• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اپنی عمر عزیز کا نصف حصہ ہم نے سرکاری اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی خاک چھاننے میں صرف کیا ہے۔ اس گرد گرد سفر میں ایسے مقامات آہ و فغاں بھی آئے، جیسے دلیر سنگھ نے اپنے بیٹے سے پوچھا ’’تیرے رزلٹ دا کی بنڑیاں؟‘‘ بچے نے کہا ’’ٹیچر کہندی سی اسی کلاس وچ اِک سال ہور لانڑاں پئے گا‘‘ سردار نے خوش دلی سے کہا ’’پُتر ! سال بھانویں دو ہورلگ جانڑ،پر فیل نئیں ہونڑاں‘‘ ۔تاہم اگرہماری ڈگریوں کی بات کی جائے تو اسٹور کی رضائیاں ، تُلائیاں رکھنے والے شیڈ پر انہوں نے ایک رضائی کا حق مارا ہوا ہے ۔ البتہ جہاں تک علم کا تعلق ہے تو ہنوز روز اول است۔
بحیثیت طفلِ مکتب جب ہم گائوں کے اکلوتے پرائمری اسکول میں داخل ہوئے تو ایک قاعدہ ،تختی ،سلیٹ ،سلیٹی ، قلم دوات ، ملیشیا کا سوٹ اور سینڈل کا جوڑا ہمارا کل اثاثہ تھا۔ سخت نفس کشی کا مرحلہ طے کر کے ہی سہی مگر اس اثاثے سے ’’مسلح‘‘ ہوکر ہم اس شان سےا سکول جاتے ، جیسے ایان علی پیشی پر عدالت میں آتی ہے ۔ اس اسکول کی سر زمین کثیر المقاصد تھی جو درس و تدریس کے علاوہ بھیڑ بکریوں کے باڑے کے طور پر بھی استعمال ہوتی تھی ۔ رات کو خدا کی ایک مخلوق جن کمروں میں آرام کرتی ، دن کو تقریباً ویسی ہی ایک مخلوق وہاںزیورِ تعلیم سے آراستہ ہوتی۔ صبح جب ہم اسکول پہنچتے تومخلوق اول چرنے کے لئے روانگی کے مرحلے میں ہوتی۔کیا عجب کہ ہمیںدیکھ کر ان کے جذبات اسد اللہ خان جیسے ہوتے ہوںکہ:
کہاں میخانے کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں ،کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
ایک شب اس اسکول میں بھانڈوں کا تماشہ بھی ہوا۔ ایک بھانڈ نے دوسرے سے پوچھا کہ تمہاری تعلیم کتنی ہے ؟ دوسرے نے کہا ’’نو بوریاں ، تیرہ توڑے ‘‘… تب جب کلاس میں ہمارے پلے کچھ نہ پڑتا تھا تو ہم طفلان گلی و کوچہ کے ساتھ گلی ڈنڈا کھیلتے اور کلاس میں ’’ایک دونی ،دونی۔دو دونی چار‘‘ کو باآواز بلند رٹا لگاتے سوچتےکہ پانچویں جماعت کے بچوں کے پاس کافی توڑے علم اکٹھا ہو چکا ہو گا۔ پھر ہم پانچویں جماعت میں بھی پہنچ گئے مگر معلوم ہوا کہ اس اسٹیج پر بھی بچے کے دامن میںتوڑے تو کجا پائو بھر علم بھی نہیں ہوتا۔ یہاں آ کر ہمارا نقطہ نظر تبدیل ہوا اور ہم نے ہائی اسکول میںآٹھویں کلاس کے بچوں کو فَر فَر ’’مائی بیسٹ فرینڈ ‘‘ کا مضمون سناتے دیکھ کر خیال کیا کہ اصل علم تو ان کے پاس ہے۔ آٹھویں میں بھی ہم کورے ہی رہے تو سمجھ آئی کہ حقیقت میں میٹرک کے طلباء، علم کی ندیاںہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میٹرک پاس ڈائریکٹ ڈھول سپاہی بھی بھرتی ہو سکتا ہے۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ میٹرک کی سند اور شرمندگی اکٹھی ہمارے ہاتھ لگیں کیونکہ ابھی تک ہماری معلومات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا تھا ۔ تب ہمیں معلوم ہوا کہ گیان و ہنر کے دریا تو کالج میں بہتے ہیںاور ایف اے پاس اصل علامہ ہوتا ہے ، جس کے پاس بوریوں کے حساب سے علم ذخیرہ ہو چکا ہوتا ہے ۔ تھُک تھگڑی لگا کر یہ امتحان بھی پاس کرلیا مگر علم کی صورت جوں کی تُوں رہی ۔
