• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم نواز شریف نے 16 فروری 2016ء کو کہا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے اہلکار سرکاری افسران کو ڈراتے ہیں اور ان کی تذلیل کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ نیب کے چیئرمین کے علم میں یہ باتیں لاچکے ہیں اور اگر اب بھی انہوں نے نوٹس نہ لیا تو حکومت کارروائی کرسکتی ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ 15 برسوں میں نیب کی جانب سے کیا جانے والا احتساب کا عمل غیر موثر رہا ہے۔ صرف گزشتہ ایک برس میں سپریم کورٹ کے ایک فاضل حج نے نیب کے بارے میں جو چشم کشا ریمارکس دیئے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:۔
1۔ نیب میں اندھیر نگری چوپٹ راج کی سی کیفیت ہے۔ اربوں روپے کے وسائل ہیں اور کام ایک فیصد بھی نہیں (جنگ 19 فروری 2015ء)۔
2۔ نیب نے ملک کو بدعنوانی سے پاک کرنا ہے، اسے بدعنوانی سے کون پاک کرے گا؟ (جنگ 25جولائی 2015ء) ہم گزشتہ 12 برسوں سے ان ہی کالموں میں نیب کے احتساب کا مطالبہ کرتے رہے ہیں (جنگ 18 نومبر 2003ء، 9 مارچ 2004ء اور 30 جولائی 2015ء)۔
3۔ ’’نیب کی خود مختاری پر سمجھوتہ کر لیا گیا ہے۔‘‘ یہ ریمارکس اس وقت دیئے گئے جب سپریم کورٹ میں نیب کی جانب سے داخل کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ شوکت عزیز سمیت بارہ افراد نجکاری فراڈ میں ملوث ہیں (جنگ 2 جولائی 2015ء)۔
4۔ نیب میگا اسکینڈلز کو نظرانداز کر دیا ہے (جنگ 2جولائی 2015ء)۔
نیب نے گزشتہ ایک برس میں لوٹی ہوئی دولت کی وصولی کے جو مبالغہ آمیز اور غلط دعوے کئے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:۔
1۔ نیب کے ایگزیکٹیو بورڈ سے منظور شدہ 2014ء کی سالانہ رپورٹ میں کیا گیا ہے کہ اپنے قیام کے بعد سے دسمبر 2014ء تک نیب نے بینکوں کے پھنسے ہوئے قرضوں کی مد میں 121.6 ارب روپے کی وصولی کی ہے۔ یہ دعویٰ قطعی غلط ہے کیونکہ 14 برسوں میں اس مد اتنی وصولی ہوئی ہی نہیں۔ ہماری تجویز ہے کہ اس معاملے کو ٹیسٹ کیس بنایا جائے اور اسٹیٹ بینک سے نیب کے ذریعے قرضوں کی وصولی کے اعداد و شمار حاصل کر کے نہ صرف چیئرمین نیب بلکہ نیب کے بورڈ اور متعلقہ سینئر اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
2۔ نیب کے چیئرمین نے یکم فروری 2016ء کو کہا کہ اپنے قیام سے اب تک نیب نے 266/ارب روپے کی وصولی کی ہے۔ ہم پوری ذمہ داری سے یہ بات کہنے کے لئے اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں کہ نیب کی جانب سے وصولی کا اصل حجم نیب کے دعوے کی رقم کا نصف ہی ہوگا۔ یہ بات نوٹ کرنا اہم ہے کہ نیب کی 2014ء کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دسمبر 2014ء تک نیب نے قومی خزانے میں 6.7/ارب روپے جمع کرائے ہیں جبکہ نیب کے اخراجات کا حجم 10.6/ارب روپے تھا۔
مندرجہ بالا حقائق اور اعداد و شمار کی روشنی میں وزیر اعظم کو نیب سے گلے شکوے کرنے کے بجائے چیئرمین نیب کے خلاف سپریم جوڈیشنل کونسل میں ریفرنس داخل کرانا چاہئے تھا اور ان تمام افسران کے خلاف تادیبی کارروائی کرنا چاہئے تھی جو نیب میں غلط کارروائیاں کرنے میں ملوث رہے ہیں۔ ہم نے گزشتہ 13 برسوں میں نیب کی کارکردگی کے ضمن میں جو کچھ لکھا ہے اس میں سے چند یہ ہیں:۔
1۔ قومی احتساب بیورو کی کارکردگی متنازع، غیر شفاف اور مایوس کن ہے۔ (جنگ 18 دسمبر 2003ء، 9 مارچ 2004 ء اور 30 جولائی 2015ء)۔
2۔ بینکوں کے قرضوں کی معافی و ری شیڈولنگ کے ضمن میں نیب اور اسٹیٹ بینک کے کردار کا بھی باریک بینی سے جائزہ لیا جائے (جنگ 12 اگست 2003ء ، 28 اگست 2015ء)
3۔ گزشتہ 25 برسوں کے 25 ایسے معاملات کو ٹیسٹ کیس بنایا جائے جہاں بدعنوانی کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں (جنگ 16 دسمبر 2014ء) اس ضمن میں کوئی پیش رفت اب تک نہیں ہوئی۔
