• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لاہور کے ایک ہوٹل میں مختلف سیاسی جماعتوں کے عہدے دار اور کارکن جمع تھے۔ موضوع تھا پاکستان کی نصابی کتابوں میں مختلف مذہبی گروہوں کے بارے میں نفرت انگیز مواد۔ منتظمین کی طرف سے قابل اعتراض مواد کی نشاندہی کے بعد بحث کا آغاز ہوتے ہی صوبائی اسمبلی کی ایک خاتون رکن نے دھواں دھار تقریر جھاڑ دی جس میں اپنے عقائد کی حقانیت کا اعلان تھا، پاکستان میں مذہبی رواداری کے بارے میں کچھ ایسے دلائل تھے جو محکمہٴ اوقاف کے سرکاری پمفلٹوں میں شائع کیے جاتے ہیں۔ زیادہ زور بیان بھارت کے بارے میں تھا جس کا زیر بحث موضوع سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ کھوکھلی قوم پرستی اور مذہبی انداز بیان میں سیاسی کارکنوں کے لیے خاص کشش ہے کہ اس میں حقائق اور دلائل کا جھنجھٹ نہیں رہتا۔ خطابت کے منہ زور گھوڑے پر بیٹھ کر دائیں بائیں دھول اڑاتے نکل جائیں۔ اس مجلس میں بھی یہی ہوا۔ ایک کے بعد ایک سیاسی کارکن نے پاکیٴ داماں کی طولانی حکایت سنائی۔ نتیجہ یہ کہ جس نشست میں ملک کو درپیش عدم رواداری اور منافرت کے موضوع پر سنجیدہ مکالمہ ہونا چاہیے تھا وہ خلط مبحث کا شکار ہو گئی۔ مجھے تو ایسا محسوس ہوا کہ ہمارے نصاب تعلیم میں منافرانہ مواد کی موجودگی کا سوال ایک طرف، اس نصاب کی افادیت کا اندازہ تو اس پہلو سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ ہمارا تعلیم یافتہ اور سیاسی شعور کا دعویٰ رکھنے والا طبقہ کسی موضوع پر ڈھنگ سے بات کرنے کی اہلیت بھی کھو بیٹھا ہے۔
یہ ایک طرفہ تماشا ہے کہ میاں نواز شریف تو اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ فروری 1999ء کے اعلان لاہور پر فخر کرتے ہیں اور ایسا کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اعلان لاہور ہی کے بعد منتخب قیادت کو بے دست و پا کرنے کے لیے کارگل کی مہم جوئی کی گئی تھی لیکن مسلم لیگ کے بہت سے حامی بدلتی ہوئی عالمی اور علاقائی حقیقتوں کا ادراک نہیں رکھتے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے 1986ء میں جلاوطنی سے واپسی کے بعد ملکی سیاست کو نئے زمانے سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی تھی۔ پیپلز پارٹی کو گزشتہ ربع صدی میں اس کی سزا بھی بھگتنا پڑی مگر پیپلز پارٹی کے جیالے آج بھی ہزار سال تک لڑائی کے دنوں میں زندہ ہیں۔ تحریک انصاف کے کارکنوں سے شکایت کا محل نہیں کہ ان میں سے بیشتر بساطِ سیاست پہ نووارد ہیں۔ پاکستان ایک قائم بالذات حقیقت ہے اور اپنے وجود کے لیے بھارت کے حوالے کا محتاج نہیں۔ تاریخی ارتقا اور جغرافیائی حقائق کا جبر اپنی جگہ مگر بھارت کے تناظر ہی میں سوچناہے تو اس کے لیے بھی ایسے زاویے موجود ہیں جن پر توجہ دینے سے ہماری بہتری کی راہیں آسان ہو سکتی ہیں۔
معیشت کے میدان میں خبر یہ ہے کہ نومبر کے اختتام پر بھارت کے زر مبادلہ کے ذخائر 294.98 ارب ڈالر کو جاپہنچے۔ اسی ہفتے پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر 13.5ارب ڈالر تھے جو گزشتہ تین برس میں نچلی ترین سطح تھی۔ 1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد دونوں ممالک میں زر مبادلہ کے ذخائر 20 ارب ڈالر سے کم تھے یعنی قابل ذکر نہیں تھے۔ 2001ء میں بھارت کے زر مبادلہ کے ذخائر 48 ارب ڈالر، 2003ء میں 100ارب ڈالر اور 2007ء میں 275 ارب ڈالر کی حد عبور کر گئے۔ یاران تیز گام نے محمل کو جا لیا۔ بھارت کا جی ڈی پی 1.85کھرب ڈالر ہے اور ہمارا 212ارب ڈالر۔ وہاں ہر برس 26ارب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری ہو رہی ہے اور ہمارے ہاں ایک ارب کی حد پار کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ وہاں معیشت سالانہ آٹھ فی صد کی شرح سے ترقی کر رہی ہے اور ہم تین فی صد شرح نمو کے اسیر ہیں۔ آخر 1947ء میں ہمارے ساتھ آزادی حاصل کرنے والے اور 1990ء تک پھسڈی معیشت کے حامل بھارت کے ہاتھ ایسی کون سی جادو کی چھڑی آ گئی ہے۔ صاحب ہمارے ملک میں صرف گیارہ لاکھ بچے اعلیٰ تعلیم پا رہے ہیں اور بھارت میں یہ تعداد ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ ہے۔ تعلیم کے معیار کا قصہ الگ ہے، اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں۔ وہاں جمہوریت مستحکم ہے اور ہم ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر ٹھاٹھ سے انتخابات کے التوا کی افواہیں اڑاتے ہیں۔ برطانیہ نے اعلان کیا ہے کہ بھارت کی معاشی ترقی کے پیش نظر اسے بیرونی امداد کی ضرورت نہیں رہی۔ ہمارے ہاں سے ٹیکسٹائل کی صنعت بنگلادیش منتقل ہو رہی ہے۔ اگر پہلے سے موجود اقتصادی ڈھانچہ اعتماد کے بحران کا شکار ہو رہا ہے تو نئی سرمایہ کاری کیسے ہو گی؟ تجارت کے لیے بندرگاہ بنیادی اہمیت رکھتی ہے اور ہماری بندرگاہ کراچی میں امن و امان کی حالت نا گفتہ بہ ہے۔ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں کہ پچھلے پانچ برس میں ہمارے حلقہ احباب میں سے کتنے تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد ملک چھوڑ کر چلے گئے۔
اعداد و شمار کے اس گورکھ دھندے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم حوصلہ چھوڑ بیٹھیں۔ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں لیکن ہمیں چاہیے کہ بے معنی نعرے بازی کی بجائے اپنے سیاسی مکالمے کا رخ معیشت کی طرف موڑیں۔ اس پر غور فرمائیں کہ ہماری معاشی ترجیحات کیا ہونی چاہئیں۔ ہمیں زراعت میں فی ایکڑ پیداوار کیسے بڑھانی ہے؟ اپنی صنعتوں کو کیسے ترقی دینا ہے۔ ہم برآمدات کیسے بڑھا سکتے ہیں۔ نقل و حمل کی سہولتوں کو کیسے بہتر بنایا جائے؟ ہم اپنے جغرافیائی محل وقوع سے کیسے تجارتی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں پچاس لاکھ کم عمر بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ ان پڑھ بچہ تو غربت میں اضافے اور معاشرتی انتشار کی ضمانت دیتا ہے۔ شہریوں کے معیار زندگی میں پائیدار ترقی کا بہترین ذریعہ تعلیم کا فروغ ہے اور تعلیم کا معیار ایسا ہونا چاہیے کہ ہماری آئندہ نسلیں مسابقت اور مقابلے کی دوڑ میں شریک ہو سکیں۔
بچوں میں قومی غیرت بیدار کرنے کے لیے ہمارے بزرگوں کا پسندیدہ جملہ یہ تھا کہ انگریز تو دکانداروں کی قوم ہیں۔ اس سوچ نے حمیت کے نام پر کئی نسلوں کو معیشت سے برگشتہ کیا۔ لطف یہ ہے کہ اس سوچ کی آبیاری کرنے والے طبقات نے اپنی ذاتی معیشت سے کبھی غفلت نہیں برتی۔ کوئی حرج نہیں کہ ہم اب اپنے بچوں کو بتائیں کہ انگریز ہی نہیں، دبئی سے لے کر سنگاپور تک سبھی قومیں دکانداری کی راہ پر ہیں۔ کما کر کھانے میں کوئی خرابی نہیں۔ دنیا میں احترام پانے کے لیے اپنی معیشت کی فکر کرنا پڑتی ہے۔
تازہ ترین