• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وجودیت پسندی اتنی پرانی روایت ہے، جتنی خود انسانیت کی تاریخ ۔ فرد کو اپنی ذات کے اثبات کی تلاش اس وقت بھی ہوا کر تی تھی جب وہ اوہام و اصنام کی پرستش کیا کرتا تھا اور شاید یہ اثبات ذات کی تلاش ہی ہے جس نے انسانیت کو ارتقا، حرکت ، تغیر اور تبدیلی سے آشنا کرایا ۔ اگر فرد اپنی ذات پر اعتماد کی بحالی کے لیے کوشاں نہ ہو تا اور اگر وہ ہاتھ پیر بند کئے بیٹھتا تو شاید انسانیت صدیوں کا سفر کبھی بھی طے نہ کر سکتی ۔ یہ وجو دیت پسندی ہی ہے جس نے فرد کو ہر انتشار و افتراق اور ہر بحران سے نکلنے کی راہ سمجھائی اور فرد کو خود آگہی اور خود شناسی کے حوالے سے ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی ترغیب دی ۔ نتیجتاًفرد حالات سے نبرد آزما ہو تا رہا ۔ اس کی ذات کے عرفان اور اس کے من کی تابناکی نے اس کے مستقبل کو اجالوں میں لا کھڑا کیا۔زیر نظر سطورڈاکٹر علی کمیل قزلباش اورڈاکٹر محمد طاہر بوستان کی تحریر’’ مجید امجد کی شاعری میں فلسفہ وجودیت ‘‘ سے لی گئی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ۔ مجید امجد کی نظم ’’ہزاروں راستے ہیں‘‘اس ضمن میں خوب صورت مثال ہے ۔نظم کے دو اشعار ملاحظہ ہوں ۔

ہزاروں راستے ہیں منزلیں ہیں

سمندر اور صحرا بھی ہیں حائل

مگر رہبر ستارے کی شعاعیں

ہیں ہر رہرو کے سینے کی متاعیں

یہاں ’’راستے ‘‘ اور ’’منزلیں ‘‘ اپنی نوعیت کے لحاظ سے وہ ’’امکانات ‘‘ ہیں جن کے حصول کے لیے فرد کوشاں ہو ا کر تا ہے ۔’’ سمندر اور صحرا ‘‘ وہ مشکلات اور رکاوٹیں ہیں جو راستوں میں حائل ہیں اور ’’رہبر ستارے کی شعاعیں ‘‘ فرد کے جذب دروں اور خود آگہی کی شعاعیں ہیں ،جو اس کے سفر میں اس کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں ۔ جبھی تو وہ کہتا ہے ۔

زیست کی صہبا کی رو تھمتی نہیں تھمتی نہیں

ٹوٹتے رہتے ہیں نشے ، پھوٹتے رہتے ہیں جام‘‘

حضرت امام مالک ؒ فرماتے ہیں ”انسان کی دو پیدائشیں ہیں، ایک وہ جس دن پیدا ہوا اور دوسری پیدائش جس دن وہ ڈھونڈ لیتا ہے کہ میں کیوں پیدا ہوا“۔اسی خاطر حضرت علامہ اقبال ؒ نے تعلیم دی ”اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی“

اب جب کوئی سراغ زندگی پالیتا ہے،تو اُس کے متعلق ساڑھے تین سو سال قبل لازوال خوشحال خان خٹک نے کہا ہے کہ ایسے لوگ دانا کے رتبے پر فائز ہوجاتے ہیں،وہ دانا جو اپنے لئے ہی نہیں ،پورے معاشرے کیلئے مشعل راہ ہوتا ہے۔آپ تو جانتے ہیں کہ خوشحال خان نہ صرف خود شناس تھے بلکہ مردم شناس بھی۔ حضرت اقبال نے کیا خوب کہاہے۔

خوش سرود آں شاعر افغان شناس

ہر چہ بنید باز گوید بے ہراس

آں حکیم ملتِ افغانیاں

آں طبیب ِملت ِافغانیاں

راز قومے دید و بے باکانہ گفت

حرف ِحق باشو خئی رندانہ گفت

آپ نے ملاحظہ فرمایا،حضرت اقبال خوشحال بابا کو نہ صرف افغان شناس قرار دیتے ہیں،بلکہ اُن کی حق گوئی و بے باکی طرف اشارہ کرتےہیں،جو ایک راہ بر کیلئے ناگزیر ہے ۔بات کو واضح کرنے کیلئے ہم یہاں خوشحال بابا کی نظم’’دانا اور نادان‘‘(د خو شحال بابا کلیات ازپروفیسر ڈاکٹر یار محمد مغموم خٹک)کے چند اشعار کا مفہوم سامنے رکھتے ہوئے خلاصہ پیش کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ بابا کہتے ہیں