پھر کسی نے بتایا کہ مایوسی کی ضرورت نہیں ، گریجویٹ صحیح معنوں میں علم کا سمندر ہوتا ہے ۔ ہم نے پھر کمر کس لی اور جیسے تیسے ٹیسٹ پیپرز اور دیگر ہتھکنڈوں سے اس ڈگری پر بھی ہاتھ صاف کرلیا۔ اب جب ہم گورنرپنجاب کے دستخطوں سے مزین ایک مربع گز کی بی اے کی ڈگری کو دیکھتے اور پھر اس کی رُو سے اپنے علم کا جائزہ لیتے تو سخت مایوسی ہوتی اسکول میں ایک دفعہ ہم نے ماسٹر صاحب سے پوچھا تھا کہ کل کتنی جماعتیں ہوتی ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ سولہ ہوتی ہیں مگر بچو ! اس پہاڑ کو کوئی مرد کا جری بچہ ہی سَر کر سکتا ہے ، ہر ایرے غیرے کے بس کی بات نہیں ۔ علم پر دسترس کے شوق میں اس کوہ پیمائی کے دوران ہمیں یقین تھا کہ اب تو ہم خود بھی یہاں سے علم و دانش کے کوہِ گراں بن کر ہی اتریں گے ۔ لیکن صد افسوس ! ایم ا ے کی ڈگری کے حصول کے بعد اس بوری سے بھی ریت ہی نکلی۔ پھر جب ہم نے خاندانی دیوانی مقدمات لڑنے کا چارج سنبھالا اور کچہری میں وکلاء کی دھواں دھار قانونی اور علمی بحثیں سنیں ، تب ہوش آیا کہ تعلیم کی انتہا تو وکالت ہے کہ یہاں کی ذکاوتِ فکری کے آگے سقراط بھی پانی بھرتا ہے ۔ بس صاحبو! ہم نے ایل ایل بی بھی پاس کیا مگر حقیقت یہ ہے کہ اندر سے ہم کل بھی طفلِ مکتب تھے اور آج بھی وہی ہیں۔ آخری کوشش کے طور پر ہم نے کالم نگاری کر کے بھی دیکھ لیاکیونکہ کالم نگاروں کو لوگ دانشور کہا کرتے ہیں۔اس کا نتیجہ بھی آپ کے سامنے ہے ۔
آج جب تعلیم کی بوریاں اور توڑے باندھ کر ہمارے کلاس فیلوز میں سے کوئی چاک گریباں اپنے گریباں کی بجائے معاشرے کی فکری رَفو گری پر مامور ہے اور کوئی انجمن سوداگران بہشت سے وابستہ ہو کر اپنی گرانقدر خدمات انجام دے رہا ہے تو ہم آپ کو بتانا چاہتے ہیں کہ حصول علم کے اس سنہرے دور ہمیں پیاسا کوا ، لالچی کتا ،چالاک لومڑی اور بے وقوف گدھا جیسی سبق آموز کہانیاں تو بہت رٹائی گئیں مگر انسانوں کے متعلق ہم نے ذرا کم ہی پڑھا ہے ۔ مسخ شدہ تاریخ جس کا عملی زندگی میں کوئی فائدہ نہیں تھا ہم نے گھوٹ گھوٹ کر پی مگر تاریخ سے سبق حاصل کرنے کا کوئی قرینہ نہ بتایا گیا ۔سوال کرنے کی اجازت نہ تھی کہ تخریبی شور شرابہ نہیں بلکہ تعمیری خاموشی ہماری پہچان ہے ۔ہم نے ایسی نستعلیق اخلاقیات تو بہت سیکھیں مگر علم سے کوسوں دور رہے ۔والد کے نام تعلیمی اخراجات بھیجنے کے لئے خطوط اور بخدمت جناب ہیڈ ماسٹر صاحب ، فیس معافی کی درخواستیں لکھنے کے فن میں تو ہم طاق ہو گئے لیکن بد قسمتی سے با عزت طریقے سے اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کا کوئی ہنر یہ نظا م تعلیم ہمیں سکھانے سے قاصر رہا۔ البتہ اس ’’تعلیمی تجربے‘‘ کا اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ کہ لغویات سے بھرپور محبوبہ کو خط اور سرکاری صاحب بہادران کے نام بھیک مانگنے کے انداز میں نوکری کےلئے درخواستیں لکھنے کے گر سے ہم خوب آشنا ہو گئے ۔ واللہ! ایسے خطوط اور درخواستوں میں خود سپردگی اور خُوئے غلامی کی کیسی کیسی شاندار مشرقی اصطلاحات استعمال ہوتی تھیں…تم میری پہلی اور آخری محبت ہو …تمہارے بغیر میں زندہ نہیں رہوں گا…سورج تمہیں دیکھنے کے لئے طلوع ہوتا ہے …مہتاب تیری زلفوں کے سائے میں نکلتا ہے (سب جھوٹ) اور …بحضور جناب …بصد ادب التماس ہے …خدا آپ کا اقبال بلند کرے …اپنے زیر سایہ ملازمت بخش کر مشکور فرمائیں ( جیسے اُس نے اپنے باپ کے فارم ہائوس پر ملازم رکھنا ہے )پھر بھی اہل مغرب پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ ایشیاء کی بہترین سو جامعات میں سے ایک بھی پاکستانی نہیں اور نہ یہاں کوئی تحقیقی یا تخلیقی کام ہوتا ہے ۔
بس صاحب ! جتنا ہمارے اندر سیکھنے کی صلاحیت تھی ، تعلیمی اداروں نے ہمیں اس سے ’’بڑھ کر ‘‘ سکھایا ۔اس نظام تعلیم نے ہمیں کتاب سے اتنا شغف بخشا ہے کہ جب ہم کسی سے کہتے ہیں کہ میں تمہیں کھلی کتاب کی مانند پڑھ رہا ہوں تو وہ جواب دیتی ہے کہ ضرور پڑھو مگر اندھوں کی طرح ٹٹول کر نہیں۔
تازہ ترین