• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہفتہ، اتوار چھٹی کا دن تھا لہٰذا میرے کچھ نامراد قسم کے دوستوں نے مجھے تنگ کرنا فرض سمجھا۔سب سے پہلے بڑھک باز، نخرے باز اور بڑے بڑے دعوے کرنے والا بودی شاہ آ گیا، دوچار منٹ بعد بشیرا پہلوان کہیں سے آگیا، بشیرے کی شکل و شباہت تو پرانی تھی مگر اس بار اس نے دودھیا لباس پہن رکھا تھا۔بشیرے کے پیچھے پیچھے ہی کہیں عاقل شاہ تھا ۔عاقل شاہ کو ہم بچپن ہی سے پاگل شاہ کہتے آئے ہیں۔عاقل شاہ نے بھی کیا مقام پایا ہے کہ اسے گائوں کے چھوٹے بڑے سب پاگل شاہ کہتے ہیں مگر منہ پر سب لوگ شاہ جی، شاہ جی کہتے تھکتے نہیں۔مجھے سب سے پہلے میرے پرائمری اسکول کے ٹیچر نے اس ہستی کا نام بتایا تھا، دراصل عاقل شاہ ہمارے اسکول آیا ہوا تھا، وہ کافی دیر ماسٹر صاحب کے پاس بیٹھا رہا جب گیا تو میں نے ہمت کرکے ماسٹر صاحب سے پوچھ لیا کہ آپ کے پاس کون آیا ہوا تھا ۔ماسٹر صاحب بولے ’’پاگل شاہ‘‘ خیر وہ دن اور آج کا دن ہم سب اسے پاگل شاہ ہی کہتے ہیں۔اب تو ماسٹر صاحب نے بھی لائسنس عنایت کر دیا تھا اس لئے ہم ماسٹر صاحب کے سامنے بھی پاگل شاہ ہی کہا کرتے تھے اب یہ تینوں ہستیاں پتہ نہیں کیسے اکٹھی میرے گھر پر تشریف فرما ہو گئیں، میں خاموشی سے ان کی گفتگو سنتا رہا، بس کبھی کبھار ہاں جی یا جی ہاں کہتا رہا۔ سب سے پہلے بشیرے پہلوان نے گفتگو کا آغاز کیا، کہنے لگا ’’میں نے تو سوچا ہے کہ کشتیوں سے کوئی خاص آمدنی نہیں ہو رہی، میں نے ایک دوسرا کام بھی شروع کیا ہے، اس سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہو رہا میں تو سنجیدگی سے سوچ رہا ہوں کہ سیاست شروع کر دوں، ممبراسمبلی بنوں گا پھر بڑے سے بڑا عہدہ حاصل کروں گا پھر کبھی اپوزیشن میں بھی بیٹھوں گا لیکن میں دوران اقتدار خوب لوٹ مار کروں گا، اپنے ملک کو کنگلا کروں گا، ہر سودے میں کمیشن کھائوں گا، ایسا کوئی منصوبہ نہیں ہو گا جس میں میری پتی شامل نہیں ہوگی، اگر مجھ پر مخالفین نے کرپشن کے الزامات لگائے تو میں ایسی ایسی کرنسی کا نام لوں گا جس کا اب وجود ہی نہیں ہے، مثلاً میں اپنی دیانتداری کے دعوئوں کے ساتھ یہ کہا کروں گا کہ کوئی مجھ پر دھیلے کی کرپشن ثابت کر دے، کبھی کہوں گا کہ کوئی مجھ پر ایک پائی ثابت کر دے اور کبھی کہوں گا کہ کوئی مجھ پر کرپشن کی ایک دمڑی ثابت کر دے، اس دوران میرے دوسرے ساتھی بھی میری حمایت کریں گے اور اگر مجھے گرفتار کر لیا گیا تو میرے حامیوں کے علاوہ کچھ اور ہمارے جیسے یہ کہیں گے کہ ہم پارلیمینٹ کی بالادستی کیلئے کام کر رہے ہیں، اس گرفتاری سے پارلیمینٹ کا تقدس مجروح ہوا ہے، کوئی کہے گا کہ اس سے جمہوریت کو خطرہ ہے یعنی میری گرفتاری کو بھی سوالیہ نشان بنا دیا جائے گا، یوں میرا کام چلتا رہے گا۔‘‘

بشیرے کا خطاب ختم ہوا تو عاقل شاہ المعروف پاگل شاہ شروع ہوگیا وہ بولا ’’اگر بشیرا یہ کام کر سکتا ہے تو میں کیوں نہیں کر سکتا، میرے پاس بھی تھوڑے بہت پیسے تو ہیں، رہی میری سرکاری ملازمت کی تو میں اس کو طلاق دے دیتا ہوں، میں کونسا کوئی بڑا افسر ہوں، ایک معمولی اہلکار ہی تو ہوں، میں بھی سیاست شروع کرتا ہوں، اہلکار سے وزیر بنوں گا اور پھر وزیر بن کے ساری زندگی کی بھوک ختم کروں گا، خوب جائیدادیں بنائوں گا، ہر وقت پارلامنٹ، پارلامنٹ کہوںگا لیکن اس دوران رج کے لوٹوں گا، ملک کھوکھلا کروں گا، میں ہر معاملے پر کہوں گا کہ پارلیمانی کمیٹی بنائیں، اگر ایٹمی پلانٹ کی بات بھی آ گئی تو میں پارلیمانی کمیٹی ہی کی بات کروں گا، پہلی بات تو یہ کہ مجھے کوئی گرفتار نہیں کرے گا اور دوسری بات یہ کہ اگر گرفتاری ہوئی تو پھر جمہوریت خطرے میں آ جائے گی۔‘‘

بشیرے پہلوان اور پاگل شاہ کے بعد بودی شاہ کی جلالی گفتگو شروع ہوئی ’’تم دونوں ایسا مت سوچو، یہ کام ہو گئے جو پہلے ہونا تھے، کیا تم دونوں نے نئے وزیراعظم کی بات نہیں سنی کہ کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑوں گا، کسی ڈاکو اور چور کو نہیں چھوڑوں گا لہٰذا تم دونوں باز آ جائو، چھوڑو ایسی باتیں ویسے بھی اگلے بیس پچیس دنوں میں کچھ اور خوفناک گرفتاریاں شروع ہونے والی ہیں،بچنا مشکل ہو چکا ہے تم سیاست کا نام بھول جائو، سیاست تو سیاست رہی باقی شعبوں میں بھی جھاڑو پھرنے والا ہے، تم دھیلا کہو، پائی کہو یا دمڑی، بچنا مشکل ہو چکا ہے، یہ جو نیا وزیراعظم ہے یہ تو اپنی پارٹی کے لوگوں کو بھی نہیں چھوڑے گا، ایسا لگتا ہے کہ اسے جمہوریت کی کوئی پروا ہی نہیں، عجیب آدمی ہے نہ خود لوٹ مار کرتا ہے اور نہ ہی کرنے دیتا ہے، تم دونوں میرے دوست ہو، اپنے ارادے ترک کر دو، اب یہ کام یہاں نہیں ہوگا۔‘‘میں ان تینوں کی باتوں پر تقریباً خاموش ہی رہا، اب آخر میں صرف ناصرہ زبیری کا شعر ہی سنانے کو رہ گیا ہے کہ ؎

دل سے جذبوں کا واسطہ ایسے

جس طرح سُر سے تال کا رشتہ

تازہ ترین