• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کے سلسلے میں تنازعات برصغیر کی تقسیم سے پہلے کے ہیں۔ غالباً 1920سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ ایک مرحلے پر سندھ کے ساتھ سرائیکی بیلٹ کی ریاست بہاولپور نے بھی خاص طور پر Non-riparianعلاقوں کو دریائے سندھ سے پانی کی فراہمی کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ 1920سے اس علاقے میں پانی کی تقسیم کی تاریخ مختلف کمیشنوں اور کمیٹیوں کی تشکیل کی تاریخ ہے۔ آزادی کے بعد 50کی دہائی میں پاکستانی پنجاب اور ہندوستانی پنجاب کے درمیان پنجاب کے دریائوں کی تقسیم والے معاہدے پر بھی سندھ کو شدید اختلافات رہے ہیں۔ بعد میں 60کی دہائی میں عالمی بینک کے سہارے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ہونے والے طاس سندھ معاہدے پر بھی سندھ کو اعتراضات رہے ہیں، خاص طور پر نیویارک میں پاکستان اور ہندوستان کے وفود کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے دوران ایک دن پاکستانی وفد کے اپنے اجلاس میں سندھ کے نمائندے کے ساتھ جو حشر کیا گیا وہ بھی کم افسوس ناک نہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ یہ سب حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں کیونکہ اب تو دریائے سندھ پر ڈیم بنانے کی مخالفت کرنے پر سندھ کے عوام کو ہندوستان کا ایجنٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس معاہدے کے کچھ نکات پر بھی سندھ کو اعتراضات رہے ہیں۔ اب پھر 1991 میں صوبوں کے درمیان ہونے والے پانی کے معاہدے کا ذکر کرتے ہیں۔ اوّل تو اس مسئلے پر دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کے سلسلے میں ہونے والے مذاکرات پر ہی سندھ کے کئی سیاسی رہنمائوں اور آبی ماہرین کو اعتراضات تھے، یہ مذاکرات اس وقت ملک کے وزیراعظم میاں نواز شریف کی حکومت نے شروع کئے۔ ان مذاکرات پر سندھ کے سیاستدانوں اور دانشوروں کو بنیادی اعتراض یہ تھا کہ سندھ میں اس وقت وزیراعلیٰ جام صادق تھے۔ واضح رہے کہ جام صادق کے پاس اکثریت نہیں تھی مگر مختلف صوبوں سے جام صادق کی اقلیت کو اکثریت میں تبدیل کیا گیا۔ بہرحال ان مذاکرات کے نتیجے میں 1991میں مرکزی حکومت اور چاروں صوبوں کے درمیان معاہدہ ہوا اور اس پر دستخط ہو گئے۔ اس مرحلے پر میں اس بات کا ذکر کرتا چلوں کہ سندھ کے آبی ماہرین کو اس معاہدے پرپہلا بنیادی اعتراض یہ تھا کہ وزیراعظم نواز شریف کی حکومت فقط دریا میں موجود پانی کی تقسیم کرنا چاہتی تھی، باقی زیر زمین پانی کو اس تقسیم کا حصّہ بنانے کیلئے تیار نہیں تھی۔ سندھ کا مؤقف تھا کہ یہ سندھ سے بڑی ناانصافی ہے کیونکہ زیر زمین پانی کی کثرت فقط پنجاب کے علاقے تک محدود تھی باقی مشکل سے دس فیصد زیر زمین پانی سندھ کے علاقے میں آتا تھا۔ سندھ کے وزیراعلیٰ جام صادق نے بھی ابتدائی طور پر یہ مؤقف اختیار کیا کہ صوبوں میں پانی کی تقسیم دریا میں موجود اور زیر زمین پانی کے ذخائر کو ملا کر کی جائے مگر نواز شریف حکومت نے جام صادق کے مؤقف کو سختی سے رد کر دیا چونکہ جام صادق کی حکومت مرکزی حکومت کی حمایت کی وجہ سے قائم تھی لہٰذا انہوں نے اس مؤقف پر زور نہیں دیا مگر سندھ کے آبی ماہرین اور دیگر محققین کا یہ اعتراض آج بھی قائم ہے، بعد میں جس معاہدے پر دستخط کئے گئے اس کی ایک، ایک شق کو محض ایک صوبے کے مفاد میں اور سندھ کے مفاد کے برعکس کس طرح توڑا مروڑا گیا وہ بھی ایک الگ داستان ہے۔ اس معاہدے کی ایک شق میں اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ کوٹری کے نیچے سمندر تک پانی کی ایک خاص مقدار چھوڑنا چاہئے۔ اس سلسلے میں اس معاہدے کی جو شق ہے وہ میں یہاں من وعن پیش کر رہا ہوں:

"The need for certain minimal escapage to sea, below Kotri, to check sea intrusion was recognized. Sindh held the view, that the optimum level was 10 MAF, which was discussed at length, while other studies indicated lower/higher figures. It was therefore, decided that further studies would be undertaken to establish the minimal escapage needs downstream Kotri."

یہ کتنی دلچسپ بات ہے کہ 91کے معاہدے کی اس شق میں اس بات کو واضح الفاظ میں تسلیم کیا گیا کہ سمندر کی طرف سے زمین پر چڑھ آنے یعنی Sea intrusionکو روکنے کیلئے کم سے کم دس ایم اے ایف پانی کوٹری سے نیچے سمندر کی طرف چھوڑنا ہو گا مگر اب کہا جاتا ہے کہ سمندر میں جو پانی جاتا ہے وہ ضائع ہو جاتا ہے، حالانکہ Sea intrusionکو روکنے کے علاوہ دریا کے میٹھے پانی کے سمندر میں جانے سے جو دیگر کئی فوائد ہوتے ہیں ان پر میں کچھ عرصہ پہلے جنگ میں ایک تفصیلی کالم لکھ چکا ہوں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کوئی دن خالی نہیں جاتا جب دعویٰ نہیں کیا جاتا کہ دریائے سندھ کا پانی وافر مقدار میں کوٹری کے نیچے بہہ کر سمندر میں جا کر ضائع ہو رہا ہے۔ اس قسم کے بیانات کے بعد میں نے اپنے ایک کالم میں پاکستان کے موجودہ قابل احترام چیف جسٹس کو بڑے ادب سے مخاطب کرتے ہوئے ان سے درخواست کی تھی کہ خدارا پہلی فرصت میں کوٹری بیراج پر کھڑے ہو کر معائنہ کریں کہ وہاں سے کتنا پانی سمندر میں جا رہا ہے علاوہ ازیں میں نے قابل احترام چیف جسٹس سے یہ بھی درخواست کی تھی کہ وہ خود ہیلی کاپٹر سے Indus Basinکا معائنہ کریں اور خود دیکھیں کہ 90کی دہائی کے بعد کوٹری کے نیچے پانی کے برائے نام جانےکی وجہ سے سمندر کتنا زمین پر چڑھ آیا ہے اور ایک اندازے کے مطابق ٹھٹھہ اور بدین اضلاع کی لاکھوں ایکڑ زمین سمندر برد ہو چکی ہے اور وہاں سے کئی گائوں اور زرعی زمین سمندر کے پیٹ میں جانے کی وجہ سے کئی لوگ بے گھر ہو کر نقل مکانی کر چکے ہیں اور ساتھ لاکھوں ایکڑ زمین پر فصل نہ ہونے کی وجہ سے کتنے مزارع بیروزگار ہو کر صوبے کے مختلف شہروں میں بھیک مانگ رہے ہیں۔ سمندر میں پانی اس وقت چھوڑا جاتا ہے جب دریا میں بڑا سیلاب آتا ہے۔ جب ہندوستان دریائوں کا سیلابی پانی پاکستان کی طرف چھوڑ دیتا ہےتو ہندوستان کا سیلابی پانی اور اوپر سے دریائے سندھ میں آنے والا سیلابی پانی سندھ کی طرف روانہ کردیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں سمندر میں تو وافر مقدار میں پانی آ جاتا ہے مگر سارا سندھ سیلابوں کے حوالے ہوتا ہے اور کئی گائوں، شہر اور دیگر وسیع علاقہ اس سیلابی پانی کی نذر ہو جاتےہیں ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین