• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم عمران خان نے منصب سنبھالنے کے بعد گزشتہ روز اپنے پہلے دورہ ٔ بلوچستان میں بیش بہا قدرتی وسائل سے مالامال مگر ملکی تاریخ کے بیشتر ادوار میں بالعموم بری طرح نظر انداز کیے جانے والے اس صوبے کی حق تلفیوں کے ازالے کے پختہ عزم کا اظہار کرکے بلوچستان کے حوالے سے ایک خوش آئند آغاز کیا ہے۔ایک روزہ پروگرام میں اعلیٰ سطحی حکومتی اجلاس کی صدارت،سدرن کمان ہیڈ کوارٹر کے دورے ، خطابات اور ملاقاتوں میں انہوں نے واضح کیا کہ وفاق بلوچستان کی تعمیر وترقی میں ہر ممکن تعاون کرے گا۔ انہوں نے بتایا کہ بلوچستان کے جائز حقوق کیلئے وفاقی حکومت سی پیک منصوبے کا بھی از سرنو جائزہ لے رہی ہے تاکہ تمام حوالوں سے بلوچستان کے تمام تحفظات دور کیے جاسکیں۔ بلاشبہ گزشتہ حکومت کو سی پیک منصوبہ شروع کرنے کا اعزاز حاصل ہے تاہم اس کے دور میں بلوچستان سمیت ملک کے کئی علاقوں کو اپنا جائز حق نہ ملنے کا شکوہ رہا ، لہٰذا موجودہ وفاقی حکومت اگرلوگوں کی جائز شکایات دور کرسکے تو یہ منصوبہ پوری قوم کی ترقی و خوشحالی ہی کا نہیں ،یکجہتی و اتحاد کا مثالی ذریعہ بھی بنے گا جبکہ بے انصافیاں روا رکھے جانے کی صورت میں نتائج بالکل مختلف ہوں گے۔ دورہ بلوچستان میں وزیر اعظم نے بالکل درست طور پر اس حقیقت کی نشان دہی بھی کی کہ صوبے کی خوشحالی کیلئے سب سے زیادہ توجہ انسانی وسائل کی ترقی پر دینا ضروری ہے۔ عمران خان نے صوبائی وزیر اعلیٰ جام کما ل کو دیہی سطح تک یونین کونسلیں بناکر بااختیار مقامی حکومتوں کے اس نظام کو متعارف کرانے کا مشورہ دیا جو تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا میں رائج کیا ہے اور جسے اپنانے کیلئے اب پنجاب میں بھی پیش رفت ہورہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ عام انتخابات میں ان کی جماعت کو خیبر پختونخوا میں دوتہائی اکثریت اسی نظام کی بدولت ملی ہے۔بلاشبہ منتخب و بااختیار مقامی حکومتیں ہی پوری ترقی یافتہ دنیا میں شہری سہولتوں کی فراہمی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں جبکہ ہمارے ملک میں سیاسی جماعتیں بلدیاتی نظام کو مستحکم کرنے سے بالعموم گریز کرتی رہی ہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں صوبائی حکومتوں اور ارکان اسمبلی کے مفادات متاثر ہوتے ہیں۔لیکن روز مرہ عوامی مسائل کے حل کا واحد کارگر طریقہ یہی ہے کہ منتخب جمہوری نظام کو گلی محلوں کی سطح تک وسعت دی جائے۔خیبر پختون خو اکے نظام سے پہلے مشرف دور میں بھی پورے ملک میں ضلعی حکومتوں کا نظام نتیجہ خیز رہا ہے لہٰذا دوسرے صوبوں میں بااختیار مقامی حکومتوں کے نظام کو اپنانے سے گریز کا کوئی معقول جواز نہیں ۔اس لئے توقع ہے کہ بلوچستان کی حکومت عمران خان کی جانب سے اس حوالے سے دیے گئے مشورے پر عمل درآمد میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرے گی۔ وزیر اعظم نے صراحت کی کہ بلوچستان سونا، تانبا، کوئلہ اور کرومائیڈ کے بڑے ذخائر رکھتا ہے جسے دریافت کرنا تاحال باقی ہے جبکہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ بھی صوبے کیلئے ترقی کے بہترین مواقع کا ضامن ہے۔ دریائے سندھ کی کچھی کنال سے پانی پہنچاکر آٹھ لاکھ ایکڑ کا رقبہ سیراب کرنے کی خوش خبری بھی وزیر اعظم نے اہل بلوچستان کو سنائی اور صوبے میں کینسر اسپتال بنانے میں تعاون کا وعدہ بھی کیا۔ انسداد کرپشن کے محکمے کو مزید فعال کرکے وزیر اعظم نے کرپشن کی روک تھام کو یقینی بنانے کی تاکید بھی کی کیونکہ اس کے بغیر کوئی ترقی ممکن نہیں۔سدرن کمان کے دورے کے موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ بھی موجود تھے جنہوں نے بلوچستان کو پاکستان کا قتصادی مستقبل قرار دیتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ نئی حکومت اور فوج مل کر صوبے اور ملک کی ترقی اور استحکام کیلئے کام کریں گے۔ بلاشبہ موجودہ وزیر اعظم کی یہ بڑی خوش نصیبی ہے کہ آج حکومت ، فوج اور عدلیہ سمیت تمام ریاستی اداروں میں مثالی ہم آہنگی ہے، اپنے اہداف اور منصوبوں کی تکمیل کے حوالے سے حکومت کی راہ میں ویسی کوئی رکاوٹ حائل نہیں جیسی ہماری قومی تاریخ کے اکثر ادوار میں دیکھی گئی ہیں،اس لیے یہ توقع بے جا نہیں کہ موجودہ حکومت ملک کی ترقی اور خوشحالی کے عزائم کی تکمیل میں کامیاب ہوگی اور پاکستان اقوام عالم میں ممتاز اور باوقار مقام حاصل کرسکے گا۔

تازہ ترین