• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر ، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی گرفتاری ایک بڑا سیاسی واقعہ ہے ، جو وزیر اعظم عمران خان کی حکومت میں اب تک رونما ہوا ہے ۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ یہ پہلی گرفتاری ہے ۔ اس طرح کی مزید گرفتاریاں بھی ہوں گی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت بظاہر یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ وہ اپنے اس ایجنڈے پر عمل پیرا ہو چکی ہے ، جو تحریک انصاف کے لوگوں کے نزدیک کرپشن کے خاتمے اوراحتساب کا ایجنڈا ہے اور جسے گزشتہ 22 سال سے تحریک انصاف نے اپنا سیاسی نعرہ بنا رکھا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ایجنڈا مکمل ہو سکے گا ؟

اس سوال کا جواب حاصل کرنے کیلئے چند حقائق ذہن نشیں کرنا ضروری ہیں تاکہ بحث معروضیت سے جڑی رہے ۔ اسی کالم میں بار بار یہ حقائق بیان کر چکا ہوں کہ سیاست دانوں کے احتساب کا ایجنڈا بہت پرانا ہے اور یہ ایجنڈا ان قوتوں کا تھا جن کا مقصد سیاسی اور جمہوری قوتوں کو کمزور یا ختم کرنا تھا ۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی اس ایجنڈے پر کام شروع ہو چکا تھا ۔

’’ ایبڈو ‘‘ اور ’’ پرو ڈا ‘‘ جیسے احتساب کے سیاہ قوانین بنائے گئے ، جو صرف منتخب نمائندوں کیلئے مخصوص تھے ۔ موجودہ نیب آرڈی نینس اگرچہ منتخب نمائندوں کیلئے مخصوص نہیں لیکن یہ پرانے قوانین کا تسلسل ہے ۔ منتخب نمائندوں کیلئے آئین کے آرٹیکل ۔ 62اور 63 ہیں ، جو ایبڈو اور پروڈا سے بھی زیادہ خطرناک ہیں ۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ احتساب کا عمل عمران خان کی حکومت سے پہلے شروع ہو چکا تھا ۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اسکے نتیجے میں وزیر اعظم ہاؤس سے جیل پہنچ گئے ۔ مگر عمران خان کی حکومت احتساب کے اس عمل کا کریڈٹ خود لے رہی ہے تو کوئی کیا کر سکتا ہے کیونکہ یہ تحریک انصاف کا بنیادی سیاسی نعرہ ہے۔ اب تحریک انصاف کی حکومت کو یہ ثابت کرنا ہے کہ احتساب سے متعلق اسکا ایجنڈا ماضی کے ایجنڈے کا تسلسل نہیں ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے مزید گرفتاریوں کا جو اشارہ کیا ہے ، اس کا مطلب لوگ یہ لے رہے ہیں کہ اگلی گرفتاری آصف علی زرداری یا کسی اور بڑے سیاسی رہنما کی ہو سکتی ہے ۔ یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کچھ سیاسی رہنماؤں کو نااہل بھی قرار دیا جا سکتا ہے ۔ یعنی سیاسی جماعتوں خصوصا ًبڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت کو سیاست سے باہر کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اس پر تحریک انصاف کے لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ پاکستان کے عوام کو ان روایتی سیاست دانوں سے نجات دلانے کا وعدہ پورا کر رہے ہیں ، جو باری باری حکومت میں آتے رہے ہیں ۔ ایسی کوششیں ماضی میں بھی بارہا ہو چکی ہیں ۔ سیاست دانوں نے ان کوششوں کے خلاف ماضی میں بھی مزاحمت کی اور اس مرتبہ بھی ایسا ہو گا ، جس کے نتیجے میں سیاسی پولرائزیشن میں اضافہ ہو گا ۔ یہ سیاسی پولرائزیشن کیا رخ اختیار کرتی ہے ؟ یہ دوسرا اہم سوال ہے کرپشن کے خلاف بلا امتیاز احتساب بہت ضروری ہے۔ اس کا نہ پہلے کوئی مخالف تھا اور نہ آج کوئی مخالف ہے ۔ ماضی میں احتساب کا یہ عمل کامیاب نہیں ہوا ۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ احتساب کرنے والوں کی نیت خراب تھی ۔ وہ صرف جمہوری اور سیاسی عمل کو روکنا چاہتے تھے ۔ اس کیلئے انہوں نے عدلیہ کو بھی استعمال کیا اور آج عدلیہ سے تعلق رکھنے والی محترم شخصیات یہ تسلیم کرتی ہیں کہ ماضی میں عدلیہ سے بعض غلط فیصلے ہوئے ۔ اس وقت احتساب کرنیوالوں نے احتساب کے اداروں اور تحقیقاتی اداروں کو بھی غلط استعمال کیا ۔ آج تک یہ ادارے مضبوط نہیں ہو سکے۔ ایسی قانون سازی کی گئی کہ ان اداروں کو بے پناہ اختیارات حاصل ہو گئے لیکن ان میں انویسٹی گیشن اور پراسیکیوشن کے ایسے نظام نہ بن سکے ، جن کے ذریعہ غیر جانبدارانہ اور بلاامتیاز احتساب کا عمل نتیجہ خیز ہو سکے ۔ صرف سیاست دانوں کا میڈیا ٹرائل ہوا اور کچھ ثابت ہوئے بغیر انہیں جیلوں میں طویل وقت گزارنا پڑا ۔ ماضی میں احتساب کا عمل تاریخ میں صرف ’’ سیاسی انتقام ‘‘ ہی قرار پایا ہے ۔ احتساب کا موثر نظام نہ ہونے کی وجہ سے سیاست دانوں کے خلاف مقدمات اور ریفرنسز میں کئی قانونی سقم ہوتے ہیں اور شواہد کمزور ہوتے ہیں ۔ سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے خلاف نیب کی عدالت کے فیصلے کی اعلیٰ عدالتوں سے توثیق حاصل کرنا مشکل نظر آ رہا ہے ۔ ڈاکٹر عاصم حسین ، شرجیل انعام میمن اور دیگر سیاسی شخصیات کے خلاف مقدمات میں بھی احتساب اور تحقیقاتی اداروں کی کارکردگی غیر تسلی بخش ہے ۔

