• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چوہدری احمد سعید بھی اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے ہیں ۔ موت برحق ہے ہر ذی روح نے اس کا ذائقہ چکھنا ہے ۔ لوگ اس دنیا میں آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ۔ یہ سلسلہ جاری رہتا ہے لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں ، جو یہ بتا جاتے ہیں کہ جینا کس طرح چاہئے ۔ ان کے بچھڑنے کا بہت دکھ ہوتا ہے ۔ چوہدری احمد سعید کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے ، جو اپنے عہد میں کامیاب اور نامور تو ہوتے ہی ہیں لیکن ان کی عظمت ان کے نام اور مرتبے سے بھی زیادہ ہوتی ہے ۔

یہ بات اگرچہ روایتی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ چوہدری احمد سعید بہت خوبیوں کے مالک تھے ۔ وہ سخی مرد تھے ۔ وہ نہ صرف اپنے خیراتی اداروں سے غریب اور ضرورت مند لوگوں کی مدد کرتے تھے بلکہ ان کے پاس جو بھی اپنی حاجت لے کر آیا ، خالی نہیں لوٹا ۔ آج میں ان کی ایک ایسی خوبی کی بات کرنا چاہتا ہوں ، جس کے حامل لوگ بہت کم رہ گئے ہیں اور اس وجہ سے پاکستان بحران کا شکار ہے ۔ آج ہمیں چوہدری احمد سعید جیسے لوگوں کی ضرورت ہے ۔ میرا تعلق ان سے اس وقت بنا ، جب انہوں نے پی آئی اے کے چیئرمین کا منصب سنبھالا ۔ اس کے بعد وہ ہر ملاقات میں پہلے سے زیادہ غیر معمولی انسان محسوس ہوئے ۔ انہوںنے پی آئی اے جیسے ادارے کو بحران سے نکال کر ایک منافع بخش ادارہ بنایا ۔ چوہدری احمد سعید سے پہلے بھی پی آئی اے بطور ادارہ بحران کا شکار تھا اور ان کے بعد بھی بحران سے دوچار ہے ۔ آج کے حالات میں چوہدری احمد سعید کی اسی خوبی کا تذکرہ لازمی ہو جاتا ہے ، جس کی وجہ سے ایک ناممکن کام ممکن بن گیا ۔ یہ خوبی زندگی میں بڑی ریاضت اور اعلیٰ کردار کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ۔

پاکستان کے قومی ادارے جس تیز رفتاری سے تنزلی کا شکار ہیں ، اس کی دنیا میں نظیر نہیں ملتی ۔ قومی فضائی کمپنی پی آئی اے ان ڈوبتے ہوئے اداروں میں سرفہرست ہے ۔ پی آئی اے وہ فضائی کمپنی ہے ، جس نے امارات ایئر لائن کو جنم دیا ، جس کا آج دنیا میں چرچا ہے اور فضاؤں پر حکمرانی ہے ۔ پی آئی اے کی لیڈر شپ نے ایئر مالٹا ، ایئر سری لنکا اور سعودی عریبین ایئر لائن کو بنانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا لیکن پی آئی اے نے وقت کے ساتھ ساتھ زوال کا سفر جاری رکھا ۔ مختلف ادوار میں پی آئی اے کو ٹھیک کرنے کے نام پر کئی تجربات ہوئے لیکن کوئی نتیجہ نہ نکل سکا ۔ بالآخر ایک جرمن کو پی آئی اے کامنیجنگ ڈائریکٹر ( ایم ڈی ) بنایا گیا ۔ اس جرمن ایم ڈی نے جہاز بھی بیچ ڈالا ۔ نہ صرف جہاز جرمنی کے پاس چلا گیا بلکہ ایم ڈی بھی واپس جرمنی چلا گیا ۔ پی آئی اے کے قرضے ملکی بجٹ سے بھی تجاوز کر گئے ۔ اعلیٰ صلاحیت اور ’’ انٹر پری نیورل لیڈر شپ ‘‘ کے نام پر پی آئی اے کو ٹھیک کرنے کے لیے کئی لوگوں کو اس ادارے کا سربراہ بنایا گیا لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ اس حقیقت کا ذکر کرنا پڑتا ہے کہ ان لوگوں پر اپنی جیب بھرنے کا الزام لگا اور مبینہ نااہلی پر انہیں نکالا گیا ۔ پی آئی اے مزید تباہی کا شکار ہوتا رہا ۔ 2000ء میں جب پی آئی اے کا خسارہ اس ادارے کی بقا کے لیے خطرہ بنا ہوا تھا اور پائلٹس کی ہڑتال کی وجہ سے پی آئی اے کا آپریشن معطل تھا ، اسی دوران یہ خبر آئی کہ اس ادارے کے بحران سے نمٹنے کے لیے حکومت نے سروسز انڈسٹریز کے چیئرمین احمد سعید چوہدری کو پی آئی اے کا سربراہ مقرر کر دیا ہے ۔

یہ بات سمجھ سے بالا تر تھی کیونکہ چوہدری احمد سعید کو ایوی ایشن یا ایئرلائن کا کوئی تجربہ نہیں تھا ۔ دو دن بعد یہ خبر آئی کہ چوہدری صاحب پائلٹس کی ہڑتال ختم کرانے میں کامیاب ہو گئے اور ان کے عہدہ سنبھالنے کے 48 گھنٹوں میں پی آئی اے کے جہاز فضا میں بلند ہو گئے ۔ لوگوں نے دیکھا کہ قرضوں میں ڈوبی ہوئی ایئرلائن اپنے پیروں پر کھڑی ہونے لگی ۔ یہ وقت بھی آیا کہ نئے بوئنگ ’’ بی ۔ 777 ‘‘ طیارے خریدنے کا معاہدہ ہوا اور آج ان طیاروں کی وجہ سے پی آئی اے باقی ہے ۔ ملازمین کی تنخواہوں میں 20فیصد اضافہ کیاگیا اور 3ہزار ڈیلی ویجز / کنٹریٹ ملازمین کو مستقل کیا گیا ۔ باہر سے ماہرین کے نام پر کوئی بھرتی نہیں کی گئی بلکہ ادارے میں موجود افرادی قوت کی صلاحیتوں کو بہتر انداز میں استعمال کیا گیا ۔

رات دن کی محنت اور حقیقی انٹر پری نیورل لیڈر شپ کے باعث چوہدری احمد سعید نے وہ کر دیا ، جو اب تک کوئی دوسرا نہیں کر سکا ۔ وہ ہر ہفتہ کو کراچی سے اپنے گھر لاہور جاتے تھے اور اتوار کی شام واپس کراچی آ جاتے تھے ۔ آنے جانے کا ٹکٹ وہ اپنی جیب سے خریدتے تھے اور یہ سلسلہ چار سال تک جاری رہا ۔ انہوں نے اس عرصے میں پی آئی اے سے تنخواہ ، مراعات یا کوئی سہولت حاصل نہیں کی ۔ پی آئی اے کی چیئرمین شپ سے استعفیٰ دیتے ہوئے بھی انہوں نے یہ لکھا کہ وہ بعد میں بھی مفت ٹکٹ یا مراعات نہیں لیں گے ، جو سابق چیئرمین کا استحقاق ہے ۔ دوران ملازمت چار سال تک چوہدری صاحب قصر ناز کے ایک کمرے میں مقیم رہے ، جس کا کرایہ اور بجلی کا بل بھی وہ خود ادا کرتے رہے ۔ اپنے کسی رشتہ دار یا دوست کی سفارش پر پی آئی اے میں کوئی ایک بھرتی بھی نہیں کی اور کسی بھی سیاسی مداخلت کو خاطر میں نہ لائے ۔ انہوں نے وہی فیصلہ کیا ، جو ادارے کے مفاد میں تھا ۔ 2004 ء میں وہ خرابی صحت کی بنا پر اس عہدے سے مستعفی ہو گئے ۔ پی آئی اے کی 2004 کی بیلنس شیٹ گواہ ہے کہ یہ ادارہ منافع بخش ادار ہ بن گیا تھا اور شاید یہ آخری بار تھا ۔

پی آئی اے میں چوہدری احمد سعید کی تقرری پرویز مشرف کے دور میں ہوئی اور پرویز مشرف جانتے تھے کہ ان کے بھائی چوہدری احمد مختار اور چوہدری صاحب کے خاندان کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے ۔ یہ ان کی دیانت داری اور اعلیٰ صلاحیت کا سب سے بڑا اعتراف ہے ۔ انہوں نے قبل ازیں زرعی ترقیاتی بینک کو بھی ایک ’’ انٹر پری نیور ‘‘ بنایا ۔ انہوں نے کئی پرائیویٹ اداروں کو انٹر پری نیورل لیڈر شپ دی ۔ ان اپنا کا ادارہ ’’ سروس ‘‘ ایک ایسا کامیاب ادارہ ہے، جسے انہوں نے کسی حمایت یا قرضوں کے بغیر ایک بڑا تجارتی ادارہ بنایا ۔ ان کا یقین تھا کہ پیسہ جائز طریقے اور محنت سے کمایا جا سکتا ہے اور پیسہ لوگوں کی بھلائی پر خرچ کرکے زندگی کی حقیقی خوش حالی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ میرا ان سے مسلسل رابطہ رہتا تھا اور چند منٹ کی ان کے ساتھ گفتگو سے زندگی کے بارے میں اپنی سوچ کو درست کرنے کا موقع ملتا تھا ۔ 2016ء میں یعنی چوہدری احمد سعید کے پی آئی اے سے جانے کے 12 سال بعد پی آئی اے انے اپنے کیبن کریو کے لیے شوز ( جوتے ) ان کی کمپنی سے بنوائے ، جن کی مالیت 80 لاکھ روپے تھی ۔ چوہدری صاحب نے یہ رقم نہیں لی اور کہا کہ میں اس ادارے سے وابستہ رہا ہوں ۔ میری طرف سے یہ ادارے کے لیے گفٹ ہے ۔ چوہدری صاحب اداروں سے بننے والے نہیں بلکہ اداروں کو بنانے والے اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل شخص تھے اور انہوں نے جو کچھ اپنی محنت اور دیانت داری سے کمایا ، اسے سخاوت کے ساتھ ضرورت مند لوگوں کو پر خرچ کیا ۔ ممتاز اطالوی مفکر اور موجد لیونارڈو کا کہنا ہے کہ ’’ جس طرح اچھا گزارا ہوا دن میٹھی اور خوشگوار نیند لاتا ہے ۔ اسی طرح بہتر انداز میں گزاری ہوئی زندگی خوش گوار موت کا سبب بنتی ہے ۔ ‘‘ چوہدری احمد سعید جیسے لوگوں کی آج پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ آسمان تری لحد پر شبنم افشانی کرے ۔

بدلا نہ تیرے بعد بھی موضوع گفتگو

تو جا چکا ہے پھر بھی میری محفلوں میں ہے

تازہ ترین