• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر لعل خان کاکڑ (کوئٹہ)

انسانی جسم میں ہڈیوں کی ساخت کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ ان کی بدولت نہ صرف جسم متحرک رہتا ہے، بلکہ اُٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے اور بھاگنے دوڑنے کا سارا انحصار بھی ان ہی پر ہوتا ہے۔ اگر یہ کم زور ہوجائیں یا کسی سبب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائیں، تو فرد نہ صرف یہ کہ زندگی کی رعنائیوں سے محروم ہوجاتا ہے، بلکہ معاشرے کے لیے ایک بوجھ بھی بن جاتا ہے۔ آسٹیوپوروسس بھی ایک ایسا ہی خطرناک مرض ہے، جس میں مبتلا فرد محتاجی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ آسٹیو کا مطلب ہڈیاں اور پوروسس کے معنی کم زور یا خستہ ہوجانا ہے۔ بدقسمتی سے 1994ء تک عالمی سطح پر ہڈیوں کے بُھربُھرے پن کو کوئی مرض سمجھا ہی نہیں جاتا تھا۔ یہاں تک کہ عالمی ادارۂ صحت کی ترجیحات میں بھی اس کا کوئی ذکر نہ تھا، مگر جب رفتہ رفتہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا، تو عالمی سطح پر بھی مرض کی روک تھام کے لیے کوششیں کی جانے لگیں اور اسی وجہ سے عوام الّناس میں شعور و آگاہی اُجاگر کرنے کے ضمن میں ’’آسٹیوپوروسس‘‘ کا عالمی دِن منانے کا بھی آغاز ہوا۔

ایک رپورٹ کے مطابق دُنیا بَھر میں پچاس برس سے زائد عُمر کی خواتین کی ایک تہائی اور مَردوں کی بیس فی صد تعداد ہڈیوں کی خستگی کا شکار ہے، جب کہ ماہرینِ طب اس بات پر متفّق ہیں کہ امراضِ قلب کے بعد آسٹیوپوروسس صحت کا دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔ اصل میں ہڈیوں میں بھی جسم کے باقی حصّوں کی طرح کیمیائی عمل جاری رہتا ہے، جس کے نتیجے میں ہڈیوں کے پُرانے خلیے ٹوٹتے اور کچھ نئے اُن کی جگہ لے لیتے ہیں۔ ایک عام فرد کی ہڈیاں30سے40برس کے دوران اپنی بَھرپور صورت میں توانا رہتی ہیں، مگر پھر جوں جوں عُمر گزرتی ہے، ہڈیاں گھلنا شروع ہوجاتی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہرتین خواتین میں سے ایک اور ہر پانچ مَردوں میں سے ایک زندگی کے کسی بھی حصّے میں آسٹیو پوروسس کا شکار ہوسکتا ہے۔ یعنی آسٹیوپوروسس کی شرح مَردوں کی نسبت، خواتین میں بُلند ہے۔اس اعتبار سے اِسے خواتین کا عارضہ تصوّر کیا جاتا ہے، مگر اس سے بھی انکار نہیں کہ یہ مرض مَردوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں75سے84برس کی97فی صد اور45سے54برس کی تقریباً55فی صد خواتین اس عارضے کا شکار ہیں۔ یہ عارضہ ہڈیوں کی لچک کم کردیتا ہے اور بڑھتی عُمر کے ساتھ اگر غذائیت سے بَھرپور غذا استعمال نہ کی جائے، ورزش سے بھی جی چُرایا جائے، تو ہڈیاں ٹوٹنے کا عمل تیز ہوجاتا ہے۔ یعنی آسٹیوکلاسٹ کا عمل تیز اور آسٹیو بلاسٹ کا سُست پڑ جاتا ہے۔

آسٹیوپوروس کی عام علامات میں جسم کی ہڈیاں، جوڑوں میں درد، ہروقت تھکاوٹ کا احساس، بھوک کی کمی، معمولی سی چوٹ سے ہڈی کا ٹوٹ جانا اور کمر کا جھکائو وغیرہ شامل ہیں۔ بدقسمتی سے یہ عارضہ چوں کہ خاموشی سے ہڈیوں کو کم زور اور خستہ کرتا ہے، اس لیے عموماً اس کی تشخیص تاخیر ہی سے ہوتی ہے۔ جب کہ حتمی تشخیص کے لیے عموماً بون منرل ڈینسٹی ٹیسٹ تجویز کیا جاتا ہے اور مرض کی تشخیص کی صورت میں اگر تو کوئی ہڈی وغیرہ نہیں ٹوٹی، تو ادویہ اور قدرتی غذا سے علاج کیا جاتا ہے۔ تاہم، فریکچر کی صورت میں سرجری کرنی پڑتی ہے۔ ویسے تو مرض لاحق ہونے کی کئی وجوہ ہیں، لیکن خواتین میں سن یاس کے بعد خطرات زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ اسی لیے50برس کی عُمر تک خواتین کو بی ایم ڈی ٹیسٹ لازمی کروالینا چاہیے۔ہڈیوں کی مضبوطی میں سب سے اہم کردار غذا کا ہے۔ بدقسمتی سے زیادہ تر خواتین مناسب غذا سے محروم ہی رہتی ہیں۔ عموماً گائوں دیہات اور کئی شہروں میں بھی لڑکیوں سے بچپن ہی سے کھانا پینے کے معاملے میں امتیاز برتا جاتا ہے۔ بچپن میں تو متوازن غذا استعمال نہ کرنے کے اس قدر مضر اثرات ظاہر نہیں ہوتے، مگر بعد ازاں کوئی نہ کوئی طبّی مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے، لہٰذا بچپن ہی سے بچّوں، خصوصاً لڑکیوں کی غذا کا خاص خیال کیا جائے۔ دودھ کا استعمال لازمی کریں، تاکہ عُمر ڈھلنے کے باوجود کیلشیم کا توازن بگڑنے نہ پائے۔ یاد رکھیے، اگر خالص دودھ کی بجائے غیر معیاری مشروبات استعمال کیے جائیں، تو آسٹیوپوروسس میں مبتلا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ماہرین کی رائے کے مطابق بعض کیسز میں آسٹیوپوروسس کا آغاز بچپن ہی سے ہوجاتا ہے، لیکن مرض کے مضر اثرات ادھیڑ عُمر میں ظاہر ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو یہ عارضہ جان لیوا بھی ثابت ہوجاتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 30فی صد عُمر رسیدہ خواتین ران کی ہڈی ٹوٹنے کی وجہ سے ایک برس کے دوران زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ معالجین کا کہنا ہے کہ بے شمار خواتین اور مَرد اپنے مرض سے لاعلم رہتے ہیں، کیوں کہ زیادہ تر کیسز میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں اور مرض اندر ہی اندر اپنی جڑیں مضبوط کرتا چلا جاتا ہے اور پھر جب کسی بھی سبب ہڈی ٹوٹ جائے، تب ہی تشخیص ہو پاتا ہے۔ سو، ہڈیوں کی مضبوطی اور توانائی کے لیے غذا میں کیلشیم اور وٹامن ڈی کا استعمال لازماً کریں۔ وٹامن ڈی کے بہترین حصول کے لیے تو ایک قدرتی ذریعہ دھوپ بھی ہے۔ یاد رکھیں، ہڈیاں کسی بھی فرد کے لیے ’’ریٹائرمنٹ فنڈ‘‘ کی مانند ہیں، یعنی عالمِ جوانی میں آپ جتنا ہڈیوں کا خیال رکھیں گے، بڑھاپا اُتنا ہی آرام دہ گزرے گا، تو کیوں نہ آج ہی سے خود بھی اور اپنے بچّوں کے لیے بھی کیلشیم کی صورت ’’ریٹائرمنٹ فنڈ‘‘ جمع کرنا شروع کردیا جائے، تاکہ زندگی، خصوصاً بڑھاپا آرام و سُکون سے گزر جائے۔ایک جائزے کے مطابق پاکستان میں لڑکیاں روزانہ دو سو ملی گرام کیلشیم استعمال کرتی ہیں، جب کہ طبّی اعتبار سے ایک صحت مند فرد کو روزانہ1200ملی گرام کیلشیم کا استعمال کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ جسم کی ہڈیوں کا90فی صد حصّہ20برس کی عُمر سے قبل ہی مکمل ہوجاتا ہے، تو اگر بچپن یا جوانی میں کیلشیم کی متوازن مقدار حاصل نہ کی جائے، تو آسٹیوپوروسس میں مبتلا ہونا یقینی سی بات ہے۔ ایک عام اندازے کے مطابق پاکستان میں اس وقت خواتین میں آسٹیوپوروسس کی شرح80فی صد سے زائد ہے، جب کہ زیادہ تر خواتین، خصوصاً لڑکیاں موٹاپے کے خوف سے بھی دودھ، پنیر اور دہی کا استعمال نہیں کرتیں،جو مستقبل میں آسٹیوپوروسس کی بڑی وجہ بن جاتا ہے۔ حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق جو بچّے زیادہ مقدار میں دودھ استعمال کرتے ہیں، وہ ان بچّوں کی نسبت دبلے پتلے ہوتے ہیں، جو بازار میں فروخت ہونے والی اشیاء کھانے کے عادی ہوں۔ ایک گلاس دودھ میں تقریباً 1000ملی گرام کیلشیم پایا جاتا ہے، لہٰذا روزانہ ایک گلاس دودھ پیا جائے۔ اگر کسی وجہ سے بچّہ یا بچّی دودھ نہ پیے، تو پھر معالج کے مشورے سے کیلشیم کی گولیاں استعمال کروائی جائیں۔

وٹامن ڈی بھی ہڈیوں کی صحت کے لیے ناگزیر ہے کہ یہ خوراک سے کیلشیم جذب کرنے اور ہڈیوں تک لانے سمیت کئی ہڈیاں بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق مُلک میں70سے80فی صد لڑکیاں وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہیں، جو ایک تشویش ناک صورتِ حال ہے۔ مختلف تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوچُکی ہے کہ وٹامن ڈی کی کمی نہ صرف آسٹیوپوروسس، بلکہ ذیابطیس، بڑی آنت کے سرطان میں مبتلا ہونے کے امکانات بھی بڑھا دیتی ہے۔ انڈے کی زردی اور مچھلی کے تیل میں وٹامن ڈی کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے، جب کہ اس کا ایک بڑا ماخذ دھوپ بھی ہے، مگر بعض وجوہ کی بنا پر شہروں میں خواتین سورج کی شعاؤں میں موجود وٹامن ڈی سے محروم رہ جاتی ہیں، جب کہ دیہات میں زیادہ تر خواتین دھوپ کے ذریعے یہ وٹامن حاصل کرلیتی ہیں۔ اگر روزانہ محض چند منٹ دھوپ میں گزار لیے جائیں، تو جسم وٹامن ڈی کی مطلوبہ مقدار ازخود حاصل کرسکتا ہے۔ جس کے لیےطلوعِ آفتاب کے بعد30منٹ اور غروب آفتاب سے پہلے نصف گھنٹا سورج کی شعاؤں سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ عُمر رسیدہ خواتین کی جِلد کرختگی اور خستگی کے سبب وٹامن ڈی زیادہ مقدار میں جذب نہیں کرسکتی، لہٰذا انہیں وٹامن ڈی کی اضافی حرارت پڑسکتی ہے۔ یاد رکھیے، ہر فرد کے جسم میں قدرتی طور پر وٹامن ڈی تھری پایا جاتا ہے، جو سورج کی روشنی پڑنے سے متحرک ہوجاتا ہے اور اس کے نتیجے میں ہڈیوں میں کیلشیم کا تناسب برقرار رہتا ہے۔ نیز، اس تکلیف دہ مرض سے محفوظ رہنے کے لیے باقاعدہ ورزش بھی بے حد ضروری ہے۔ بچّوں کو زیادہ دیر ویڈیو گیمز نہ کھیلنے دیں، اُن کا ایک شیڈول ترتیب دیں، جب کہ انہیں جسمانی کھیل کود، سائیکلنگ، تیراکی اور دیگر متحرک رکھنے والی سرگرمیوں کی جانب راغب کیا جائے، کیوں کہ یہ مرض اب صرف خواتین تک محدود نہیں، بلکہ مَردوں میں بھی اس کی شرح بڑھ رہی ہے، جس کا اندازہ حال ہی میں کوئٹہ میں کیے جانے والے ایک سروے سے لگایا جاسکتا ہے، جس کے مطابق وہاں لگ بھگ80فی صد اور خواتین و مَرد ہڈیوں کی کم زوری کا شکار ہیں، آسٹیوپوروسس ایک قابلِ علاج مرض ہے، بہ شرط یہ کہ طرزِ زندگی میں مناسب تبدیلی کے ساتھ باقاعدہ علاج کروایا جائے۔

(مضمون نگار، معروف آرتھوپیڈک سرجن ہیں۔ بولان میڈیکل کالج، کوئٹہ میں بطور پروفیسر فرائض انجام دے رہے ہیں، نیز پاکستان آسٹیوپوروسس سوسائٹی کے صدر بھی ہیں)

تازہ ترین