• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
باہر آگ برساتا سورج ،چیختی چلاتی گاڑیوں سے بھری سڑک اور تپتے فٹ پاتھ پر پسینے پسینے رینگتے لوگ جبکہ اندر مدھم روشنی اور لوبان کی مہک میں ایسا ائیر کنڈیشن ماحول کہ ٹھنڈ لگتی ہوئی ،گولڈن پردوں ،ڈارک براؤن فرنیچر اور لائٹ براؤن لکڑی کا فرش اور فرش پر سفید وردیوں میں بے آواز آتے جاتے ویٹرز ، وفاقی دارالحکومت کے اس کافی شاپ میں مجھے اپنے ’’ کنگ میکر‘‘ دوست کے ساتھ بیٹھے سوا گھنٹہ ہو چکا تھا اور ان 75منٹوں میں وہ یہ سنا چکا تھا کہ زرداری دور میں 3مواقع ایسے بھی آئے کہ جب سب طاقتیں حکومت کو گھر بھجوانے پر تیار تھیں مگر ہر مرتبہ جنرل کیانی نہ مانے ، وہ یہ بھی بتا چکاتھا کہ سعد رفیق نے’’ باغی‘‘ کو تحریک انصاف سے بغاوت پر کیسے آمادہ کیا اور اپنی تہلکہ خیز پریس کانفرنس سے پہلے والی رات مخدوم صاحب کن رابطوں میںتھے ،میرا یہ مہربان لانگ مارچ کی منصوبہ بندیاں ، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے اصلی کرداروں ،دھرنے کے اتار چڑھاؤ ، بیک ڈور جوڑ توڑ ،دھرنا بازوں کی چڑھائی ،پسپائی اورپھر ان کے مصائب کا حال بیان کر کے اس وقت دھرنوں کے’’ ماسٹر مائنڈ ز‘‘ کی بات کر رہا تھا ، اس نے بڑی نفاست سے پلیٹ میں پڑے پیز ے کا آخری ٹکڑاکانٹے سے اُٹھا کر منہ میں ڈالا ،دوچار مرتبہ چباکر پھر ٹھنڈی ہو چکی کافی کے ایک بڑے گھونٹ کی مدد سے اِسے حلق میں اتارا، نیپکن سے منہ صاف کیا اور پھر دائیں ہاتھ کی دو انگلیوں کے اشارے سے ویٹر کو بلا کر گرم کافی لانے کا کہہ کر بولنا شروع کر دیا ’’ تو جیسا میں بتا رہا تھا کہ دھرنوں کے ماسٹر مائنڈان دونوں سیاسی کزنوں کا خیال تھا کہ وہ اِک زبردست عوامی مہم کے بعد ’’ن لیگ‘‘ کے فاروڈ بلاک کی مدد سے نواز حکومت گرا لیں گے ، انہوں نے ہی عمران خان اور طاہر القادری کی لندن میں ملاقات کرائی ،انہوں نے ہی ایک بزنس ٹائیکون کو لانگ مارچ اور دھرنوں کو اسپانسر کرنے کیلئے راضی کیا اور شیڈو کابینہ بنا چکے انہی دونوں کزنوں نے دو ماہ کے دوران ملک کی ایک ’’ اہم شخصیت‘‘ سے 3مرتبہ صرف یہ ضمانت لینے کیلئے ملاقات کی کہ جب انکی مہم کا نقطہ عروج آئے گا تب وہ آگے بڑ ھ کر تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیں مگر نہ تو انہیں اس ’’اہم شخصیت ‘‘سے مدد ملی ، نہ دن کی روشنی میں ن لیگ کے باغیوں میں بغاوت کی جرأت پیدا ہوسکی ،نہ عمران اور طاہر القادری مطلوبہ تعداد میں لوگ باہر نکال سکے ،نہ حکومت نے کوئی بے وقوفی کی اور نہ اپوزیشن کسی ایڈونچر کا حصہ بنی اور یوں اس مہم جوئی کا کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔ جیسے مجھے یہ یاد ہے کہ اس دن میرے دوست نے کارگل اور میمو گیٹ سے ریمنڈ ڈیوس اور گیلانی صاحب کی نااہلی تک کوئی ایسا موضوع اور کوئی ایسا ایشو نہ چھوڑا کہ جس کے اس نے بخیے ادھیڑ کر نہ رکھ دیئے ہوں ، ویسے ہی مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ڈھائی گھنٹوں کی 90فیصد ’’آف دی ریکارڈ ‘‘ بیٹھک کے بعد کافی شاپ کے باہرایک پرجوش جپھی مار کر اپنی بلٹ پروف گاڑی کی طرف بڑھتے اپنے اس دوست سے جب میں نے پوچھا کہ ’’کیا ہماری زندگیوں میں بھی کبھی ایسا وقت آئے گا کہ ہم اپنے ’’ اے گریڈ معصوموں‘‘ کو بے نقاب ہوتا دیکھ سکیں ‘‘ تو ایک جاندار قہقہے کے بعد وہ بولا’’حضور وہ وقت تو ضرور آئے گا لیکن اُس وقت بھی اگر آپ صرف تماشائی ہی بنے رہے تو پھر نتیجہ صفرہی ہو گا‘‘۔
پچھلے سال ہوئی اس ملاقات کے بعد میرے دل ودماغ میں کہیں نہ کہیں یہ یقین تو موجود رہا کہ کبھی نہ کبھی میرے اس دوست کی یہ پیشگو ئی ضرور سچ ثابت ہوگی مگر مجھے یہ پتا نہیں تھا کہ چند ماہ بعد ہی اپنے اے گریڈ معصوموں میں ایسی بھگدڑ مچے گی کہ نرم مزاج میاں نواز شریف کو یہ کہنا پڑ جائے گا کہ ’’ نیب معصوم لوگوں کو تنگ نہ کرے ورنہ کارروائی کریں گے‘‘اب جہاں ابھی کل ہی ایک معصوم جائیداد بچانے کیلئے پہلے یہ سر ٹیفکیٹ پیش کرے کہ ’’ میری ذہنی حالت ٹھیک نہیں ‘‘ اور پھرایک عہدے کی خاطریہی معصوم یہ لکھ کر دیدے کہ ’’وہ تو ہٹا کٹا ‘‘ اور اس معصوم کے دونوں معصوم جواب قبول کرلئےجائیں ، جہاں ایک معصوم اپنے معافی نامے پر اپنے ہاتھ سے لکھ کر یہ اقرارکرے کہ ’’ وہ اور اسکے پیر ومرشد منی لانڈرنگ کرتے رہے‘‘اور پھر ایکدن وزارت کی خاطر یہی معصوم بڑی معصومیت سے یہ کہہ دے کہ’’ وہ لکھائی تو میری تھی ہی نہیں‘‘ اور اس معصوم کے بھی دونوں جوازمان لئے جائیں اور پھر جہاں ابھی چند سال پہلے ایک معصوم سب معصو موں پر ترس کھا کر بڑی معصومیت سے اِک معصوم سا این آر اوجاری کر کے پتلی گلی سے نکل جائے اس ملک میں حالات کا یوں پلٹنا کہ ’’قائد جمہوریت ‘‘ ہی بول پڑیں ، مگر ابھی تک یہ پتا نہیں چل سکا کہ بات کن معصوموں کی ہورہی تھی ’’شریف فیملی‘‘ پر بنے کیسوں کی بات تو ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ ان کیسوں میں پھنسے معصوموں کو تو کوئی خطرہ ہی نہیں ،پھر 200میگا کرپشن اسکینڈلوں والے معصوموں کی بات بھی نہیں ہورہی ہو گی کیونکہ یہ معصوم تو اب بہت پرانے ہوگئے تو پھر کیاہر شے کوڑیوں کے بھاؤ خریدتے دو چار معصوم بزنس ٹائیکونز کی بات ہورہی تھی یا 48بلین کے معصوم سے ہیر پھیر میں پھنسے ایک وزیر کی معصومیت کا تذکرہ ہو رہاتھا ،کیا اُس معصوم وزیر کی داد رسی ہو رہی تھی کہ جس کی پوری ہاؤسنگ سوسائٹی ہی غیر قانونی یا اس معصوم وزیر کے آنسو پونچھے جا ر ہے تھے کہ جس کی چیک وصولی کی ویڈیو سب دیکھ چکے ، اگر یہ نہیں تو پھر کیا 850ملین فراڈ مان چکے معصوم چہیتے ٹھکیداروں کا تذکرہ ہو رہا تھا اگر یہ بھی نہیں تو کیا پھر 15سال تک 5ملین ڈالر روزانہ ادائیگی والے پاک قطر معصوم معاہدے کی طرف اشارہ ہو رہا تھا یا مسلسل معصومیت میں پھنسے نندی پوریا ڈبل قیمت میں مکمل ہوئے معصوم میٹرو منصوبے کی معصومیت کو واضح کیا جارہا