• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 73ویں اجلاس میں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پاکستان اور جموں وکشمیر کامقدمہ پُرزور انداز میں پیش کرکے 22کروڑ پاکستانیوں کے دل جیت لیے ہیں۔شاہ محمود قریشی کاخطاب بہت اچھا،جامع اورمدلل تھا۔ایک طویل عرصے کے بعداقوام متحدہ میں جموں وکشمیرکے حساس اور اہم ایشو پر بھرپور آوازاٹھائی گئی۔بلاشبہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارتی ریاستی دہشت گردی اور جارحیت کو بے نقاب کرکے پاکستان کا مقدمہ اچھا لڑاہے۔پاکستانی وزیر خارجہ نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں قومی زبان اردو میں تقریرکی جس کو پوری قوم سراہتی ہے۔انہوں نے جموں وکشمیر کا مقدمہ بھی بہترین انداز میں اقوام متحدہ میں پیش کیا،حکومت کا یہ اقدام قابل تحسین ہے۔پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کاقومی ایشوز پر ایک پیج پر ہونا خوش آئند امر ہے۔ ہندوستان بطور ریاست دہشت گردوں کوسپورٹ کررہا ہے۔بلوچستان میں کلبھوشن نیٹ ورک کارنگے ہاتھوں پکڑے جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت پاکستان میں انتشار ،افراتفری اور دہشت گردی پھیلارہاہے۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے تانے بانے بھارت سے ہی جاملتے ہیں۔ سمجھوتہ ایکسپریس میں جلائے جانے والے پاکستانیوں اور مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں کے قتل عام کی ذمہ دار بھارتی حکومت ہے۔گجرات فسادات میں نریندرمودی کااصل چہرہ پہلے ہی دنیاکے سامنے آچکا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارتی وزیرخارجہ سشماسوراج کی جانب سے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی قابل مذمت اورعالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہے۔بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنی آٹھ لاکھ فوج کی ناکامی چھپانے کے لیے پاکستان کو نشانہ بنارہا ہے۔ حکومت بھارت پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کرنے کے لیے دباؤ بڑھائے۔مسئلہ کشمیر 3کروڑ کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق ہی حل ہوناچاہئے۔ پاکستان بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات کاخواہاں ہے مگر تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی اس کے لیے لازمی ہے کہ بھارت بھی اپنا جارحانہ رویہ اور دہشت گردانہ کارروائیوں کوختم کرکے خطے کی تعمیر وترقی کے لیے اپناکردار اداکرے۔بھارت کی سرجیکل اسٹرائیک کی دھمکیاں خطے کی تباہی کاباعث بن سکتی ہیں۔ عالمی برادری اور اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر کی اہمیت کو سمجھے اورمسئلہ کشمیر کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے اقدامات کرکیے جائیں۔پاکستان کے22کروڑ عوام کشمیریوں کی اخلاقی،سفارتی اورسیاسی حمایت جاری رکھیں گے۔حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور بھارت پاک چائنہ اقتصادی راہداری کے منصوبے کوناکام بناناچاہتے ہیں۔سی پیک خطے کی خوشحالی اورپاکستان کی ترقی کاعظیم منصوبہ ہے۔ بھارت سمیت دیگر قوتیں اس منصوبے کوناکام بنانے کے لیے دن رات سازشوں میں مصروف ہیں۔پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کوکسی بھی صورت متنازع نہیں بننے دینا چاہئے، حکمران اس حوالے سے پائے جانے والے خدشات کو دور کریں۔سی پیک منصوبے میں سعودی عرب کی شمولیت کے حوالے سے بھی پارلیمنٹ کو مکمل طور پر اعتماد میں لیاجانا چاہئے۔قومی ایشو زپر پارلیمنٹ کونظرانداز کرنے کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہئے۔ آئی ایم ایف سے ڈکٹیشن لے کر ملک چلانے کاتجربہ پہلے بھی ناکام رہاہے اور آئندہ بھی ناکام ہی ہوگا۔آئی ایم ایف کے اشاروں پر مرتب کی جانے والی معاشی پالیسیوں سے ملک وقوم کو مہنگائی کے تحفے ہی ملتے رہے ہیں۔قومی خودمختاری اور خودداری کے لیے ضروری ہے کہ بیرونی امداد لینے کا سلسلہ بند اور کشکول کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے توڑاجائے۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بے بہا وسائل سے نوازا ہے، المیہ یہ ہے کہ ان وسائل سے غیر ملکی کمپنیاں فائدہ اٹھاکر ہر سال اربوں ڈالراپنے ممالک میں بھجوارہی ہیں۔وقت کاناگزیر تقاضاہے کہ حکومت پاکستان اس حوالے سے اپنی پالیسی کو واضح کرے اور ملکی وسائل سے خود استفادہ کرنے کے لیے حکمت عملی بنائی جائے۔ بجلی کے نرخوں میں اضافے اور اووربلنگ نے عوام کی زندگی اجیرن بنادی ہے۔بجلی کی کم نرخ میں پیداوار کے لیے ضروری ہے کہ آبی منصوبوں،کوئلے اور ہواسے بجلی حاصل کرنے والے پروجیکٹس پر وسیع پیمانے پر کام کیا جائے۔ نئے آبی ذخائرتعمیر کرنے کے لیے سنجیدگی سے اقدامات ہونے چاہئیں۔بھاشاڈیم،مہمنداور کالاباغ ڈیم جیسے منصوبے ملکی بقاکے ضامن ہیں۔ماضی کے حکمرانوں نے اس حوالے سے مجرمانہ غفلت کامظاہرہ کیا۔پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہونے کی وجہ سے ہر سال اربوں ڈالر کاپانی سمندر بردہورہاہے۔بھارت کو اس گھناؤنی سازش سے بازرکھنے کے لیے عالمی دباؤبڑھایاجائے۔ اس وقت ملک میں پانی کی شدیدقلت ہے جس کی وجہ سے پانی کاشارٹ فال 38فیصد ہوگیاہے۔اکتوبر ،نومبر اور دسمبر میں بارشیں نہ ہوئیں تو یہ شارٹ فال مزید بڑھ جائے گا جس سے خشک سالی کاخطرہ ہے۔فصلوں کومطلوب مقدار میں پانی کادستیاب نہ ہوناتباہی کا سبب بن سکتاہے۔موجودہ حکومت کو اس حوالے سے بروقت اقدامات کرنے ہوں گے۔

تحریک انصاف کی نئی حکومت کو تقریباََدوماہ ہونے والے ہیں۔اس وقت کئی ملکی مسائل منہ کھولے کھڑے ہیں۔ملک میں کرپشن کی انتہاہوچکی ہے۔نت نئے اسکینڈلز آئے روزمنظر عام پر آرہے ہیں۔بیوروکریسی سے لے کر نچلی سطح تک کرپشن مکمل طورپر سرایت کرچکی ہے۔ نیب سمیت کرپشن ختم کرنے والے دیگر ادارے بھی اس سے پاک نہیں رہے۔بدعنوانی قانونی ضوابط پر عمل درآمد کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہے۔ملک وقوم کی پائیدار ترقی وخوشحالی کے لیے کرپشن کے کلچر کاہمیشہ کے لیے خاتمہ کرنا ہوگا۔ محب وطن قیادت کافقدان ہمیں پستی کی جانب لے کر جارہاہے۔امیر پہلے سے زیادہ امیر ترجبکہ غریب دن بدن غریب ترہوتاجارہاہے۔وژن کافقدان اور ناقص پالیسیوں کے باعث ملکی معیشت انتہائی دگرگوں ہوچکی ہے۔لوٹ مار کرنے والوں نے ملکی معیشت کوناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ملک سے اگر کرپشن کاخاتمہ کردیا جائے تو غریب عوام کا معیار زندگی بلند ہوسکتاہے۔ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال میں بہتری آسکتی ہے مگر اس کے لیے ازحدضروری ہے کہ حکومت دکھاوے کی بجائے سنجیدگی سے اقدامات کرے۔وزیر خزانہ نے انتخابات سے قبل آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کا واشگاف الفاظ میں اعلان کیا تھا مگر آج ان کی جانب سے آئی ایم ایف کے پاس جانے کے اشارے تشویش ناک اور پریشان کن ہیں۔قطری سفارتخانے کی آڑ میں گاڑیاں منگوانے کا انکشاف بھی لمحہ فکریہ ہے۔

تازہ ترین