• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد مختلف نوعیت کی سوچیں ہمارے گرد جال بننے لگتی ہیں۔ طرح طرح کے ڈر ہمیں گھیر لیتے ہیں۔ ہم اکثر سوچ میں ڈوبے رہتے ہیں اور ایک روز ہمیشہ کے لئے ڈوب جاتے ہیں۔ میرے ایک سینئر کلیگ، مجھ سے برسوں پہلے ریٹائر ہوئے تھے۔ وہ آج بھی خوش خرم دکھائی دیتے ہیں۔ میں نے ایک روز ان سے خوش و خرم رہنے کا راز پوچھا تھا۔ بولے:بھائی مصروف رہا کرو۔ جس قدر مصروف رہو گے، اس قدر منفی سوچ، وہم، ڈر، خوف سے بچتے رہوگے۔ سینئر کلیگ کی بات مجھے اچھی لگی۔ میں نہیں جانتا کہ ریٹائر ہونے کے بعد وہ کس طرح اپنے آپ کو مصروف رکھتے ہیں اور خوش خرم رہتے ہیں۔ میں نے ریٹائر ہونے سے پہلے تہیہ کرلیا کہ ریٹائر ہونے کے بعد میں اپنے سینئر کلیگ کی طرح خود کو بہت مصروف رکھوں گا۔ اس قدر مصروف رہوں گا کہ مجھے سر کھجانے کی فرصت نہیں ملے گی۔ میں نے سنا تھا کہ تحقیق کرنے والوں کو سر کھجانے کی فرصت نہیں ملتی۔ ریٹائر ہونے کے بعد خود کو مصروف رکھنے کے لئے میں نے تحقیق کرنے کی ٹھان لی۔ میں نے موضوعات کی فہرست بنالی جن پر میں تحقیق کروں گا۔ خود کو بے انتہا مصروف رکھوں گا اور خوش وخرم رہوں گا۔ اپنی پہلی تحقیق کے بارے میں آپ کو میں دلچسپ حقائق سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ میری پہلی تحقیق کا موضوع تھا کہ کنگال ہو جانے بعد لوگ کیا کرتے ہیں؟ کیسے زندگی گزارتے ہیں؟ بال بچوں کا پیٹ کیسے پالتے ہیں؟ کیا وہ چوری اور ہیرا پھیری کرتے ہیں؟ ڈاکہ ڈالتے ہیں؟ راہ گیروں سے پرس اور موبائل چھینتے ہیں؟ بھرے بازار میں لوگوں کی جیب کاٹتے ہیں؟ گزر بسر کیسے کرتے ہیں؟ سر کھجانا تو دور کی بات ہے۔ اس نوعیت کی تحقیق میں محقق کھانا پینا بھول جاتا ہے۔ سوکھتے سوکھتے ہڈیوں کا ڈھانچا بن جاتا ہے۔ بیوی بچوں کو بھول جاتا ہے۔ حتیٰ کہ محقق کو اپنا نام تک یاد نہیں رہتا۔

بڑی ہی جان لیوا تحقیق میں، میں نے ہاتھ ڈالا تھا۔ کسی سے یہ پوچھنا کہ کنگال ہوجانے کے بعد آپ کیا کرتے ہیں؟ جواب دینے کے بجائے کسی نے اینٹ، کسی نے پتھر اٹھالیا۔ کسی نے ڈنڈا اور کسی نے گنڈا سا اٹھالیا۔ کسی نے بندوق اور کسی نے توپ اٹھالی۔ ایک صاحب نے غصے میں آکر مجھ پر ایٹم بم گرانے کی دھمکی دے دی۔ مجھے سوچنا اچھا نہیں لگتا۔ مگر حالات مجھے سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ مجھ سے کہاں اور کس نوعیت کی غلطی سرزد ہوگئی تھی کہ سوال سننے کے بعد لوگ میرا تیاپانچا کرنے پر اتر آتے تھے؟ تب سوچ بچار کے بعد میں نے جانا کہ الفاظ کے انتخاب میں مجھ سے غلطی ہوگئی تھی۔ کسی کو کانا کہنے سے بہتر ہے کہ یہ کہا جائے کہ وہ صاحب دنیا کو ایک آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ ویسے یہ الگ بات ہے کہ دیدہ ور دو آنکھیں ہونے کے باوجود دنیا کو ایک آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ کسی کو گونگا کہنے سے بہتر ہے کہ آپ کہیں:فلاں صاحب بول نہیں سکتے۔ ایک لفظ اندھا بڑا تکلیف دہ لفظ ہے۔ اچھا ہے کہ ہم کہیں:فلاں صاحب دیکھ نہیں سکتے۔

