• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2012میں ’’آشیانہ اقبال‘‘ کا آغاز ہوا، مقصد غریبوں کو سستے گھر دینا، منصوبہ 5سال میں مکمل ہونا تھا، پروجیکٹ پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی (پی ایل ڈی سی) کے حوالے ہوا، پھر لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کو دیا گیا، تب احد چیمہ ڈی جی تھے، 2013میں ٹھیکہ چوہدری لطیف اینڈ سنز کو دیا گیا، اچانک ٹھیکہ منسوخ کر کے ’کاسا کمپنی‘ کو دے دیا گیا، کاسا 3کمپنیوں کا کنسورشیم، ایک بسم اللہ انجینئرنگ بھی، جس کے پیچھے مبینہ طور پر پیراگون اور پیراگون کے پیچھے مبینہ طور پر سعد رفیق، ٹھیکہ منسوخی پر چوہدری لطیف اینڈ سنز نے قانونی چارہ جوئی کی، 8ماہ کی قانونی جنگ ہوئی، حکومت پنجاب کو 55لاکھ جرمانہ بھرنا پڑا، آخر کار 2015میں پبلک پارٹنر شپ کے تحت ’کاسا‘ سے معاہدہ ہو گیا، معاہدے کے تحت ایک ہزار کنال کمپنی کو ڈویلپ کرنا تھی، معاوضے کے طور پر دو ہزار کنال زمین کمپنی کو ملنا تھی، منصوبہ 3سال میں مکمل ہونا تھا، 60ہزار فارم غریبوں نے خرید لئے، کروڑوں روپے جمع ہوئے، کمپنی نے اپنے پلاٹ تو فروخت کرنا شروع کر دیئے لیکن ہزار کنال ڈویلپ نہ کی، عوام نے شور مچایا، نیب سمیت مختلف اداروں میں درخواستیں دی گئیں، نیب حرکت میں آیا، پنجاب حکومت نے ’کاسا ‘سے بھی معاہدہ منسوخ کردیا اور یہ لمبی بحث کہ پی ایل ڈی سی کے ہوتے ہوئے منصوبہ ایل ڈی اے کو کیوں دیا گیا، چوہدری لطیف اینڈ سنز کمپنی اگر کرپٹ تو اسے ٹھیکہ کیوں دیا گیا، اسے ٹھیکہ مل گیا تو واپس کیوں لیا گیا، پنجاب حکومت کو جرمانہ کیوں دینا پڑا، اگر مقصد کسی اپنے کو فائدہ پہنچانا نہیں، نیتیں صاف تو ہر مرحلے پر شہباز شریف قوانین، ضابطوں، اداروں کو بائی پاس کیوں کرتے رہے اور کیا واقعی اس سارے چکر میں سرکار کو 14ارب کا نقصان ہوا، یہ سب سامنے آنے والا، لہٰذا اس بحث میں پڑے بنا، بات آگے بڑھاتے ہیں۔ 2017میں نیب نے تحقیقات شروع کیں، احد چیمہ گرفتار ہوئے، فروری 2018میں چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لیا، فواد حسن فواد کو حراست میں لیا گیا، خادم اعلیٰ 4 بار پیش ہوئے، نیب ذرائع کے مطابق خادم اعلیٰ کی ہر پیشی سوال گندم، جواب چنا ہوتی، انہیں 21سوالوں پر مشتمل سوالنامہ بھی دیا گیا، سنا جا رہا وہ صرف 6سوالوں کے جواب ہی دے پائے، شہباز شریف، فواد حسن فواد، احد چیمہ کے بیانات لئے گئے، ابھی 5اکتوبر کو گرفتاری سے پچھلی پیشی پر احتساب عدالت کے حکم پر شہباز شریف، فواد حسن فواد کو آمنے سامنے بٹھایا گیا، فواد صاحب نے شہباز شریف کو مخاطب کر تے ہوئے کہا ’’میاں صاحب مجھے تو جو کچھ آپ نے کہا، میں نے وہ کیا‘‘ میاں صاحب جواباً یہی کہہ پائے ’’اچھا۔۔۔ جی ہاں‘‘ یہاں یہ ذہنوں میں رہے کہ فواد حسن فواد وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے سیکریٹری امپلی مینٹیشن تھے، اس بحث میں نہیں پڑتے کہ شہباز شریف کا طرزِحکومت کیوں بادشاہانہ، قانون، ضابطے، اصول کی کیوں پروا نہ ہوئی، اگر شہباز شریف غیر قانونی احکام دیتے رہے تو فواد حسن فواد سے احد چیمہ تک افسر شاہی کی اکثریت کیوں غیر قانونی احکامات من و عن تسلیم کرتی رہی، کیا بیورو کریسی اسٹیٹ کی وفادار یا ہاؤس آف شریفس کی اور کیا نیب کا یہ دعویٰ درست کہ احد چیمہ کے اکاؤنٹ میں پیراگون سے 3کروڑ آئے اور فواد حسن فواد کے اکاؤنٹ میں کامران کیانی کی کمپنی سے 13کروڑ آئے۔

جو کچھ بتایا گیا بلاشبہ اب یہ سب نیب نے ثابت کرنا، لیکن حیرانی کی بات یہ کہ 56کمپنیوں میں اربوں کی بے ضابطگیاں اور اس صاف پانی منصوبے کو چھوڑ کر کہ جس میں شہباز شریف خود کہہ چکے ’’میں 4ارب لگا کر ایک بوند صاف پانی نہیں پہنچا سکا‘‘ اور جس میں داماد اعلیٰ تک اشتہاری، آشیانہ کیس میں گرفتاری، کہیں قوم سے ’’ایون فیلڈ‘‘ والا ہاتھ تو نہیں ہونے والا، خیر یہ تو دو چار ہفتوں کی بات، پتا چل ہی جائے گا، لیکن شہباز شریف گرفتار کیا ہوئے سیاست، صحافت نے کمال کر دیا، کہا جا رہا جیسے نواز شریف، مریم نواز کی گرفتاری کا مقصد پی ٹی آئی کو عام انتخابات میں جتوانا تھا، ویسے ہی شہباز شریف کی گرفتاری کا مطلب عمران خان کو ضمنی انتخابات میں کامیابی دلوانا، یہ چھوڑ دیں کہ پاناما انتخابات سے سوا دو سال پہلے آیا اور آشیانہ کیس کا آغاز تب ہو اجب شہباز شریف وزیراعلیٰ تھے، لیکن کیا انتخابات ملک سے بھی اہم، پھر کل تک تو بتایا جارہا تھا کہ نواز، مریم کی گرفتاری نے تو مسلم لیگ میں جان ڈال دی، آج شہباز شریف کی گرفتاری سے مسلم لیگ کی جان کیسے نکل گئی، کہا جا رہا کہ شہباز شریف کی گرفتاری حکومتی نااہلیوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش، حالانکہ یہ کیس تو خادم اعلیٰ کی مبینہ نااہلیوں، نالائقیوں کا نتیجہ، کہا جارہا اب نواز شریف اور مریم نواز دما دم مست قلندر کر دیں گے، قومی اسمبلی میں یہ فرما کر ’’جناب اسپیکر یہ ہیں وہ ذرائع جن سے فلیٹس خریدے‘‘ پھر احتساب میں یہ فرمانے والے ’’فلیٹس کہاں سے آئے، مینوں کی پتا‘‘ دھرنوں کے پیچھے کوئی نہیں تھا فرما کر پھر یہ فرمانے والے کہ دھرنوں کے پیچھے کوئی تھا اور ڈان لیکس غلط ہے کہہ کر پھر ڈان لیکس کو صحیح ماننے والے اپنی دولتوں کے حساب دیتے نواز شریف اور ’’میری بیرون ملک کیا اندرون ملک کوئی جائیداد نہیں‘‘ جیسا ’سچ‘ بول چکیں وہ مریم نواز جن کے لئے جسٹس شیخ عظمت سعید کو کہنا پڑا ’’آج تو میر ادل ہی ٹوٹ گیا‘‘، ان سے دما دم مست قلندر، انقلاب کی توقعات، ابھی جی بھرا نہیں۔

کہا جارہا کہ یہ احتساب نہیں، انتقام، کمال کا ملک، یہ فیشن ہی ٹھہرا کہ کسی بڑے سے کچھ پوچھ لو، نہ صرف جمہوریت، پارلیمنٹ، سویلین بالادستی خطرے میں پڑے بلکہ پل بھر میں سب کچھ سیاسی انتقام ہو جائے، کہا جا رہا کہ کیسا ملک جہاں بڑی پارٹی کے سربراہ اور اپوزیشن لیڈر کو گرفتار کر لیا گیا، مطلب بندہ بڑی پارٹی کا سربراہ اور اپوزیشن لیڈر ہو تو سات قتل بھی معاف، مزے کی بات سنئے، وہ پی پی رہنما جو کل تک کہا کرتے احتساب صرف ہمارا، سب کو صرف سندھ ہی نظر آئے، پنجاب اور پنجابی تو لاڈلے، آج وہ بھی باتیں کر رہے، قصہ مختصر سب متفق کہ ملک، قوم، احتساب سب جائے بھاڑ میں، تمام بڑے مقدس، وہ جو کچھ کریں، ان کا حق، ویسے تو ہمارے قانون، جوڈیشل سسٹم، معاشرے کے بس کی بات نہیں رہی کہ کسی بااختیار کی لوٹ مار، کرپشن، منی لانڈرنگ کو منطقی انجام تک پہنچائے، ویسے تو کسی طاقتور سے چار آنے نکلوانا مگرمچھ کے منہ سے نوالہ چھیننے کے مترادف لیکن پھر بھی دیکھنا یہ کہ نواز شریف کے تینوں کیسوں کا کیا بنتا ہے، آشیانہ اسکینڈل، 56کمپنیوں سے کیا نکلتا ہے اور دیکھنا یہ کہ زرداری صاحب کے کیسوں کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور نیب عدالتوں میں پڑے میگا کرپشن اسکینڈلز کا کیا ہوتا ہے، یہ تو پتا نہیں کہ کیا ہو گا لیکن یہ ضرور معلوم کہ اگر آج کچھ نہ ہوا تو پھر کبھی کچھ نہیں ہو پائے گا، یہاں یہ بات بھی اہم کہ 2013میں پی پی کرپشن پر انتخابات لڑنے والی مسلم لیگ کیا احتساب سے بچنے کیلئے پی پی سے ہاتھ ملا لے گی اور کیا زرداری صاحب خود کو بچانے کیلئے اس شہباز شریف کا ہاتھ تھام لیں گے، جو کل تک انکا پیٹ چیر رہے تھے، انہیں سڑکوں پہ گھسیٹ رہے تھے۔

تازہ ترین