یہ داناہی ہیں، جو مُردوں کو قبر سے اُٹھا لیتے ہیں اور جو نابینا ئوں کو بینائی بخش دیتے ہیں، یعنی دانا خواب دیدہ قوم کو بیدار کرلیتے ہیں اور جن کو راہ سجھائی نہیں دیتی، اُنہیں منزل کا پتہ دے دیتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف جو طبیب ہیں، تو وہ تو عمر بھر کی مساعی سے بھی ایک نادان کو دانا نہیں بناسکے۔ آگے فرماتے ہیں، کہ نادان اپنے لئے بھی مصیبت ہے اور معاشرے کیلئے بھی وبال جاں ۔

مشاہیر علم ودانش کی یہ تمام کاوشیں ہم جیسے طالبان ِعلم کیلئے اس خاطر تھیں کہ ہم شعور و آگہی کی قدر وقیمت جان لیں۔اب ہماری جستجو کا کیا عالم ہے؟بہر کیف اس کا جواب اپنے آپ ہی عیاں ہے۔آگہی کا تعلق خدادا د صلا حیتوںکے علاوہ ریاضت اور راہبر سے بھی ہے۔ ہماری خدا داد صلاحیتوں کا تو یہ عالم ہے کہ ہمیں ملک بھی خداداد ملا!راہبر کبھی تھے،جنہیں ہم نے کھودیا۔جو مارکیٹ میں دستیاب ہیں ،نہ جانے وہ راہبر ہیں کہ راہ زن۔ لیکن اس کے باوصف اس طالب علم کا خیال یہ ہے کہ اس وقت قوم شعور وآگہی کی ارتقائی سفر پر تیزی سے رواں ہوچکی ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ اس میں درکار عوامل کا عمل دخل ہو یا نہ ہوں، لیکن معروضی حالات اور سیاسی نشیب و فراز نے بہت کچھ سکھا دیا ہے۔

حکومتوں کی کارکردگی، حکومتوں کی تبدیلی کا عمل، ہر بااختیار کی زور آوری، سیاستدانوں کی قلابازیوں، مذہبی عناصر کے دو چہروں وغیرہ وغیرہ نے جیسے عوام پر سب کچھ آشکار کردیا ہو۔ پاکستان کی کم و بیش نصف سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، اور وہ سیاسی حالات کے اُتار چڑھائو کا نہ صرف مشاہدہ کررہے ہیں، بلکہ وہ ایک عنصر کے طور ان میں شامل ہوچکے ہیں۔ یوں ایسا لگتا ہے کہ معروضی حالات خواہ دگرگوں کیوں نہ ہوں، لیکن جیسا کہ کہتے ہیں کہ ہر تخریب میں ایک تعمیر بھی پوشیدہ ہوتی ہے، سو، بالخصوص کیمرے کی آنکھ اور سوشل میڈیا پر اظہار رائے کی آزادی سے وہ جاننے لگے ہیں کہ کون اُن کے ساتھ کیا کررہاہے؟؟ اس حوالے سےصرف ایک مثال دیتے ہیں۔ وہ یہ کہ لہو لہو طلبہ کے تن و من اور لہو رنگ پشاور یونیورسٹی اس نئے پاکستان کا تازہ عکس ہے جس کا خواب نوجوانوں ہی نے دیکھا تھا۔ اگر حکومت مفت تعلیم تو کجا، فیس میں اس قدر اضافہ نہ کرتی کہ جو ان کی دسترس سے باہر ہوتا تو بھی قابل قبول ہوتا لیکن مذکورہ اقدام سے تو لگتا ہے آپ طلبہ پر تعلیم کے دروازے بند کرنا چاہتے ہیں۔ بنابریں کیونکر یہ تسلیم کرلیا جائےکہ آپ تعلیمی انقلاب کے کسی دعوے میں صادق ہیں۔ نہتے طلبہ کو جس طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اس سے کیا مثالی پولیس کی اصل حقیقت سامنے نہیں آجاتی؟ اور مقدس پیشے سے وابستہ وہ اُستاد جو حکمرانوں کے اشاروں پر رقصاں ہوں، کیا کسی بھی طور اُن کی تعیناتی مبنی بر میرٹ قرار دی جاسکتی ہے؟ پشاور یونیورسٹی کے دلخراش واقعہ نے کتنی مائوں کو رُلایا ہوگا! کیا اس کے احساس کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت ہے! سب کچھ واضح ہے، ملک میں بہت کچھ واضح ہونے والاہے! ملکی منظر نامہ ہمیں آگاہ اور ہماری راہ نمائی کررہا ہے۔ حضرت اقبال بھی فرما رہے ہیں۔

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی

تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین