• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہتے تو ستمبر کو ستم گر ہیں لیکن یہ اکتوبر بھی بڑا ظالم مہینہ ہے۔ کراچی میں تو سمندر کی قربت کے باعث اکتوبر میں حبس بڑھ جاتا ہے۔ اور بہت ہی گرم گزرتا ہے۔ اکتوبر میں شہادتیں بھی ہوئی ہیں۔ پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان اس ماہ میں پنڈی میں گولی کا نشانہ بنے۔ پھر ایک سچے پاکستانی حکیم محمد سعید بھی اسی سفاک مہینے میں شہید کیے گئے۔ اکتوبر میں سیاسی حکومتوں کی بساط بھی لپیٹی جاتی رہی ہے۔ پہلا مارشل لا 7اکتوبر کو صدر اسکندر مرزا نے نافذ کیا۔ اور 27اکتوبر کو انہیں بھی رخصت کر دیا گیا۔ 12اکتوبر تو ماضی قریب کی اہم تاریخ ہے جب ایک منتخب وزیراعظم نے ہوا میں معلّق آرمی چیف کو برطرف کرکے نیا آرمی چیف لگانے کی کوشش کی۔ تو رات گئے ان کی اپنی حکومت رخصت کر دی گئی۔

اب اکتوبر 2018شروع ہوا ہے۔ کوئی اچھی خبریں لے کر نہیں آ رہا ہے۔ سی پیک میں سعودی عرب کی شمولیت سے ہمسایہ ملک ایران کو ناراض بتایا جا رہا تھا مگر ایران کے سفیر نے بلوچستان کے دورے کے بعد ایک پریس کانفرنس میں واضح کر دیا کہ ایران کو سعودی عرب یا کسی بھی مسلم ملک کی طرف سے سی پیک میں سرمایہ کاری پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن قرائن کہہ رہے ہیں کہ معاملات بگڑ سکتے ہیں۔ پاکستان کو اس وقت ایک تنی ہوئی رسی پر چلنا پڑ رہا ہے۔ ہمیشہ کی طرح پاکستان داخلی اتحاد سے محروم ہے حالانکہ خارجہ امور کے سلسلے میں قوموں کا نقطۂ نظر ایک ہی ہوتا ہے۔ اپنے ازلی حریف بھارت کو دیکھ لیجئے کہ ان کی پارٹیوں میں ہزار اختلافات ہوں مگر پاکستان اور کشمیر کے سلسلے میں وہ سب یک زبان اور یک خیال ہوتے ہیں۔ آج کل انگریزی سے ہم نے ایک اصطلاح اخذ کرلی ہے کہ وہ ایک پیج پر ہیں حالانکہ اُردو میں بہتر ترکیب ہم خیال کی موجود ہے۔ اُردو پر ظلم بڑھتا جارہا ہے۔ اُردو سے اربوں روپے کمانے والے اُردو کی آرائش و زیبائش اور صحت پر کوئی سرمایہ کاری نہیں کر رہے ہیں۔

میں جب یہ کالم لکھنے بیٹھتا ہوں حالانکہ یہ محض مضمون ہوتے ہیں، کالم نہیں۔ کالم لکھنے والی تو الگ ہی ہستیاں ہوتی تھیں جو اپنے اخبار کی پہچان ہوتے تھے۔ کالم میں شگفتگی شرط ہے۔ بات کتنی سنجیدہ ہو، لطیف پیرائے میں کی جائے۔ قومیں ویسے ہی بہت سنگین مسائل کا شکار ہوتی ہیں۔ پھر گفتگو بھی اگر بہت سنجیدہ ہو تو قومیں چڑ چڑی ہو جاتی ہیں۔ کالم کی کچھ شرائط سوشل میڈیا میں پوری کی جا رہی ہیں۔ طنز و مزاح اور لطائف و ظرائف میں آخری سطر غضب کی ہوتی تھی جس سے پورا ماحول ہی بدل جاتا تھا۔

میں کہنا چاہ رہا تھا کہ جب لکھنے بیٹھتا ہوں تو انہی صفحات پر مجھ سے بہت پہلے لکھنے والے میرے دھیان کی سیڑھیوں سے اترنے لگتے ہیں۔ بہت سوں کو صرف پڑھا۔ بہت سوں کے ساتھ اٹھے بیٹھے بھی۔ کیا لوگ تھے، کتنا وسیع مطالعہ تھا۔ ابراہیم جلیس بلند قامت، بلند آواز۔ ان کا قہقہہ جس نے بھی سُنا ہو گا آج تک ذہن میں گونجتا ہو گا۔ حرف کی حرمت کا خیال رکھنے والے۔ حوالات، جیلیں ان کو آج بھی یاد رکھتی ہیں۔ جنگ بلڈنگ کی پہلی منزل۔ اس زمانے میں بجلی کی گھنٹیاں نہیں ہوتی تھیں۔ انگلی سے دبائو دینے سے ٹرن ٹرن شروع ہو جاتی۔ جلیس بڑی دیر سے گھنٹی بجا رہے تھے۔ چپراسی نہیں آ رہا تھا۔ وہ گھنٹی اٹھا کر باہر نکلے جہاں چپراسی اسٹول پر بیٹھا تھا، اس کے کان کے قریب لے جا کر بٹن دبایا تو وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ ان کا کالم ’وغیرہ وغیرہ‘ کالم کی شکل میں ہی چھپتا تھا۔ اوپر سے نیچے۔ ابراہیم جلیس ناول بھی لکھتے تھے، کہانیاں بھی۔ چالیس کروڑ بھکاری ان کا شاہکار ہے۔

ان کے پڑوس میں ہی انعام درانی تھے۔ ’تلخ و شیریں‘۔ چھوٹے چھوٹے جملے۔ انتہائی تیز نشتر کی طرح جس پر ثبت ہو جاتے بلبلا اٹھتا۔

شفیع عقیل بھی یاد آ رہے ہیں۔ پنجابی اور اُردو دونوں میں بہت محبت بھری نظمیں۔ اُردو میں مصوری کے مختلف زاویوں پر لکھنے والے۔ زندہ دل۔ اطہر نفیس کی دل پذیر صورت بھی میرے سامنے جھلملا رہی ہے۔ وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اور لازوال غزلیں۔ مگر ہمیں یاد اس لیے آرہے ہیں کہ مہینے کے آخر میں جب سب کی جیبیں خالی ہوتیں تو ہم اطہر صاحب کے آس پاس منڈلانے لگتے۔ جنگ کے خزانے کی چابی ان کے پاس ہوتی تھی۔ ہم سب ان سے حسب توفیق کچھ ایڈوانس لیتے بعض تو تنخواہ ملنے پر لوٹا بھی دیتے۔ بعض اسے قرضۂ جاریہ ہی شُمار کرتے۔

ابن انشا اپنی معصومانہ مسکراہٹ کے ساتھ ریڈیو پاکستان کے سامنے والی بلڈنگ میں موجود ہیں۔ کتابوں کے سلسلے میں انہیں نگر نگر جانا ہوتا تھا۔ نیشنل بک کونسل میں ڈائریکٹر تھے۔ ان سارے جزیروں اور شہروں کی کہانیاں چھوٹے چھوٹے جملوں میں سناتے اور جمیل الدین عالی کی چٹکیاں بھی لیتے۔ دونوں کے کالم خوب پڑھے جاتے تھے۔ اپنا اپنا اسلوب تھا۔ پیر علی محمد راشدی اُردو انگریزی اور سندھی پر عبور۔ مشرق و مغرب لکھتے تھے اور عالمی سیاست پر سیر حاصل تبصرہ کرتے جن میں ان کا اپنا مشاہدہ بھی ہوتا۔ مطالعہ بھی۔

میر خلیل الرحمن جنگ کے قارئین کے لیے نابغۂ روزگار ہستیاں تلاش کر کے لاتے۔ پاکستان کے ابتدائی برسوں میں جب ارباب علم و دانش بھارت سے ہجرت کر کے آرہے تھے تو سب نامور اہل قلم کی تحریریں ’جنگ‘ کے صفحات کی زینت بنیں۔ جوش ملیح آبادی، نیاز فتح پوری، شوکت تھانوی ایک ہی page پر ہوتے تھے۔

ارشاد احمد حقانی کا اپنا ایک عہد ہے۔ بہت ہی مشکل حالات۔ جنرل ضیاء کا مارشل لا۔ ان دنوں میں روزانہ حالات حاضرہ پر قلم اٹھانا بہت ہی حوصلے اور جرأت کا تقاضا کرتا تھا۔ بڑے بڑے سیاسی سربراہ حقانی صاحب کی تحریریں پڑھ کر اپنی سیاسی راہیں متعین کرتے تھے۔

نسیمہ بنت سراج بھی یاد آ رہی ہیں۔ ان کی زبان ہی سب سے مختلف تھی۔ اک عجیب چاشنی تھی مرد و زن سب ان کے کالم کا انتظار کرتے۔

جناب وارث میر سے میری قربت لاہور سے تھی۔ پھر جب جنرل ضیا کے مارشل لامیں وہ ’جنگ‘ کے لیے لکھنے لگے تو ایک الگ اسلوب اپنایا۔ تجزیے کا حق ادا کرتے تھے۔ ہر خبر کا پس منظر پوری جزئیات کے ساتھ بہت ہی سادہ زبان میں۔ نصر اللہ خان کے الفاظ بھی یادیں گدگدا رہے ہیں۔ طنز لاجواب۔ شائستگی بھی اور شگفتگی بھی۔

آج یہ سب یاد آرہے ہیں۔ میرے ذہن پر بہت بوجھ ہے کہ میں بھی اس قطار کے آخر میں کھڑا ہوں۔ معلوم نہیں میں اس کا حقدار بھی ہوں۔ یہ اپنے اپنے عہد کا قرض اتار گئے۔ سوتوں کو جگاتے رہے۔ ضمیروں پر دستک دیتے رہے۔ حکمران ان سے خائف بھی رہتے تھے لیکن ان کا احترام بھی کرتے تھے۔

وے صورتیں الٰہی کس ملک بستیاں ہیں

اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں

تازہ ترین