یہ بات تشویشناک ہے کہ وطن عزیز میں بدعنوانی، بد انتظامی، نا اہلی، بدعنوان و نا اہل افراد کی حکومتی اداروں بشمول اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اہم عہدوں پر تقرریوں و ترقیوں، ٹیکسوں کی بڑے پیمانے پر چوری، وفاق اور چاروں صوبوں کی جانب سے ٹیکسوں میں دی گئیں زبردست چھوٹ و مراعات، انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 111(4) کےتحت ناجائز دولت کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کا راستہ کھلا رکھنے اور شاہانہ اخراجات وغیرہ کی وجہ سے قومی خزانے کو آٹھ ہزار ارب روپے سالانہ کا نقصان ہو رہا ہے جو کہ 22 /ارب روزانہ بنتا ہے۔ بدعنوا نی معاشرے کی چادر کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے اور معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب کررہی ہے جبکہ ملک قرضوں کے شکنجے میں جکڑتا جا رہا ہے۔ ملک میں غربت بڑھ رہی ہے اور اس حقیقت کو تسلیم نہیں کیا جا رہا کہ بدعنوانی کی وجہ اجلاس ہے نہ کہ افلاس وجہ بدعنوانی ہے کیونکہ بڑے پیمانے پر کرپشن طاقتور اور مالدار طبقوں کی جانب سے ہی کی جارہی ہے۔
پاکستان میں مالی اور ذہنی (انٹلیکچوئل) بدعنوانی پروان چڑھتےچلے جانے کی اہم وجہ یہ ہے کہ ملک میں عملاً احتساب کا نظام موجود ہی نہیں ہے۔ نیب، سیاستدان اور بیورو کریسی ، مک مکا، مٹی پائو اور مفاداتی مفاہمت پر عمل پیرا ہیں ۔ معاشرے میں اب عزت کا معیار دولت اور عہدہ قرار پا چکا ہے۔ جسٹس بھگوان داس کمیشن کی 2009ء کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مشرف دور میں تیل فروخت کرنے اور تیل صاف کرنے والے اداروں کو غیرقانونی اور غیر اخلاقی طریقوں سے زبردست فائدہ پہنچایا گیا تھا۔ اس رائے کی بنیاد نیب کی تحقیقاتی رپورٹ تھی۔ حکومت نے کمیشن کی رپورٹ پر ایک اہم شخصیت کی رائے طلب کی۔ اس شخصیت نے جسے اب بڑے قومی اعزاز سے نوازا جارہا ہے اپنی تحریری رپورٹ میں کہا کہ یہ غلطیاں اور جرائم نیک نیتی سے کئے گئے تھے۔ اس طرح معاملہ ختم کردیا گیا۔
یہ مالی و ذہنی کرپشن کا ہی اعجاز ہے کہ گزشتہ ساڑھے سات برسوں میں پاکستان کے مجموعی قرضوں کے حجم میں 14500/ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے اور دسمبر 2015ء تک ان قرضوں و ذمہ داریوں کا حجم اکیس ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا ۔ اسی مدت میں معیشت کی سالانہ اوسط شرح نمو 3.4 ٖفیصد رہی جو کہ گزشتہ 50 برسوں کی اوسط سالانہ شرح سے کم ہے۔ وفاق اور صوبوں نے متفقہ طور سے منظور شدہ قومی تعلیمی پالیسی 2009ء سے انحراف کرتے ہوئے 2015ء میں تعلیم کی مد میں 1350/ارب روپے سے کم مختص کئے ہیں۔ حکومت نے ناجائز دولت کو قانونی تحفظ دینے کے لئے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اجراء کیا ہے۔ یہ اسکیم بری طرح ناکام رہے گی کیونکہ برائے نام ٹیکس دے کر جتنا کالا دھن سفید کرایا جائے گا۔ اس سے کہیں زیادہ اضافہ صرف 2016ء میں کالے دھن کے حجم میں ہو جائے گا۔ حکومت نے کالے دھن کو سفید ہونے سے روکنے کی ہلکی کوشش بھی نہیں کی۔ ایک اور تشویشناک بات یہ ہے کہ حکومت نے 2018ء کے لئے مجموعی ملکی پیداوار کے تناسب سے ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف 15 فیصد سے کم کرکے 13 فیصد کردیا ہے جو کہ 1980 اور 1990ء کی دہائی سے بھی کم ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے ایک نئی حکمت عملی وضع کی جائے۔ نیب کی کارکردگی کی نگرانی کے بجائے نیب کے کلچر کو درست کرنے اور اس ادارے کی تنظیم نو کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ لوٹی ہوئی دولت کی وصولی ہو، بدعنوان عناصر کا کڑا و شفاف احتساب ہو اور بد عنوانی کی حوصلہ شکنی ہو۔
تازہ ترین