• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے کالم میں یہود و نصاریٰ کی سازشوں اور اس سلسلے میں سورۃ المائدہ میں بیان کردہ حکم الٰہی آپ کی خدمت میں پیش کیا تھا وہیں سے کچھ آگے بڑھتے ہیں۔ یہودی بادشاہ اور اس کے مکّار وزیر کی کہانی جو مولانا رومؒ نے بیان کی ہے وہ بیان کرتا ہوں۔

.....ایسی ہی فضول باتوں میں پھنسا کر فرائض سے غافل کرکے یہ مکّار وزیر کچھ اس طرح جہالت پھیلاتا تھا کہ ظاہر میں جیسے سب کو کہے کہ چست ہوجائو اور فرائض پورے کرو اور اثر ان باتوں کا ایسا ہوتا تھا کہ اپنی جانوں کو سست کرلو یہ گویا ایسی بات ہے کہ اگرچہ چاندی کا ظاہر سفید ہوتا ہے اور نیا سا نظر آتا ہے لیکن ہاتھ اور کپڑے اس سے سیاہ ہوجاتے ہیں یا اگرچہ آگ اپنے شراروں سے سرخ رو نظر آتی ہے لیکن تم اس کے کاموں کو دیکھو کہ کیسا چیزوں کو سیاہ کردیتی ہے یا برق اگرچہ دیکھنے میں نور نظر آتی ہے لیکن اس کی خاصیت یہ ہے کہ آنکھوں کی بینائی بھی لے جاتی ہے۔

اب جو لوگ اس وزیر کے گرد جمع ہوجاتے ان میں سے کوئی صاحب ذوق اور واقف عالم نہ ہوتا تو اس وزیر کا قول اس کے لئے ایسا ہوجاتا جیسے گلے کا طوق اس طرح سے بادشاہ سے جدا ہونے کے بعد چھ ماہ تک وہ لوگوں کو خراب کرتا رہا اور حضرت عیسیٰ ؑکے تابعین کو تباہ کرتا رہا ۔ اپنے دل اور دین کو کلی طور پر ان لوگوں نے اس کے سپرد کردیا اس شخص کے احکامات ’’ہاں اور ناں‘‘ پر خلق خدا جان دیتی رہی۔

بادشاہ اور وزیر میں نامہ و پیام جاری تھا جس سے بادشاہ کو اطمینان تھا۔ آخر کار بادشاہ نے ٹھانی کہ اپنے مقصد کو پانے کے لئے ان نصرانیوں کی خاک ہوا میں اڑا دے۔ بادشاہ نے یہ کرنے سے پہلے وزیر کو لکھا کہ اے میرے مقبول بارگاہ اب وقت آگیا ہے کہ میرے دل کا بوجھ ہلکا کر۔ اب دیدہ و دل کو تیرے انتظام کا انتظار ہے۔ اگر فرصت ہو تو اس فکر سے آزاد کردے اس وزیر مکار نے لکھا کہ اے بادشاہ اس کام میں تھوڑی دیر ہے تاکہ میں دین عیسیٰ کے پیروکاروں میں فتنہ ڈال دوں۔

قوم عیسیٰ میں جب یہ کھینچ تان چل رہی تھی اس وقت اس کے بارہ امیر حکمراں تھے ہر فریق اپنے امیر کی اطاعت کرتا تھا اور امیر خود لالچ میں خادم بنے ہوئے تھے وجہ یہ تھی کہ اس قوم کے یہ امیر سب کے سب اس وزیر بدنشان کے غلام ہوگئے تھے۔ ان میں سے ہر ایک کا اعتماد اس کی بات پر تھا اور ہر ایک اس کی چالوں کی پیروی کررہا تھا۔ حال یہ تھا کہ اگر وہ کہتا کہ جان دے دو تو اس کے آگے ہر وقت ہر گھڑی ہر ایک امیر جان دینے کو تیار تھا۔ اس طرح اس یہودی نے سب کو خراب کردیا تھا اور ان کے درمیان اپنے مکر و حیلہ سے فتنہ ڈال دیا تھا۔ فریبی وزیر کے متضاد دینی احکامات اس وزیر نے ہر امیر کے نام طویل خط میںلکھے اور ہر ایک خط میں جدا مسلک بیان کیا تھا جس کی پیروی کریں ، اس کے یہ حکم نامے ایک دوسرے سے جدا تھے اور ان میں ایک دوسرے سے پائوں تک اختلاف تھا (مگر اپنی جگہ صحیح معلوم ہوتے تھے)

