• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مظہر برلاس نے اپنے گزشتہ کالم میں فواد چوہدری کو مولا جٹ قرار دیا کہ مولا کو مولانہ مارے تو مولا کو کوئی نہیں مار سکتا ۔انہی کی تقلید میں اپنے کالم کا عنوان میں نے بھی ’’نوری نت کی گرفتاری ‘‘رکھ دیا ہے ۔ گرفتار تو شہباز شریف ہوئے ہیں ۔ویسے شہباز زیرِدام کم ہی آیا کرتے ۔اقبال نے بھی کہا شاہیں یعنی شہباز کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا ۔شاید ہی شہباز شریف کی گرفتاری کو حیرت سے دیکھا گیا ۔آشیانہ اقبال ہائو سنگ کیس میں مبینہ کرپشن کے جرم میں سعد رفیق کی گرفتاری کی توقع کی جارہی تھی مگر فواد حسن فواد کے اقبالی بیان نے معاملہ ہی بدل دیا ۔جب شہباز شریف کو عدالت میں پیش کیا گیا تو نون لیگ کے کارکن بڑی تعداد میں عدالت کے باہر پہنچ گئے۔ نیب نے پندرہ دن کا ریمانڈ مانگا عدالت نے دس دن کا دے ہی دیا۔

اِسی کیس میں چار دن پہلے قیصر امین بٹ کی گرفتاری کی خبر آئی تھی ،اُن سے میرا تعلق خاصہ پرانا ہے۔اگر دو چار لوگ قریب سے جانتے ہیں تو ان میں ایک میں بھی ہوں جیسے ہی خبر آئی کہ نیب نے انھیں گرفتار کر لیا ہے تو میں نے اُن سے رابطے کی کوششیں شروع کردیں ،نیب سے ملاقات کی درخواست کی تو انہوں نے کہا کہ نہیں وہ ہمارے پاس نہیں ہیں ۔یہ صورت حال میرے لئے اور بھی عجیب وغریب تھی ۔دوسرے دن یہ خبر سنی کہ وہ فرار ہو گئے ہیں اور انکی رہائش گاہ سے شراب کی بوتلیں وغیر ہ پکڑی گئی ہیں یہ مجھے اور عجیب لگا میں یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ قیصر امین بٹ شرابی نہیں ہیں۔میں یہ نہیں کہہ رہا کہ وہ کوئی اللہ کے ولی ہیں ۔یقیناً انہوں نے بہت بھرپور جوانی گزاری مگر ان دنوں ان کی زندگی فقیروں اور درویشوں میں گزر رہی تھی ۔ان سے میری اکثر ملاقاتیں رات کے آخری پہر میں داتا دربار میں ہوئیں ۔بہر حال گرفتاری کی خبر کے اگلے روز ہی میری تلاش کامیاب ہوگئی ۔میرااُن کے ساتھ واٹس ایپ پر رابطہ ہو گیا۔میں نے ان سے کہاکہ آپ کو یہ بتاتے ہوئے کیوں ہچکچاہٹ ہو رہی ہے کہ پیرا گون ایکسٹینشن سعد رفیق کا پروجیکٹ ہے میرا اس سے کوئی تعلق نہیں۔وہ کہنے لگے کہ یہ بات میں کئی دفعہ نیب کے عہدے داروں کو بتا چکا ہوں کہ میرا پیرا گون ایکسٹینشن سے کوئی واسطہ نہیں۔میں پیراگون کا چیئرمین ہوں ۔یہ جو پیراگون ایکسٹینشن ہے ۔یہ کمپنی میرے ساتھ دھوکا کرکے بنائی گئی ہے مگر انھوں نے سعد رفیق کے معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ میں پیرا گون ایکسٹینشن میں حصہ دار نہیں ہوں اس لئے مجھے کیا معلوم کہ اس کی پشت پر سعد رفیق ہیں یا نہیں ۔مگر میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ نیب کے اہلکار مکمل طور پر اس معاملے کی تہہ تک پہنچ چکے ہیں انھوں نے سارے ثبوت حاصل کر لئے ہیں تب ہی انھوں نے شہبازشریف کو گرفتار کرنے کی جسارت کی۔اپوزیشن لیڈر کو گرفتار کرنا خاصہ مشکل مرحلہ تھا۔مگر قانون تو قانون ہے وہ وزیراعظم کے ہاتھوں میں بھی ہتھکڑیاں ڈال سکتا ہے۔قانون کے رکھوالے بتاتے ہیں کہ مجرم کتنا ہی چالاک کیوں نہ ہو چھپ نہیں سکتا۔موقع واردات پر پڑی ہوئی ایک ایک چیز چیخ چیخ کر مجرم کا نام بتا رہی ہوتی ہے بس سننے والے کان چاہئیں اور دیکھنے والی آنکھیں۔

کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ریاستی ادارے سابق صدر آصف علی زرداری پر کبھی ہاتھ نہیں ڈالیں گے مگر اپوزیشن لیڈر کی گرفتاری کے بعد یہ خیال بھی باطل ہو گیا ہے۔اگر شہباز شریف کو گرفتار کیا جا سکتا ہے تو آصف زرداری کی گرفتاری کوئی معنی نہیں رکھتی کیونکہ انکے خلاف شہبازشریف سے کہیں زیادہ مضبوط ثبوت اور گواہ موجود ہیں ۔شہبازشریف کی گرفتاری پر سب سے پہلی مذمت خورشید شاہ نے کی۔سو اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ آصف علی زرداری سے پہلے خورشید شاہ کی گرفتاری عمل میں آ جائے۔اس بات کا اندازہ آصف علی زرداری اور شہبازشریف دونوں کو ہو گیا تھا کہ قانون کے ہاتھ انکے گریبان تک پہنچنے والے ہیں اسی لئے انھوں نے ضمنی انتخابات میں اتحاد کر لیا تا کہ دونوں مل کر ریاستی اداروں پر اپنا دباؤ برقرار رکھ سکیں۔ماضی میں یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ جب بھی با اثر مجرموں پر ہاتھ ڈالا جاتا تھا تو جمہوریت خطرے میں پڑنے لگتی تھی۔پہلی بار ایک ایسی جمہوری حکومت آئی ہے جس کے لیڈر نے واضح الفاظ میں ریاستی اداروں کو پیغام دیا ہے کہ مجرم کا تعلق چاہے اپوزیشن سے ہو یا حکومت سے ،کسی سے کوئی رعایت نہ برتی جائے۔قانون کی حکمرانی نئے پاکستان کی اساس ہے۔اسی وجہ سے کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کے ایک آدھ وزیر کی گرفتاری کا امکان موجود ہے۔

شہباز شریف کے دس روزہ ریمانڈمیں یقیناً ان سے آشیانہ کیس کے علاوہ بھی بہت سی باتیں پوچھی جائیں گی۔ایک اور مقدمہ جس پر نیب میں زور و شور سے کام ہورہا ہے وہ میڈیا کے تناظر میں ہے ۔اس سلسلے میں بھی شہباز شریف سے تحقیق ہونی ہے ۔ایک صحافی جو وزیر بھی رہے ہیں ۔اُن کے تقریباً دس ارب روپے کے اثاثے نکلے ہیں ۔شاید ایک آدھ دن میں ان کی گرفتاری بھی عمل میں آجائے ۔نیب کا میڈیا کی کئی اہم شخصیات پر ہاتھ ڈالنے کا امکان ہے ۔

اس ساری صورت حال میں نواز شریف اور مریم نواز کی خاموشی حیرت انگیز ہے ۔جب سے وہ ضمانت پر رہا ہوئے ہیں اُن کا بیانیہ کہیں گم ہو کر رہ گیا ہے ۔ان کے بیا نیےکے تمام لائوڈاسپیکر مسلسل اُس آواز کے منتظر ہیں جس میں عدلیہ اور افواج پاکستان کا ذکر منفی انداز میں گونجتا تھا۔وہ بیانیہ جسے بیان کرتے ہوئے نواز شریف خود کو نظریاتی کہتے ہیں وہ بیانیہ کہیں اتنی گہرائی میں دفن ہوا ہے کہ شہباز شریف کی گرفتاری پر بھی قبر سے باہر نہیں جھانک سکا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین