• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’زرداری....کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی‘‘ اس عنوان کے ساتھ گزشتہ ہفتے سابق صدر آصف علی زرداری کی شخصیت، اُن کا سیاسی کردار اور سیاسی تہذیب زیر بحث ہے۔
تو آغاز کے لئےمعروف صحافی مجیب الرحمٰن شامی کی دقیع رائے پیش کی جاتی ہے۔ 9؍مارچ 2010ء کو وہ اے پی این ایس کے صدر تھے، اسی حیثیت سے انہوں نے اے پی این ایس کے اجلاس منعقدہ ایوان صدر کے خطبۂ استقبالیہ میں کہا:۔
’’جناب صدر، آپ سے اتفاق کیا جائے یا اختلاف، آپ پر تنقید کی جائے یا آپ کی تحسین کی جائے، یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ آپ رات کے اندھیرے میں شب خون مار کر ایوان صدر پر قابض نہیں ہوئے۔ آپ دن کے اُجالے میں اور ڈنکے کی چوٹ یہاں پہنچے ہیں، اپنے آئینی حلقہ انتخاب کا بھرپور اعتماد حاصل کر کے آئے ہیں، اس ایک بات نے آپ کو وہ حیثیت عطا کر دی ہے جو شب زادوں کے حصے میں کسی طور نہیں آ سکتی، وہ آسمان کے تارے توڑ کر لانے کا دعویٰ کریں تو بھی جب شجرئہ نسب کا ذکر آئے گا تو انہیں منہ چھپانا پڑے گا، جس طرح سفید اور سیاہ ایک نہیں ہو سکتے اسی طرح منتخب اور غاصب کو ایک ساتھ کھڑا نہیں کیا جا سکتا، ان کا قد ایک پیمانے سے نہیں ناپا جا سکتا۔‘‘
’’یہ بات تاریخ میں درج ہو چکی ہے کہ آپ کے خلاف انتخاب میں حصہ لینے والوں نے انتخاب سے پہلے، انتخابی عمل کے دوران اور اس کے فوراً بعد آپ پر کوئی اعتراض داخل نہیں کیا، آپ کے مخالفین بھی آپ کو مبارکباد دیتے دیکھے گئے۔‘‘
’’ہم اس تاریخی حقیقت سے بھی اچھی طرح آگاہ ہیں کہ آپ کی رگوں میں صوفیاء و صلحاء کا خون دوڑ رہا ہے۔ آپ کے جد امجد جناب بلاول کی وسیع المشربی سے دنیا واقف ہے۔ انہوں نے روا داری اور محبت کے چراغ روشن کئے، ان کا نام زبان پر آتے ہی سندھ کی ایک اور مایۂ ناز شخصیت بلاول شہید کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ مفتیان شہر اور سولہویں صدی کے آئینی و قانونی ماہرین نے جذبہ جہاد کو عام کرنے کی پاداش میں انہیں کولہو میں پسوا دیا تھا۔ آج ان کا نام نامی آتے ہی گردنیں عقیدت سے جھک جاتی ہیں جبکہ مفتیان شہر بے نام و نشان ہو چکے ہیں۔‘‘
یہ ایک اور موقع تھا جب سابق صدر نے اپنی ذات اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ میڈیا کے رویہ کے بارے میں اپنی ذہنی اپروچ اور ریکارڈ کا اندراج کرایا۔ ان کا کہنا تھا:۔
’’جب نیوز پرنٹر پر وزارت اطلاعات کے سیکشن افسر کا قبضہ ہوا کرتا تھا، اس کی منظوری اور اجازت سے اخبارات چھپا کرتے تھے، ہم نے بے نظیر دور میں نیوز پرنٹ درآمد کو آزاد کیا، پھر اسی نیوز پرنٹ پر میرے خلاف اشتہارات چھپنے لگے، گویا قومی پریس کو دی جانے والی آزادی خود میرے خلاف گئی۔‘‘
’’جب ہم شہید بی بی کے قاتلوں کا علم ہونے کی بات کرتے ہیں، ہم دراصل ایک مائنڈ سیٹ کی بات کرتے ہیں جو کبھی ضیاء کبھی مشرف اور کبھی کسی اور شکل میں جمہوری عمل سے مزاحمت کرتا چلا جا رہا ہے۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کو ٹھکانے لگانے اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو قتل کرنے کے بعد ان کی قبروں سے بھی نبرد آزما ہے۔ ان سے جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے۔ جمہوریت دشمن اسی خوف کا شکار ہیں کہ اقتدار کے پہلے دور کی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک اور دور کی تکمیل سے ملک کے عوام پر ان اثرات کا کم کرنا ماضی سے کہیں بھی مشکل ہو جائے گا۔‘‘
اور جیسا کہ، محترمہ بے نظیربھٹو شہید کے ساتھ ازدواجی بندھن کی پہلی ساعت سے لے کر اب تک آصف علی زرداری کے مخالف بیسیوں دریائوں کا پانی وقت کے پلوں پر سے بہہ رہا ہے، بہے جا رہا ہے، ناگزیر ٹھہرتا ہے جو ہم آصف علی زرداری کے سلسلے میں ایک تجزیاتی یاد دہانی کا اعادہ کر لیں، یہ کہ آصف علی زرداری دراصل موقع پرست قوتوں کے لئے کسی بھی دوسری شخصیت سے زیادہ خطرناک تھے۔ 1993ء سے سنگین الزامات کے ساتھ ساتھ انہیں جسمانی اذیت اور قاتلانہ حملوں کے ذریعے دھمکانے کے عمل کا آغاز کر دیا گیا۔ 2006ء تک کوئی بھی حربہ انہیں زیر کرنے میں ناکام رہا۔ دل، کمر، معدے اور اعصابی تکلیفوں کے باوجود آہنی عزم کے حامل آصف علی زرداری 27دسمبر 2007(بی بی کا یوم شہادت) کے بعد تو ’’پاکستان‘‘ کھپے کا نعرہ لگا کر گویا پاکستان مخالفین کے لئے ناقابل برداشت ہی ہو گیا۔ چنانچہ وہ کسی آمرانہ عمل پر آمادہ نظر نہ آنے کے باوجود آمر قرار پاتا ہے، پارٹی کے انتظامی امور میں تمام جمہوری روایات اور مکالمے کی مکمل گنجائش اور آزادی کے بعد بھی من مانیوں کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے۔
شریف خاندان کے اثاثوں کے مقابل اس کے اندرونی و بیرونی اثاثوں کی کوئی حیثیت نہ ہونے کے باوجود میڈیا اور عدلیہ میں صرف اسی کے اثاثوں کے ذکر کا آسمان پر چھایا رہتا ہے۔ کوئی اس پہلو پر غور کرنے کو آمادہ نہیں کہ 1990 تا 2006ء تک کے دوران میں، تقریباً 17برس تک قیدی رہنے والا آصف علی زرداری مجرم کیسے قرار پاتا ہے ایک وہ لمحہ بالآخر منفی قوتوں کا مقدر تاریک کر گیا جب خود نواز شریف نے اعتراف کر لیا اور کہا ’’احتساب کا طریق کار غلط تھا، ہمیں اس حوالے سے اُکسایا گیا، جان بوجھ کر ہم سے بے نظیر اور اپوزیشن کے خلاف ایسے اقدامات کروائے گئے‘‘
مگر نظریاتی دیوانگی اور شکست خوردگی نے آصف علی زرداری کو ذوالفقار علی بھٹو، نصرت بھٹو اور بی بی شہید کی طرح اپنے خونی جبڑوں میں دبوچے رکھنے کی جنونیت ترک نہیں کی، عفریتوں کی آنکھیں اس کے تعاقب میں رہیں۔ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے اندر ’’ایک گینگ آف فور‘‘ دریافت کر لیا ہے، وہ آصف علی زرداری جس کے کردار کی تاریخی کھوج کے بعد بلا کسی ہچکچاہٹ، تحفظ اور گھبراہٹ کے کہا جا سکتا ہے۔ ’’پہاڑوں کی خموشی ان کی کمزوری نہیں ہوتی، چاہے اجالے پہریداروں کی حراست میں ہوں۔‘‘ یہ ’’گینگ آف فور‘‘ ان پر مشتمل ہے جنہوں نے ’’رہبر‘‘ کے ’’معتبر‘‘ نام سے آصف علی زرداری سے نجات کا منفی سیاسی کاروبار شروع کر رکھا ہے، اس تندہی سے جس کی انتہاء کا سر قلم کرنے کی خاطر چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کو اعلان کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا:۔
’’پارٹی کے حوالے سے میرے والد سابق صدر آصف علی زرداری اور میں نے ساتھ مل کر کام کیا ہے، یہ سلسلہ جاری ہے اور اس میں ہی ہماری کامیابی ہے۔ آصف علی زرداری نہ صرف پارٹی بلکہ پورے ملک کا ایک عظیم اثاثہ ہیں۔ تنظیمی تبدیلی ایک مستقل مشق رہی ہے۔ پارٹی کے اندر ایسے تمام فیصلے باہمی مشورے سے کئے جائیں گے تاکہ نئے اور پرانے چہرے مل کر اس ملک سے غربت، جہالت، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کام کریں۔‘‘
یہ گینگ آف فور یا گینگ آف فائیو، سکس، سیون وغیرہ وغیرہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کا اندرونی طور پر ، مخلص کم اور نقب زن زیادہ، وہ گروہ ہے جسے ’’مائنس ون‘‘ کے موجد ہمیشہ میدان میں اتارتے رہے ہیں، وہ میڈیا پرسنز تک اپنا اظہاریہ یوں رکھتے ہیں:۔ ’’زرداری کا وقت گزر چکا، اس کے نام پر پنجاب میں اب ووٹ کوئی نہیں دیتا۔ ایک ہی امید بلاول ہے۔ میڈیا میں تمہارے جیسے لوگوں کو مدد کرنی چاہئے۔ بہت ضروری ہے…آپ اس پر غور کریں جو میں کہہ رہا ہوں کہ بلاول کی مدد کریں اور پنجاب میں پیپلز پارٹی کو ختم ہونے سے بچائیں!‘‘
چنانچہ چیئرمین بلاول بھٹو نے اپنے اعلان سے ’’مائنس زرداری‘‘ منصوبے کا سر قلم کیا ہے مگر زرداری کہانی ابھی کہاں ختم ہوئی، البتہ کالم کی گنجائش ختم ہو گئی!
تازہ ترین