(1) ایک کو لکھا تھا کہ بھوکا رہنا اور ریاضت کرنا توبہ کا رکن ہے اور رجوع الی اللہ کی شرط ہے۔ (2) دوسرے کو لکھا کہ ریاضت بیکار ہے اس راہ حق میں مخلصی تو سوائے سخاوت کے مل ہی نہیں سکتی۔ (3) ایک میں لکھا کہ تمہاری بھوک اور سخاوت شرک ہے تمہاری طرف سے معبود کی جانب سوائے توکل کے کہ وہی تسلیم تمام ہے باقی سب کچھ خواہ غم ہو یا راحت مکر دائمی ہے، دغا ہے۔(4) ایک میں لکھا کہ خدمت اور کام کرنا لازمی ہے ورنہ توکل کی بات کرنا ایک کھلی تہمت ہے۔ (5) ایک میںلکھا کہ امر و نہی یعنی اچھی بات کی ترغیب اور برائی سے روکنا بھی زمانہ کے لئے نہیں ہے بلکہ اپنی عاجزی کے لئے ہے تاکہ ہم ان میں اپنا عجز دیکھیں اور قدرت حق کو سمجھیں۔ (6) ایک میں لکھا کہ اپنا عجز مت دیکھو ایسا عجز کرنا تو کفران نعمت ہے اپنی قدرت کو دیکھو کہ یہ قدرت اسی کی عطا کردہ ہے اپنی قدرت کو اس کی نعمت سمجھو کہ اسی سے ہے۔(7) ایک میں لکھا کہ دو سے اور دوئی سے گزر جا۔ ہر شے جو وحدت کے علاوہ دل میں سمائی ہے، بت ہے۔ (8) ایک میں لکھا کہ اس شمع عقل و فکر کو مت بجھا کہ یہ طریقہ ٔ نظر سب کے لئے ایک شمع کی طرح آئی ہے اور اگر تو نظر اور خیال سے گزر جائے گا تو گویا تو نے آدھی رات ہونے پر ہی شمع وصال بجھا دی۔ (9) ایک میں لکھا کہ بجھا دے اس عقل کی شمع کو تاکہ ایک کے بدلے میں لاکھ ملیں۔کیونکہ شمع عقل بجھانے سے روح بڑھتی ہے اور تیرا محبوب یہ ثابت قدمی دیکھ کر خود تیرا مجنوں ہو جاتا ہے۔(10) ایک میں لکھا کہ جو کچھ حق نے دیا ہے وہ ایجاد حق تجھ پر شیریں ہے۔ یہ سب کچھ تیرے لئے آسانی کی ہے تاکہ تو اسے پکڑ لے۔ تو کیوں فضول اپنے کو بے قراری میں ڈالتا ہے۔(11)ایک میں لکھا کہ اپنی خودی چھوڑ دے۔ یہ تیری طبع جس چیز کو پسند کرتی ہے وہ رد ہے اس سے منہ موڑ لے۔

اس مکار وزیر نے اس طرح مختلف راہیں آسان بیان کیں۔ اور ہر ایک نے اپنا مذہب جان کی طرح اپنا لیا۔ لیکن حق کی راہ میں اگر یہ آسانی ہوتی تو ہر یہودی اور کافر بھی پھر حق آگاہ ہوتا۔

(12) ایک کو لکھا کہ آسان یہی بات ہوتی ہے کہ دل کی حیات، روح کی غذا بن جائے ذوق فنا جس گھڑی فنا ہو تو بنجر زمین کی طرح کھیتی نہیں اگتی، سوائے پشیمانی کے اس کا کیا پھل ہے۔ سوائے خسارے کے اس عمل کا کیا نفع ہے۔ جس بات کا انجام یعنی عاقبت اچھی نہیں ہوتی، آسان نہیں ہوتی، اسی کا نام عاقبت کی تنگی ہے۔ تو تنگی اور فراخی کو جان لے۔ اور پھر دونوں کے جلوے دیکھ۔ (13) ایک کو لکھا کہ مرشد تلاش کر، عاقبت جو ہے وہ اپنے ذاتی کمالات سے نہیں ملتی۔ اگرچہ پچھلی امتوں نے عاقبت کی فہم کی تھی لیکن آخر کار ذلت میں پھنسے۔ عاقبت بینی اپنے ہاتھ کی بنائی کی طرح آسان نہیں ہوتی وگرنہ مذہبوں میں آخر اختلاف کیوں ہوتا۔(14)ایک کو لکھا کہ تم ہی مرشد ہو مجھے مرشدوں کی پہچان ہے اس لئے کہتا ہوں کہ تم مرشد ہو۔ تم مرد بنو۔ اور لوگوں کے لئے کھیل مت بنو تم اپنے راستے چلو اور سرگردان مت پھرو۔ (15)ایک کو کہا کہ سب کچھ جو دیکھتے ہو ایک ہی ہے اس کو جو کوئی دو دیکھتا ہے وہ احول ہے، بھینگا ہے۔(16) ایک کو کہا کہ سو کیسے ایک ہوسکتے ہیں۔ یہ خیال تو ایک پاگل کا ہی ہوسکتا ہے۔ ہر قول دوسرے کی ضد ہوتا ہے۔ بتائو کہ زہر اور شکر ایک جیسے کیسے ہوسکتے ہیں۔ دن اور رات کو دیکھو، کانٹے اور پھول کو دیکھو، پتھر اورموتی کو دیکھو، کہ معانی میں بھی اختلاف ہے اور صورت میں بھی۔ اگر زہر اورشکر کے چکر سے تو نہیں رب قدیر سے پنجہ آزمائی کیسی۔ قادر مطلق کے آگے سب افسوں ٹوٹ جاتا ہے۔ عقل و نفس کی مکاری باطل ہے فریب کے سو روپ ٹوٹے عاجز دل فضل کے حقدار ہوتے ہیں۔

(ذات سے بے بہرہ) بادشاہ کی طرح یہ وزیر بھی نادان اور غافل تھا۔ اس رب قدیر سے پنجہ آزمائی کررہا تھا۔ (حالانکہ) وہ سب مخلوق کا داتا، زندہ، اور قدرت والا ہے۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ وہ یگانہ و بصیر ہے۔ ایسے قادر خدا سے جو سینکڑوں عالم ایک دم میں عدم یعنی نابود سے ہست میں لاتا ہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین