• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم اَن جانے ہی میں سہی، لیکن دُہری زندگی بسر کر رہے ہیں۔ خاص طور پر سفید پوش طبقہ تو اسی طرح کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے، بلکہ اب تو دُہری شخصیت رکھنا یا دُہری زندگی گزارنا، ہمارے معاشرے میں اس قدر عام ہے کہ ہمیں اس میں کوئی قباحت بھی محسوس نہیں ہوتی۔ اگر اس رویّے کو گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے سے تشبیہ دی جائے، تو غلط نہیں ہو گا، کیوں کہ ہم خود کو شعوری طور پر ماحول کے مطابق ڈھال لیتے ہیں، حالاں کہ ہمارا یہ تبدیل شدہ رُوپ، حقیقی زندگی سے میلوں دُور ہوتا ہے، لیکن شاید ہم اس دُہری اور کھوکھلی زندگی کے اس قدر عادی ہو چُکے ہیں کہ اب اس خول سے باہر نکلنا بھی کوئی آسان کام نہیں۔

اس حوالے سے بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ مہمانوں کی آمد کے موقعے پر ہم انتہائی ادب، آداب کا مظاہرہ کرتے ہیں، لیکن حقیقی زندگی میں معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ عمومی حالات میں ہمارے مزاج، رویّوں میں ادب، آداب، دھیمے لہجے اور شائستہ گفتگو کا دُور دُور تک نام ونشان نہیں ہوتا۔ اسی طرح، ہم لوگ علاقہ مکینوں کے سامنے خود کو قدرے خوش حال ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کوشش میں بعض اوقات قرضوں کے بوجھ تَلے بھی دَب جاتے ہیں، کیوں کہ ہماری حقیقی زندگی تو اس طرح کے بناوٹی رکھ رکھاؤ کی متحمل ہی نہیں ہوتی۔ ہمیں کئی بار ایسے لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے، جو خدا ترسی اور سخاوت کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں، جب کہ حقیقی طور پر وہ انتہائی درجے کے کنجوس اور چھوٹے دِل کے مالک ہوتے ہیں۔ پھر ہمارے معاشرے میں ایسے افراد کی تو کوئی کمی ہی نہیں کہ جن کے قول و فعل میں قدم قدم پر تضاد نظر آتا ہے۔ ایسے ہی ایک شخص سے کچھ دن پہلے ایک مذہبی اجتماع میں ملاقات ہوئی۔ اُن کی گفتگو انتہائی متاثر کُن تھی اور سامعین اُن کی باتوں میں بھرپور دِل چسپی لے رہے تھے۔ گھر واپس آئے، تو اُن صاحب کی علمیت اور دین داری کا والدہ سے ذکر کیا، مگر اُنھوں نے یہ بتا کر حیران کردیا کہ وہ صاحب برسوں قبل پہلی بیوی اور بچّوں کو بے یارومددگار چھوڑ کر دوسری شادی رچا چکے ہیں اور پھر ان کی طرف کبھی پلٹ کر بھی نہیں دیکھا کہ وہ کن حالات سے گزر رہے ہیں۔نیز، آپ نے یقیناً اعلیٰ عُہدوں پر فائز ایسے افراد بھی دیکھے ہوں گے، جو معاشی طور پر کم زَور اور اپنے سے کم درجے کے لوگوں کو یہ یقین دِلانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں کہ اُن سے زیادہ غریبوں کا کوئی ہم درد نہیں۔ ایسے لوگ بہ ظاہر سب کے ہم درد اور دوسروں کا خیال رکھنے والے ہوتے ہیں، جب کہ درحقیقت وہ صرف اور صرف اپنے ذاتی مفادات ہی کا تحفّظ کرتے ہیں اور اُنہیں اپنے علاوہ، دوسروں کی بھلائی اور مفاد میں کوئی خاص دِل چسپی نہیں ہوتی۔