تھا ، اگر ایسا بھی نہیں ہے تو پھر باقی تو صرف معصوم اورنج ٹرین بچتی ہے یا پھر سرکاری خرچے سے بنائی گئی معصوم رائے ونڈ سڑک ،خیر پریشانی کی کوئی بات نہیں کیونکہ بات جن معصوموں کی بھی ہورہی ہوگی ان کا پتا بھی چل جائیگا کیونکہ موجودہ دور کی خوبصورتی ہی یہ کہ کوئی لاکھ جتن کرلے مگر بات نکل ہی آتی ہے ،اب جیسے سب کو پتا چل چکا کہ حکومت ملکی تاریخ کا مہنگا ترین قرضہ لے چکی ، جیسے سب کو معلوم ہو گیا کہ 30ماہ میں 6سو افراد کے ہمراہ وزیراعظم نواز شریف 63 کروڑ خرچے والے 65غیر ملکی دورے کر چکے یعنی ہر 14دن بعد ایک دورہ اور ان 65دوروں میں 17دورے صرف لندن کے، مطلب سلطان محمود غزنوی کے 17حملوں کا ریکارڈ اب کسی وقت بھی ٹوٹ سکتا ہے ، یہی نہیں سب یہ بھی جان گئے کہ اسی حکومت کے گزشتہ دو سالوں میں پاکستانی سفارتخانوں نے بھی بڑی معصومیت سے 23ارب خرچ کرڈالے ،بات یہیں رک جاتی تو پھر بھی ٹھیک تھا مگر اب تو یہ بھی زبان زدِعام کہ 65دوروں اور 23ارب 63کروڑ خرچے کا معصوم سا نتیجہ یہ نکلا کہ چین نے ہم سے دھاگا لینا بند کردیا جبکہ یوا ے ای نے ہم سے چاول خریدنا چھوڑ دیئے، پٹھان کوٹ کی ایف آئی آر ہمیں گوجرانوالہ میں درج کرنا پڑی اور پاکستان اقوام متحدہ میں ہیومن رائٹس کی چیئرمنی ہار گیا ۔
اب اس دیس میں جہاں اے بی سی کو تو چھوڑیں ڈی گریڈ معصوم بھی ایسی بلندیوں پر کہ پٹواری کروڑ پتی ،کلرک پلازوں کے مالک اور فرنٹ مینوں کے فرنٹ مینوں کی بیرونِ ملک جائیدادیں،جہاں کل جس کی اپنی قیمت ایک ہوائی ٹکٹ تھی آج وہی جنت کی ٹکٹیں بانٹتا ہوا ،جہا ں کل جس کی اسکول فیس زکوٰۃ فنڈ سے دی جاتی تھی آج اس کے کتے لینڈ کروزروں پر ،جہا ں جسکا اپنا پٹرول کا کاروبار وہی پٹرول کی پالیسیاں بنائے ،جہا ں جس کا اپنااسپتال اور دوائیوں کی فیکٹریاں وہی ملک کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال کا انچارج ، اورجہا ں جسے موقع نہ ملا وہ بھی معصوم اور جس نے موقع ملنے پر کچھ نہ چھوڑا وہ بھی معصوم ۔اب وہاں میرے معصوم دوست چیئرمین نیب چوہدری قمر زمان کو کون بتا ئے کہ ’’بھائی جان جیسے پچھلے سب چیئرمین معصوم بنے رہے آپ بھی معصوم بنے رہتے اور حضور آپکا کام ہے مجرموں سے نمٹنا ،معصوموں کو تنگ کرنا نہیں ‘‘باقی جہاں تک تعلق ہے اپنے تنگ معصوموں کا تو ان سے یہی گزارش کہ’’ حوصلہ نہ ہاریں آپ کی طرح مجھے بھی 100 فیصد یقین ہے کہ موجودہ معصوم نظام کے ہوتے ہوئے کسی معصوم کا بال بیکا تک نہیں ہو سکتا‘‘ لہٰذا معصوم زنجیروں میں جکڑے معصوم نیب نے معصومیت میں کوئی گستاخی کردی ہو تو آپ اپنی معصومیت کے صدقے یہ معصوم گستاخی معاف کر دیں ،یقین جانیے چیئرمین نیب ایسا نہیں ہے جیسا آپ سمجھ رہے ہیں او رپھر آخر میں معجزوں کی عادی اپنی معصوم قوم کو سیلوٹ مار کر یہی درخواست کہ بالکل اسی طرح اپنے گھروں اور دفتروں میں جلنا کڑھنا جاری رکھیں غیبی مدد بس پہنچنے ہی والی ہے ۔
تازہ ترین