اس پس منظر کے تناظر میں وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو بہت احتیاط سے کام لینا ہو گا تاکہ جس احتساب کے ایجنڈے کو وہ اپنا ایجنڈا قرار دے رہے ہیں ، وہ ماضی کا تسلسل اور سیاسی انتقام نظر نہ آئے اور ماضی والی قوتیں تحریک انصاف کی حکومت کے کندھوں پر بندوق چلاتی ہوئی نظر نہ آئیں ۔ اگر احتساب کا طریقہ درست نہ رہا اور احتساب کا عمل نتیجہ خیز نہ ہوا تو یہ ایجنڈا مکمل نہیں ہو گا ۔ اس ایجنڈے کی تکمیل کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ احتساب صرف سیاست دانوں تک محدود نہ ہو ۔

اب آتے ہیں دوسرے سوال کی طرف کہ سیاسی پولرائزیشن کیا رخ اختیار کرے گی ۔ اس وقت تیسری دنیا کے ملکوں میں سیاست دانوں کا احتساب ہو رہا ہے اور ہر جگہ حالات تقریبا ایک جیسے ہیں ۔ گزشتہ تین عشروں میں سیاستدانوں کی جو کھیپ پیدا ہوئی ، اس کے کندھوں پر کرپشن کے الزامات کا بوجھ ہے۔ ان سے پہلے کے سیاست دان اس بوجھ سے آزاد تھے ۔ سیاست دانوں کا کرپشن میںملوث ہونا اور پھر ان کا احتساب کرنا ایک بین الاقوامی عمل ( Phenomenon ) محسوس ہوتا ہے ، جو کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہو سکتا ہے ۔ ممالک میں سیاسی پولرائزیشن سے انتشار اور تباہی پھیلی ہے۔ افریقا ، لاطینی امریکہ اور ایشیا کے بعض ممالک خصوصا عرب ممالک میں انتشار سب کے سامنے ہے ۔ بعض جگہوں پر پیدا ہونے والے سیاسی خلاء کو انتہا پسند قوتوں نے پر کیا ۔ مجھےمستقبل میںزبردست سیاسی پولرائزیشن نظر آ رہی ہے۔ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیاں بھی اس پر اثر اندازہو سکتی ہیں ۔ احتساب کے عمل کو سیاسی رنگ دینے والوں کی اس بات میں وزن ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی رہائش گاہ بنی گالا کی غیر قانونی تعمیر کے کیس میں انہیں رعایت کیوں مل رہی ہے ۔ بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ احتساب کا عمل برا نہیں ہے۔ طریقہ درست نہ ہوا اور احتساب نتیجہ خیز نہ بن سکا تو جو بھی حالات ہونگے ، ان کا ذمہ دار تحریک انصاف کی حکومت کو قرار دیا جائیگا ۔

تازہ ترین