• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی اسمبلی کی گیارہ اور صوبائی اسمبلی کی پچیس نشستوں پر اس ماہ ہونے والے ضمنی انتخابات سے قبل قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ نون کے صدر میاں شہباز شریف کی گرفتاری سے مزید حدت پیدا ہوسکتی ہے۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ اس سے انتخابات کے نتائج پر کتنا اثر پڑے گا لیکن اگر حکمران جماعت تحریک انصاف اپنے ابتدائی سو دنوں کے اندر پچیس جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں جیتی گئی نشستوں میں سے چند برقرار رکھنے میں ناکا م رہی تواسے ان کی مقبولیت کے گراف کو ڈبونے کی حیثیت سے دیکھا جائے گا۔ لہٰذا یہ اب حکومت اور حزب اختلاف دونوں کیلئے ’اب یا کبھی نہیں‘ جیسی صورتحال ہے۔ ضمنی انتخاب کی تاریخ تحریک انصاف کے حق میں رہی ہے کیونکہ حکمران جماعت بمشکل ہی یہ انتخابات ہاری ہے لیکن اس مرتبہ یہ ایک بمقابلہ دو ہوگا جیسے کہ پی ٹی آئی بمقابلہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی۔ اگر پی ٹی آئی جیت جاتی ہے تو وہ یقیناً اپنا ’انسداد بدعنوانی‘ کارڈ کھیلے گی لیکن اگر یہ جولائی میں جیتی گئیں دو یا تین نشستیں ہار جاتی ہے تو یہ ان کے لئے پریشان کن حالت ہوگی۔ ایک چیز جو ان کے خلاف جا سکتی ہے وہ ان کی جانب سے حال ہی میں گیس اور سی این جی کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ ہوگا۔ دوسرا عنصر خصوصاً لاہور میں ان کا اندرونی اختلاف ہوسکتا ہے۔ پی ٹی آئی ، مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی دونوں کے خلاف اپنا بیانیہ بیچنے کا ارداہ رکھتی ہے مگر اس کے حالیہ ٹکٹ کی تقسیم کے کچھ فیصلے اس کے خلاف جاسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر عمران خان لاہور میں متوقع قریبی مقابلے میں خواجہ سعد رفیق کے خلاف ہمایوں اختر کی فتح چاہتے ہیں۔ پی ٹی آئی یقیناً ان نشستوں کی اکثریت جیتنا چاہے گی جو خصوصاً عمران خان کی جانب سے میانوالی کی روایتی نشست رکھنے کے بعد خالی ہوگئی تھیں۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی پنجاب میں چند صوبائی اسمبلی کی نشستوں کا کھونا بھی نہیں سہہ سکتی کیونکہ اس کی حکومت بہت زیادہ اطمینان بخش حالت میں نہیں جیسا کہ چوہدری سرور کی سینیٹ کی نشست پر حال ہی میں ہونے والے انتخابات سے عکاسی ہوتی ہے جنہوں نے پنجاب کے گورنر کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا۔ نواز شریف اور مریم نواز نے بظاہر بیگم کلثوم نواز کے انتقال اور نیب عدالت میں حاضری کیلئے خود کو اپنی رہائش گاہ میں محدود کرلینے کی وجہ سے اپنی ضمانت پر رہائی کے بعد سے کسی بھی عوامی جلسے یا کنونشن سے خطاب نہیں کیا۔ اکتوبر کی بارہ تاریخ کو لاہور میں جماعت کے عوامی جلسے میں ان کی موجودگی کے حوالے سے قیاس آرائیاں ہیں یا کم از کم ان دونوں میں سے کوئی ایک جلسے میں موجود ہوگا۔ نواز یا مریم خطاب کریں گے اس سے ایک نئی امید ملی ہے ، بصورت دیگر مسلم لیگ نون کے حوصلے پست ہوں گے۔ شہباز شریف کی گرفتاری اور نواز اور مریم کی خاموشی سےمسلم لیگ نون کے مواقع کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے کیونکہ پی ٹی آئی اپنا بیانیہ ’تمام بدعنوان‘ جیل جائیں گے کو مضبوطی سے بیچ رہی ہے۔ یہ ضمنی انتخابات مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے حالیہ تجدید تعلقات کیلئے بھی آزمائش ہوں گے۔ نون لیگ جنوبی پنجاب اور کراچی میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کی حمایت کر رہی ہے جبکہ پیپلز پارٹی دیگر ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ نون کے امیدواروں کی حمایت کرے گی اور دونوں جماعتوں کے قائدین مشترکا اجلاسوں سے خطاب کرنا چاہتے ہیں۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے شہباز شریف کو گرفتار کرنے کے طریقے کی مذمت کی اور قومی اسمبلی کے ریکوئزیشن سیشن کی بھی حمایت کی۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ اس مرحلے پر آیا یہ تعلقات قائم رہیں گے اور 2006 کا چارٹر آف ڈیموکریسی کی تجدید ہوگی یا نہیں لیکن ضمنی انتخابات ملکر لڑنا یقیناً آگے بڑھنے کا ایک طریقہ ہے۔ مسلم لیگ نون پچھلے سال ہی سے ’خاموشی توڑنے‘ کا انتظار کر رہی تھی جب سابق وزیر اعظم نواز شریف کو نا اہل قرار دیا گیا اور بعد میں جب انہیں مجرم قرار دیا گیا مگر سابق صدر آصف علی زرداری نے مسلم لیگ کے رہنماؤں سے ملنے سے انکار کردیا تھا اور ناراضگی کا اظہار کیا تھا کہ ڈاکٹر عاصم جیسے ان کے دوستوں کے ساتھ انہوں نے کیا کیا۔

تازہ ترین