• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خبر ہے کہ ریت مافیا نے ریلوے پل کمزور کر دیا گرنے کا خدشہ۔ پولیس کی بھی ملی بھگت ہے، راوی ریلوے پل کے نیچے سے مسلسل ریت نکالی جا رہی ہے۔
ہمارے ہاں ”خوش قسمتی “ سے اپنا رانجھا راضی رکھنے کا فارمولا، مٹی پاؤ فارمولا ایک طویل عرصے سے رائج ہے، اور اب یہ ریت نکالو کا کام بھی شروع ہو گیا ہے، اگر قوم کی جڑوں میں سے مٹی نکالی جا سکتی ہے، تو راوی کا ریلوے پل بھلا کس شمار قطار میں ہے، خدا نہ کرے کہ کوئی ایسی خبر ملے کہ راوی کا پل ٹرین سمیت راوی میں تیر رہا ہے، یہ جو ایک طرف پلازے تعمیر ہو رہے ہیں تو ساتھ ہی دریاؤں میں سے ریت نکال کر انہیں گہرا کرنے کی بجائے تاکہ طغیانی کا خطرہ نہ رہے، دریا کے کناروں کو وسیع کیا جا رہا ہے تاکہ اگر کہیں کوئی پل عمارت ہے تو ان تک بھی پہنچ جائے تاثیر مسیحائی کی، ہمارے ہاں اب حکومت کا قافیہ تو نہ رہا وہ ایک آزاد نظم بلکہ بے لگام ہجویہ قصیدے کی سی رہ گئی ہے، البتہ یہ نہایت خوش کن المیہ ہے کہ مافیاز کی ایجاد میں حکمرانوں نے جس طرح اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے اس کی مثال لانے کے لئے موجوں کو خود ہی جواب میں لانا پڑے گا، ریت کی یہ ریت نہیں کہ پلوں کو کمزور کرے، عمارتوں کو نقصان پہنچائے بلکہ ریت تو ریت ہے، مٹی نہیں کہ اکھاڑی بھی نہ جا سکے، ذمہ داران اور صوبے کے حکمران اگر اس پر راضی ہیں تو ہمیں کیوں اعتراض ہو، قدرے تصرف کے ساتھ عرض ہے
پل بنا چاہ بنا فیض کے اسباب بنا
جس طرح ممکن ہو اپنے لئے کوئی راہ بنا
####
میر خلیل الرحمن سوسائٹی کے ایک سیمینار میں کہا گیا ہے: احتیاطی تدابیر کے ذریعے امراض سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ امراض دل میں اضافے کی بڑی وجہ ہائی بلڈ پریشر، تمباکو نوشی، غذا میں بے احتیاطی اور ماحولیاتی عوامل ہیں۔
جو ڈاکٹر ہوتا ہے، اس نے اپنے اپنے فیلڈ میں کچھ نہ کچھ تو کہنا ہوتا ہے، اور وہ کہتے ہیں، مگر لوگ کب سنتے اور عمل کرتے ہیں۔ ہاں اس وقت ڈاکٹر کے پاؤں تھام لیتے ہیں جب دل ایک جھٹکا دیتا ہے، اور یہی پہلی دستک ہوتی ہے، اگر اس پر کان دھر لئے جائیں تو واقعی بقول طبیبانِ ملت بہت سے امراض قلب سے نجات مل سکتی ہے۔ مگر جب ”ریشماں“ جوان ہو جائے تو پھر اس کو کون روکے، مرض بھی جوان ہوتی ریشماں پر ہی گیا ہے، اس لئے اس کا بروقت نکاح کر دینا چاہئے، امراضِ قلب اور امراض عشق میں بس اتنا فرق ہے کہ ایک سبب بنتا ہے دوسرا اس کا نتیجہ، سادہ، بے پرواہ، دھوکے سے پاک اور دولت کی ہوس سے احتراز کی زندگی بسر کرنے والے امراض قلب سے بچے رہتے ہیں، جو بندہ ہر مصیبت پر کہے مجھے ٹنڈے لاٹ کی پرواہ نہیں اس کا دل تین تال میں بجتا ہے اور جو یہ عقیدہ رکھے کہ ”سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے،“ تو اس کا دل بے تال ہو جاتا ہے، بلکہ نینی تال ہو جاتا ہے سنا ہے وہاں کے لوگ بہت حساس ہوتے ہیں، اسلئے دل کے شفاخانے خوب چلتے ہیں
تیرے لئے تو کوئی یہاں سوچتا نہیں
تو نے رشید سارے زمانے کی سوچ لی
یا پھر یہ حالت ہو جاتی ہے دل کے ہر مرض کے مریض کی
دل کو ہجوم نکہتِ مہ سے لہو کئے
راتوں کا پچھلا پہر ہے اور ہم ہیں دوستو
####
میاں شہباز شریف کہتے ہیں: زرداری ٹولہ لوٹا ہوا پیسہ واپس کرے ورنہ قوم ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہو گی ووٹرز نے ۔ ن لیگ کو کامیاب کرایا تو ڈیڑھ دو سال میں بجلی بحران ختم کر دیں گے۔
اگر غور سے دیکھیں تو لفظ لوٹا کا روٹ ٹولہ ہے، کہ دونوں میں حروف ایک جیسے ہیں، بس سیاستدانوں کی طرح کچھ آگے پیچھے ہو گئے ہیں، البتہ پھول سی قوم اور اس کے گل نو جیسے بچے تو اجڑ اجڑ جائیں گے، اور چمن دہائی دے گا، یہ دہشت گرد یہ ان کے آقا تو دیکھتے ہی دیکھتے رفو چکر ہو جائیں گے، کیوں کہ وہ تو ”شینل“ کی مہک جیسے ہی بے وفا ہیں اور ان کے بارے پروین شاکر کا یہ شعر پھول کانٹا ہے
وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے، پھول کدھر جائے گا
اور یہ دشت گردی کی چڑھتی جوانی شاید حکمراں اس پر بھی عاشق ہو گئے ہیں، یوں دوڑی چلی آتی ہے اور ہم بے چارے غم کے مارے عوام
ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا
کیا خبر تھی کہ رگِ جاں میں اتر جائے گا
میاں صاحب جو خادم پنجاب اور وزیر اعلیٰ پنجاب بھی ہیں، وہ سیدھی انگلی سے گھی نکالنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں، جبکہ لوٹنے والا ٹولہ اور لوٹ کا مال واپس کرانے کی آواز لگانے والے ایک ہی ٹولہ ہیں، اور ہمارے ہاں تو حمام بھی ایک ہے جو چیز دیکھو ایک ہے، تو ایسے توحید پرستوں کو فکر کس بات کی، قیامت آئے گی حساب کتاب ہو گا، سارے پیسے واپس آ جائیں گے، لوڈ شیڈنگ بھی نہیں ہو گی، البتہ ووٹنگ نہیں ہو گی، کیونکہ کرسی پر آ مر حقیقی کی قہر آفرین آواز گونج رہی ہو گی، میاں صاحب آپ بھی مٹی پاؤ، قیامت کا انتظار کرو، اور قیامت کے روز کے لئے بھی شاید اسی ٹولے کے کسی فرد نے یہ محفوظ راستہ نکالا ہے کہ کسی نے کہا کہ تم نے میری بکری چوری کی ہے، اور مانتے بھی نہیں، بروز قیامت بکری خود میں میں کرتی بولے گی کہ اسے تم نے ہی چوری کیا تھا۔ بکری چور نے کہا جب بکری حاضر کی جائے گی تو میں اسے کان سے پکڑ کر تمہارے حوالے کر دوں گا۔
####
چیف جسٹس نے کہا ہے: غیر ملکیوں کے خلاف ملکی قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہئے، دہشت گردی کی حد ہو گئی۔
ایک زمانہ تھا کہ جب لوگ پُر سکون تھے، ماحول پُر امن تھا، چاروں موسموں کے تقاضے ”وج گج“ کے پورے کئے جاتے تھے، تب لوگ کہا کرتے تھے ”حد ہو گئی!“ گویا یہ ایک ایسا تکیہ کلام تھا جس پر سر رکھ کر نیند سی آ جاتی، مگر اب جب سپریم کورٹ نے بھی کہہ دیا ہے کہ دہشتگردی کی حد ہو گئی
اجل سے پوچھتا ہے ہر نَفَس جو باہر آتا ہے
اجازت ہو اگر تیری تو پھر سینے میں داخل ہوں
ہمارے ملک میں دوسرے ملکوں کے مہمان جم جم آئیں لیکن یہ نہیں کہ میزبان ہی بن جائیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ حکمران بن جائیں۔ ہماری عدلیہ کے فیصلوں کی حیثیت سے اوپر کسی کے قول فیصلے وغیرہ کی کوئی منزلت نہیں، یہ جتنے اچھے دوررس اور قومی مفاد میں ہوتے ہیں، اتنا ہی ان پر عملدرآمد نہ کرنے پر زور دیا جاتا ہے، حکمرانوں کو شکوہ ہے کہ انہیں حکمرانی نہیں کرنے دی جاتی، اس سے بڑھ کر حکمرانی کا موقع کیا دیا جائے کہ سپریم کورٹ کے بسیوں فیصلے آ چکے ہیں اور حکمران اپنی حکمرانی کے جوہر نہیں دکھاتے، کسی فیصلے پر عمل ہی نہیں ہونے دیتے، چرچل نے جب عدلیہ کے کام کرنے پر اطمینان ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا اب برطانیہ کو کوئی خطرہ نہیں تب وہاں حکومت عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد بھی کراتی ہو گی، یا عملدرآمد نہ کرانے کا سرے سے فیشن ہی نہیں ہوتا ہو گا۔ اس وقت وطن عزیز میں مختلف اقسام کے بے شمار غیر ملکی قیام پذیر ہیں، ان سب کے ساتھ ملکی قانون کے مطابق سلوک ہونا چاہئے۔ اب خدا کے لئے سپریم کورٹ کے اس بارے فیصلے پر عملدرآمد کرا دیا جائے ورنہ یہ دہشت گردی پورے ملک کو گرد گرد کر کے رکھ دے گی، اور پھر اس گرد میں کچھ ڈھونڈنا عبث ہو گا۔
####
تازہ ترین