• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان دنیا کے ان خوش قسمت ترین ممالک میں سے ایک ہے جن پر قدرت بے حد و حساب مہربان ہے۔ ایک نہیں کئی لحاظ سے بیش بہا قدرتی وسائل، پھر ہمارے اپنے پیدا کئے قومی بحرانوں اور خطرات سے باربار نکالنے میں بھی پیش پیش۔ معاف کیجئے ہم ایسی بیمارقوم بن گئے ہیں جو میسر سامان چکھ کر منہ موڑ کر مسائل اور دکھ پیدا کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ عروج و زوال کی داستانیں تو بہت سی اقوام کی مشترکہ نوعیت کی تاریخ ہے لیکن پاکستان کا قیام اور ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ بناکر ہمارے قومی اخلاق کا مسلسل گرتامعیار اور موجودہ سماجی پسماندگی کاعالم، اس کے نتیجے میں مملکت کا بار بار بحرانوں میں گھرنا اور نکلنا، نکل کر سنبھلنا اور سنبھل کر پھر پھسلنا، دنیاکی جدید تاریخ کاعجب ہی کیس ہے۔ بہت قابل مطالعہ اورتحقیق کامتقاضی۔

اس منفرد تاریخی پس منظر کے ساتھ آج بھی پاکستان عالمی و علاقائی شیطانی سیاسی کھلواڑ کے فسادی کھلاڑیوں کی نظربد کا فوکس ہے۔ احساس کمتری کے مارے خودغرض اور گھٹیا ذہن حکمرانوں کی شدید بیمار ذہنیت سے آج بھی پاکستان بین الاقوامی اور عالمی سیاست کی کتنی ہی گیمز میں نتیجہ خیز پارٹنر بننے کے بعد بھی تشویشناک اقتصادی بحران اور سلامتی کے ہمارے لئے گھڑے گئے طرح طرح کے اور بڑے خطرات و خدشات سے دوچار ہے۔ ہماری قومی اقتصادیات زمین سے لگی ہوئی اور بحالی سےنکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ ہمارا قومی سیاسی استحکام پارے کی سی لرزش میں رہتا ہے۔

وائے نصیب اس صورتحال کے باوجود مملکت کو اس تشویشناک اقتصادی صورتحال میںبھی ایک مصدقہ دیانت دار، مخلص، عوام دوست اور پرعزم قومی قیادت تو بالآخر نصیب ہوگئی لیکن کاروبارِ حکومت چلانے کے لئے اس کا اناڑی پن بھی واضح ہے۔ اس بااعتماد قیادت کا انحصار چند فعال معاونین کو چھوڑ کرزیادہ تراسٹیٹس کو کی ٹکسال کے کھوٹے سکوں پر ہے جو یاتو چلتے نہیں اور جو چل رہے ہیں وہ چھوٹے بڑے ڈیزاسٹر کے ساتھ قیادت کی خوبیوں اور روایت شکن حکومتی اقدامات کے باوجود، دوبارہ بیڈ گورننس کے مظاہرے سے گڈگورننس کاتوازن خراب کر رہےہیں جبکہ وقت کا اولین تقاضافقط گڈگورننس ہے جس سے لاپروائی کی اب قطعی کوئی گنجائش نہیں۔

آج پاکستان کی اس عملی صورتحال کے باوجود ’’مملکت خداداد‘‘ پاکستان کے مستقبل قریب و بعید میں ظہور پذیر امکانات کی روشنی میں ایٹمی پاکستان، ترقی پذیر دنیا میں فقط اپنی ایٹمی حیثیت سے نہیں پہچانا جارہا بلکہ اس کی امکانی اقتصادی ترقی، عالمی علاقائی امن و استحکام میں اس کا کردار، مثالی دفاع اور سب سے بڑھ کر شفافیت اور گڈگورننس کی چمک دمک دنیا میں مثالی حد تک ہر سو پھیلتی معلوم دے رہی ہے اور سمجھدار ممالک نےپاکستان کو اسی طرح ڈیل کرناشروع کردیاہے۔ نہ جانے سب سے پہلے کس پاکستانی نے اپنے ابلاغ، کلام یا تحریر میں اپنے وطن کو ’’مملکت خداداد‘‘ قرار دیا تھا کہ ساری دنیا میں یہ زہریلے عالمی پروپیگنڈے سے ’’دہشت گردوں کی جنت‘‘ کے طعنے اور نفرت سہتاسہتا اور خود کو عالمی برادری میں تنہا کرنے کی سازشوں سے جیسے تیسے لڑتا بھڑتا، آج مستقبل کی عالمی اقتصادی سیاست کا مرکز و محوور بنتا جارہاہے۔ عجب مملکت ہے کہ اس کا ہر قابل اطمینان پہلو شدید بحرانی کیفیت سے نکلتا ہے۔ یہ صورت ہمارے کرپٹ اور ہر لحاظ سے بددیانت حکمرانوں نےتوکیا نکالنی تھی، قوم کی بے بسی یا بے حسی کا درجہ بھی کوئی کم نہیں رہا۔ لیکن یہ بلند سے بلند تر ہی ہوتا رہا۔ گزشتہ ایک عشرے میں تو یہ واحد بلندی تھی جو ہمیں میسر رہی اورجس سے ملکی سلامتی کے خطرات مسلسل منڈلاتے رہے، لیکن ملک و قوم کی بقا کی راہ ٹاپ ٹو ڈائون احتساب سے ایسی نکلی کہ بقول سابق صدرمملکت ’’یہ تو آسمانی نزول ہے جوحق وسچ بن کر سامنے آیا اور آرہاہے۔‘‘ ایسے میں آج کی تشویشناک بحرانی کیفیت اقتصادی بھی اور جملہ بھی، پاکستان کی تابناکی، امکانی شفافیت اور ہوتے احتساب پھر عدلیہ اور نیب ، تحقیقاتی اداروں اور ایف بی آر کے اپنے آئینی کردار کی ادائیگی سے پیدا ہوتی گڈگورننس یقینی معلوم دے رہی ہے۔ وگرنہ ہمارے حکمران سنبھلنے کا نام نہیں لے رہے تھے بلکہ ان کا بگاڑ ہر لحاظ سے بے قابو ہو گیاتھا۔ نہ قوم مطلوب درجے پر بیدارہوئی لیکن ’’آسمانی نزول‘‘ یا پاناما نے تابناکی کی جانب سفر کا ایسا راستہ کھولا کہ سفر دائرے سے نکل کر جانب ِ منزل تیز تر ہو گیا۔ آج دنیا بھر کے تھنک ٹینکس میں پاکستان کا انتہائی پرامن بنتا تشخص بحیثیت ’’عالمی خوشحالی اور امن و استحکام کے پل‘‘ کے طور زیرغور ہے۔ اس کی اہمیت ، اس کی نئی حیثیت عالمی و علاقائی سیاست میں اس کے امکانی کردار پر اٹھتے سوالات کے درست جوابات کی تلاش پر کام ہورہاہے۔ چین اور روس جیسی اٹھتی، بڑھتی، پھیلتی اقتصادی اور عسکری طاقتیں اپنے عظیم تر قومی مفادات کے لئے دنیا سے بذریعہ پاکستان اپنے اقتصادی، دفاعی اور سفارتی و سیاسی رابطے کو ناگزیرقرار دے چکی ہیں اور امریکہ اپنی تمام تر بھارت دوستی اور پاکستان سے ناپسندیدگی کے باوجود مکمل سردمہری اختیارکرنے کاخطرہ مول لینے کےلئے تیار نہیں۔ بھارت پاکستان کو امریکی سفارتی تعاون سے دنیا میں تنہا کرنے کا زور لگاتے لگاتے، خود مستقبل کی عالمی اقتصادی سرگرمیوں کے سب سے بڑے زون سی پیک سے مستقبل میں بھی بالکل کٹا ہوا معلوم دیتا ہے اب جبکہ سعودی عرب اور ایران سی پیک میںاپنی مطلوب شرکت کاحقیقت پسندانہ اظہار بغیر کسی سفارتی مصلحت کے کرچکےہیں۔ بھارت مسئلہ کشمیر پر اپنے بے لچک رویے کی وجہ سے مستقبل قریب میں عالمی امن اور خوشحالی کے ضامن سی پیک سے کوسوں دور رہے گا اور وہ مقبوضہ کشمیر پر بھی قابض نہیں رہ سکے گاکہ مٹھی سے نکلتی ریت نکلنا شروع ہوگئی بالآخر ہتھیلی خالی ہو کررہے گی۔ ’’میری ٹائم‘‘ سمندری مینجمنٹ سائنس کی اصطلاح ہے۔ مختلف النوع کی سمندری ٹریفک اور اس پر قومی و انسانی ضرورتوں کے مطابق کنٹرول ’’میری ٹائم‘‘ کہلاتا ہے۔ پاکستان کے پوشیدہ قدرتی وسائل معدنیات، تیل و گیس کے ذخائر کے امکانات، دریائی نظام، پہاڑی گلیشیر اور پہاڑ، عظیم تر زرعی خطوں اور لق دق صحرائوں کا ذکر تو ہم اپنے لٹریچر، صحافتی تحریروںاور قومی موضوعات پر گفت و شنید میںبہت کرتے ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ قوم آگاہ ہے کہ ’’مملکت خداداد‘‘ کیونکر ’’مملکت خداداد‘‘ ہے۔ شعور اور اس سے عملی فائدہ اٹھانے کےطریقے سے قوم آگاہ ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ قوم کی بدقسمتی سے ہمارےاپنے بیمار اجتماعی رویوں سے وہ عنصر بھی ملک میں موجود ہے جو ’’کالاباغ ڈیم‘‘ جیسی مجوزہ قومی نعمت کو فریز کرنے کےلئے عشروں سے غداری کی حد تک کامیاب سیاسی بلیک میلنگ کا مرتکب ہو رہاہے۔اتنی کامیاب کہ اس پر قومی مکالمہ اور ایک دوسرے کی دلیل و موقف کو سمجھنے کی گنجائش بھی نہیں چھوڑی گئی اور آزادی ٔ اظہارکے بڑے بڑے سیاسی و صحافتی سورما قوم کو ڈراتے ہیں کہ اس پر گفتگوسے ملکی استحکام ڈگمگا جائے گا اور جمہوری عمل لرز جائے گا۔ گویا ملک کے سب سےبڑے اور اپنی جغرافیائی گزرگاہ کے اعتبار سےبیش بہا دریاکو ملکی اقتصادیات ، ترقی اور امن و خوشحالی سے کاٹ دیاگیا۔

وقت آ گیاہے کہ کالاباغ ڈیم پر اظہار رائے کی آزادی کی ضمانت کے حق کو عملی شکل دی جائے۔ کالاباغ ڈیم پر تو پوری قوم اور اسٹیٹس کو تشکیل دینے والے حکمران اور سیاستدان مکمل بلیک میلنگ کا شکار یا خود اس جرم کے شریک رہے یا کسی سیاسی مصلحت کا شکار ہوئے۔ وقت آگیا کہ اس پر کھل کر بات کی جائے۔ اسکے امکانات کا دائرہ دلیل اور حقائق کی روشنی میں وسیع تر کیاجائے بلکہ پاکستان کی ایک ہزار کلومیٹر سے زائد طویل ویران اورخاموش اوشن بائونڈری کو ملکی دفاعی و سلامتی، علاقائی امن و خوشحالی اور پاکستان کی ترقی و تعمیر ِمسلسل کے لئے مکمل سرگرم کردیاجائے۔

تازہ ترین