دلچسپ تصور ہے۔فرض کریں کہ آپ بلوچستان کے شہر مستونگ میں رات دو بجے گاڑی ڈرائیو کر تے ہوئے ایک سڑک سے گذرتے ہیں ،آگے ایک چوراہاآتا ہے جہاں نصب ٹریفک سگنل کی بتی سرخ ہے ۔دور دور تک کوئی آدم زاد نہیں ہے لیکن اس کے باوجود آپ سرخ اشارے پر گاڑی روکتے ہیں اور بتی سبز ہونے پر ہی آگے بڑھتے ہیں ۔آپ کا یہ عمل ریاستی عملداری کی شدت کو ظاہر کرے گا ۔(یہ اور بات ہے کہ بلوچستان کے اضلاع میں رات دو بجے گاڑی ڈرائیو کرنا درحقیقت دہشت گردوں کی رِٹ چیلنج کرنے کے مترادف ہے )۔ دوسری طرف اگر پشاور میں چند مسلح افراد ایک پولیس چوکی پر حملہ کریں اور وہاں موجود ایس پی کا سر کاٹ کر لے جائیں تو بھی آپ کو ”رِٹ آف سٹیٹ“ کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا ۔ایک مثالی ریاست وہ ہوتی ہے جہاں سخت سے سخت قانون کی عملداری کیلئے ریاست کو کم سے کم طاقت استعمال کرنے کی ضرورت پیش آئے۔ اگر ریاست کو موٹر سائیکل سواروں پر عائد ہیلمٹ پہننے کی پابندی کو طاقت کے زور پر موثر بنانا پڑے تو سمجھ لیں کہ ریاست کی رِٹ کا پٹھا بیٹھ چکا ہے ۔رِٹ آف اسٹیٹ کمزور پڑنے کی وجوہات کیا ہوتی ہیں ،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اکیلے صوبہ پنجاب میں چار سو سے زائد قوانین موجود ہیں اور ایک سے ایک بڑھ کے ۔کرایہ داری کے امور سے لے کر نجی تعلیمی اداروں کے انتظام تک اور موٹر کاروں کی رجسٹریشن سے لے کرکرپشن کی روک تھام تک ہرمعاملے کے متعلق قانون موجود ہے اورصرف پنجاب پر ہی کیا موقوف، پورے پاکستان میں قوانین کی بھرمار ہے مگر عملداری نہ ہونے کے برابر کیونکہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ قانون پورے پاکستان پر لاگو ہو تاہم اپنے گھر اور سسرا ل والے اس سے مستثنیٰ ہوں۔ یورپ میں کار میں بیٹھتے ہی لوگ میکانکی انداز میں سیٹ بیلٹ یوں لگاتے ہیں کہ گمان ہوتا ہے کہ جیسے وہ سیٹ بیلٹ سمیت ہی پیدا ہوئے ہوں گے ۔اس کیوجہ یہ نہیں کہ وہاں سیٹ بیلٹ نہ پہننے کی سزا پھانسی ہے بلکہ اسکی وجہ یہ ہے کہ پکڑے جانے کی صورت میں بھاری جرمانے کی کوئی معافی نہیں ۔سو پیارے بچو ،ایک بات تو طے ہوئی کہ قانون کے سخت ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ قانون پر بلا تفریق عمل درآمد سے در اصل رِ ٹ آف سٹیٹ کا رستہ ہموارہوتا ہے۔سخت سزا نہیں ،سزا کا یقین معاشرے میں لاقانونیت ختم کرتا ہے ۔جس روز کوئی نوجوان پہلی مرتبہ ٹریفک سگنل توڑتا ہے اور بچ نکلتا ہے، اس دن یہ احساس اسکے دماغ میں جڑ پکڑنا شروع کر دیتا ہے کہ ریاست جرائم کی پکڑ میں کمزور ہے لہٰذا یہاں سسٹم کو ناکام بنا کر اپنا الّو سیدھا کیا جا سکتا ہے۔جس ریاست میں چھوٹے موٹے جرائم کی سزا پہلے دن سے نہ دی جائے وہاں کبھی بھی بڑے جرائم کے معاملے میں رِٹ قائم نہیں کی جا سکتی ۔مسائل کا حل یہ نہیں ہے کہ نئے قوانین بنائے جائیں اور ریاست ہر معاملے میں دخل اندازی کرتی پھرے بلکہ مسائل کا حل پہلے سے موجود قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں اس کام کو ممکن کر دکھانا ایسے ہی جیسے کوئی دمے کا مریض ہمالیہ کی چوٹی سر کر لے ۔لیکن دنیا میں دمے کے مریضوں نے یہ کام کیا ہے سو ہم بھی کر سکتے ہیں مگر اسے کرنے کیلئے دو باتوں کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ نمبر ایک، حکومت کی نیک نیتی
(Will of the government) اورنمبر دو، حکومت کی استعداد (Capacity of the government) یہ دونوں باتیں کیسے ممکن بنائی جا سکتی ہیں ،اس کیلئے دیکھتے رہئے ”عشق ممنوع“۔
تازہ ترین