اپنی غلطی کی تہہ تک پہنچنے کے بعد میں نے سوالنامے میں تبدیلی کی۔ لفظ کنگال کے بجائے میں نے لفظ تنگ دست لکھا۔ اور چھوٹی سی تمہید کا اضافہ کردیا:جیسے عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے، عین اسی طرح امیری اور غریبی بھی اللہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اگر آپ اچانک تنگ دست ہوجائیں، تو پھر آپ کیا کریں گے؟

تب بھی کچھ لوگوں کو پوچھنا کہ اگر آپ تنگ دست ہوجائیں تو پھر آپ کیا کریں گے، اچھا نہیں لگا۔ کچھ لوگوں نے ناک بھوں چڑھائی اور آگے چل دیئے۔ کچھ لوگوں نے، خاص طور پر خواتین نے کوسا:موئے تنگ دست ہو تو۔ خدا نہ کرے کہ ہم تنگ دست ہوں۔

کچھ لوگوں نے کہا:تنگ دست ہوجانے کے بعد ہم بینکوں سے قرض لیتے رہیں گے اور کبھی واپس نہیں کریں گے۔

کچھ لوگوں کا کہنا تھا:کاروبار میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ ہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرض لیں گے اور ہمیشہ کے لئے لیتے رہیں گے کوئی گل ہی نئیں اے بادشائو۔کچھ ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے تحمل سے سوال سنا اور تحمل سے جواب دیا:اول تو یہ ہونا نہیں ہے کہ ہم تنگ دست ہوجائیں۔ اگر ہوگئے تو پھر اپنے آسودہ دوستوں سے امداد لیں گے۔کچھ لوگوں نے خندہ پیشانی سے کہا:تنگ دست ہوجانے کا مطلب ہے غریب ہوجانا۔ غریب ہوجانے کے بعد ہم زکوٰۃ اور فطرہ کے لیے مستحق ہوجائیں گے۔

زیادہ تر لوگوں نے اسی نوعیت کے جواب دیئے۔ مگر چند لوگوں نے کمال یقین اور خود اعتمادی سے جواب دیا۔ کہا: میں چاٹ اور چھولے بیچوں گا۔ ریڑھی پر سبزیاں بیچوں گا۔ مزدوری کروں گا۔ جھاڑو پوچے کا کام کروں گا۔ باورچی بنوں گا۔ ڈرائیور بن کر کسی سیٹھ کی گاڑی چلائوں گا۔ میں نہیں ڈرتا تنگ دستی سے۔ تب مجھے پتہ چلا کہ ایک صاحب ایسے بھی ہیں جو تنگ دستی سے بچنے کے لئے خواب بیچتے ہیں۔ تنگ دستی میں لوگ گھر کا سازو سامان بیچتے ہیں۔ برتن اور فرنیچر بیچتے ہیں۔ حتیٰ کہ گھر تک بیچ کر سڑک پر آجاتے ہیں۔ یہ پہلا شخص تھا جو تنگ دستی سے بچنے کے لئے خواب بیچتا تھا۔ سنا تھا کہ خواب بیچتے بیچتے وہ آدمی خاصا دولت مند بن چکا تھا۔ میں نے خواب بیچنے والے سے ملنے کی ٹھان لی۔ خواب بیچنے والے سے ملاقات کا قصہ اگلے ہفتے سنائوں گا۔

تازہ ترین