شاید ہم لفّاظی اور دُہری زندگی کے اس حد تک عادی ہو چکے ہیں کہ گھر سے دفتر تک اور پھر سوشل لائف میں بھی بڑی بے رحمی سے اس کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک تقریب میں ایک شادی شدہ جوڑے سے ملاقات ہوئی، اپنی شائستہ گفتگو اور مہذّب انداز سے وہ بہت ہی نفیس لوگ لگ رہے تھے۔ دونوں آپس میں بھی نہایت مہذّب انداز میں بات چیت کرتے رہے، مگر تعارف کے تھوڑی دیر بعد ہی جب سب اپنی اپنی باتوں میں مصروف ہوگئے، تو اُن کے ایک قریبی عزیز سے یہ سُن کر شدید کوفت ہوئی کہ جو شخص لوگوں کے سامنے خود کو بہت مہذّب اور انتہائی تعلیم یافتہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے، درحقیقت گھر میں بیوی سے انتہائی بدتمیزی سے بات کرتا ہے۔ شخصیت کا یہی وہ دُہرا پن ہے، جسے آج ہم اپنی زندگیوں کا حصّہ بنا چُکے ہیں۔ یقیناً ملازمت پیشہ خواتین بھی اس بات سے ہر گز اختلاف نہیں کریں گی کہ اُنہیں زیادہ مسائل اُن بڑی عُمر کے مَردوں کی طرف سے پیش آتے ہیں، جو بہ ظاہر باوقار شخصیت کے حامل لگتے ہیں، لیکن درحقیقت برعکس اطوار کے مالک ہوتے ہیں۔ یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ایسے افراد کی آنکھیں، اُن کی باتوں کا ساتھ نہیں دے رہی ہوتیں۔ پھر یہ کہ ہم نے بعض فلاحی اداروں میں بھی ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے، جو لوگوں کے سامنے تو عوام کی حالتِ زار پر آنسو بہا رہے ہوتے ہیں، مگر حقیقتاً یہ مگرمچھ کے آنسو ہوتے ہیں اور ان کے پیچھے ڈھونگ یا اپنے مفادات کے حصول کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ مسائل کے ستائے افراد کو ان سے محض دلاسے ہی ملتے ہیں، جب کہ غریبوں کے نام پر خود ان کے حالات سدھر جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور معاشرے میں اعلیٰ مقام اور حیثیت رکھنے والے صاحب سے ملاقات ہوئی۔وہ سوسائٹی میں اپنی سحر انگیز شخصیت اور اعلیٰ کردار کے حوالے سے جانے جاتے ہیں، لیکن گھر میں اہلِ خانہ کے ساتھ اُن کا رویّہ عوامی زندگی کے بالکل برعکس ہے۔ اُن کے ساتھ اخلاق سے گری زبان استعمال کرنے میں کسی قسم کی عار محسوس نہیں کرتے، لیکن باہر شرافت اور اخلاق کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔

ہمیں کئی برس بیرونِ مُلک گزارنے کا بھی موقع ملا۔ وہاں کی عوامی و سماجی زندگی کو بہت قریب سے دیکھا، مگر وہاں ایسی دو رنگی نظر نہیں آئی۔ وہ جیسے ہیں، خود کو ویسا ہی ظاہر کرتے ہیں۔ اس تناظر میں ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر ہم وہ کیوں نہیں ظاہر کرتے، جو دراصل ہماری حقیقت ہے۔ شاید ہم اپنی اس دو رُخی، دو عملی کو غلط ہی نہیں سمجھتے، حالاں کہ ہم نے اس دُہرے رویّے کے باعث بہت سے گھر بِکھرتے اور رشتے ٹوٹتے بھی دیکھے ہیں۔ شاید سچ یہی ہے کہ ہم اپنی اصل شخصیت کو جھوٹی شان و شوکت کے لبادے میں لپیٹنے کے عادی ہو چُکے ہیں۔

تازہ ترین