• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھوک، پیاس، غربت، افلاس، تڑپتے بچّے، امدادی مراکز کے باہر لمبی قطاریں… ہمارے ذہنوں میں صحرائے تھر کا تصوّر یہی کچھ ہے اور یہ سچ بھی ہے۔ وہاں کے باسی اکیس ویں صدی میں بھی پانی کے ایک گھونٹ یا روٹی کے چھوٹے سے ٹکڑے کو ترستے ہیں۔ علاج معالجے کی سہولتیں ہیں اور نہ ہی روزگار کے مواقع۔ گزشتہ دنوں کراچی کے مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ صحافیوں کے ایک وفد نے اینگرو کارپوریشن کے اسسٹنٹ مینیجر کارپوریٹ کمیونی کیشنز اینڈ پی آر، مقداد سبطین، برج پی آر کے گروپ اکاؤنٹ مینیجر، فراز شفقت عثمانی اور سینئر اکاؤنٹ مینیجر، فراز انصاری کی رہنمائی میں صحرائے تھر کا دَورہ کیا۔ جب ہم منزل کی جانب گام زَن تھے، تو راستے بھر اس خطّے کی پس ماندگی ہی زیرِ بحث رہی، مگر جب 400 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے اسلام کوٹ پہنچے، تو گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوبے اس خطّے میں اِک نئی صبح کے نمودار ہونے کے آثار نظر آئے۔ ایک ایسی صبح، جو اپنے ساتھ ترقّی و خوش حالی کی نوید لا رہی ہے۔ ہم نے اپنے دو روزہ دَورے کے دَوران مایوسی اور نااُمیدی کے اندھیروں کو چیر کر طلوع ہونے والی چمک دار صبح کے جو آثار دیکھے، آئیے! اُس کی کچھ جھلکیاں آپ کو بھی دِکھاتے ہیں۔

1991ء میں امریکن کمپنی’’ یونائیٹڈ اسٹیٹس ایجینسی فار انٹرنیشنل ڈیویلپمنٹ‘‘ اور’’ جیو لوجیکل سروے آف پاکستان‘‘ کی جانب سے صحرائے تھر میں پانی کی تلاش کے لیے تجربات کیے جا رہے تھے۔ ایک روز اسلام کوٹ سے کوئی 25 کلومیٹر دُور اسی طرح کے ایک تجربے میں انکشاف ہوا کہ یہاں تو زیرِ زمین کوئلے کے ذخائر ہیں۔ جب مزید تحقیق ہوئی، تو پتا چلا، 19 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلے اس علاقے کے تقریباً نصف حصّے یعنی9 ہزار مربع کلومیٹر میں یہ ذخائر موجود ہیں اور ان کا حجم 175 ارب ٹن ہے۔ اسے یوں سمجھ لیجیے کہ یہ ذخائر، سعودی عرب اور ایران کے مجموعی تیل کے ذخائر کے برابر ہیں اور اس کوئلے سے دو سو سال تک ایک لاکھ میگاواٹ بجلی بنائی جا سکتی ہے، جو پاکستان کی ضروریات سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ پورے پاکستان میں کوئلے کے مجموعی ذخائر 186 ارب ٹن ہیں، جن میں سے 175 ارب ٹن تھر میں ہیں اور یہ پاکستان کے کُل گیس کے ذخائر سے 68 فی صد زیادہ ہیں۔دنیا کے ایسے ممالک، جہاں تھر کی طرح Lignite( کوئلے کی ایک قسم) ملتا ہے، پاکستان کا نمبر ساتواں ہے۔نیز، عالمی سطح پر کوئلے کے ذخائر میں اس کا 16 واں نمبر ہے۔

دنیا کا نواں بڑا صحرا، صحرائے تھر، پاکستان اور بھارت میں پھیلا ہوا ہے، لیکن اس علاقے میں موجود کوئلے کے ذخائر میں سے نوّے فی صد پاکستان کے پاس ہیں اور بھارت کے حصّے میں صرف دس فی صد آئے ، لیکن اُس نے 1948 ء ہی میں بجلی کے حصول کے لیے اپنے صحرائی علاقے سے کوئلہ نکالنا شروع کردیا تھا۔ اس مقصد کے لیے 8 ہزار میگا واٹ کے پاور پلانٹ لگائے گئے، جو کم وبیش چالیس برسوں تک اس کوئلے سے شہریوں کو بجلی فراہم کرتے رہے، تاہم اب ذخائر ختم ہونے پر بیرونِ مُلک سے کوئلہ منگوا کر وہ پلانٹ چلائے جا رہے ہیں۔ پاکستان نے اس ضمن میں 1991 ء میں پیش رفت کی، مگر اُس کے بعد بھی برسوں تک معاملات سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور بے مقصد تجربات ہی کے گرد گھومتے رہے۔ اس دَوران ایک چینی کمپنی کو بلوایا گیا، مگر بجلی کی قیمت کے تنازعے پر معاملہ سمیٹ دیا گیا اور وہ واپس چلی گئی۔ کچھ عرصے تک یہ منصوبہ زرعی یونی ورسٹی، ٹنڈوجام کے پاس بھی رہا، چوں کہ اس کے پاس مہارت تھی اور نہ استطاعت، سو بات آگے نہ بڑھ سکی۔ بہرحال، سندھ حکومت نے مئی 2008 ء میں اس جانب سنجیدہ قدم اٹھاتے ہوئے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت مختلف کمپنیز سے پیش کشیں طلب کیں اور پھر اکتوبر 2009ء میں سندھ حکومت اور اینگرو کارپوریشن نے مل کر’’ سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی‘‘ تشکیل دی، بعدازاں اس میں دوسری کمپنیز بھی شامل ہو گئیں۔ معاہدے کے مطابق اینگرو کارپوریشن کے ذمّے مینجمنٹ اور فنائنسنگ ہے، جب کہ سندھ حکومت انفرااسٹرکچر بنانے کی پابند ہے۔ تاہم، منصوبے پر باقاعدہ کام 2016 ء میں شروع ہوا۔ یعنی کوئلے کے ذخائر کی دریافت سے کوئلہ نکالنے کے آغاز تک کے سفر میں تقریباً 25 برس لگ گئے۔ کان کنی کے لیے ایک، ایک سو اسکوائر کلومیٹر پر مشتمل 13 بلاکس بنائے گئے ہیں، جن میں سے ابھی تک چھے بلاکس مختلف کمپنیز کو دیے گئے ہیں، بلاک نمبر 2 اینگرو کے پاس ہے اور بلاک نمبر 5 ڈاکٹر مبارک ثمرمند کے پاس۔ گو کہ سب سے پہلے کام اسی بلاک میں شروع ہوا تھا، مگر اِن دنوں مالی مسائل کے سبب بند ہے۔ یعنی اس وقت تھر کول فیلڈ کے 13 بلاکس میں سے صرف بلاک ٹو ہی میں کام ہو رہا ہے، جو’’ سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی‘‘ کے پاس ہے۔ حکومتِ پاکستان نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے ذریعے اکتوبر 2010 ء میں’’ تھر کول فیلڈ‘‘ کو اسپیشل اکنامک زون قرار دینے، سرمایہ کاروں کے لیے 20.5 فی صد گارنٹی واپسی کو یقینی اور متعدّد ٹیکسز اور لیویز پر چھوٹ دینے کا علان کیا۔ اس کے ساتھ، اقتصادی رابطہ کمیٹی نے سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی(SECMC) کے تقریباً 700ملین ڈالرز کے کان کنی کے منصوبے کے لیے قرض کی مد میں خود مختار ضمانت فراہم کرنے کی بھی اس شرط کے ساتھ منظوری دی کہ حکومتِ سندھ اس منصوبے کے اکثریتی حصص کی مالک ہو گی۔ سو، شیئرز میں تبدیلی ہوئی اور حکومتِ سندھ،’’ سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی‘‘ میں 51 فی صد حصص کی مالک بن گئی۔ اب تھر کول مائننگ پراجیکٹ’’ SECMC ‘‘کی زیرِ نگرانی چل رہا ہے، جو حکومت سندھ، اینگرو انرجی لمیٹیڈ(جس کا سابقہ نام اینگرو پاورجین لمیٹیڈ تھا) اور اس کے پارٹنرز تھل لمیٹیڈ(ہاؤس آف حبیب، حبیب بینک لمیٹیڈ، حب پاور کمپنی اور چائنا مشینری انجینئرنگ کارپوریشن کا معاہدے کے تحت مشترکہ منصوبہ( Venture Agreement) ہے۔ Houlinhe اوپن پِٹ کول مائن، اسٹیٹ پاور انٹرنیشنل کی ذیلی کمپنی مینڈونگ(SPIM) جو ماضی میں CPIM تھی، وہ بھی preference shares' subscription کی حیثیت سے اسٹریٹیجک سرمایہ کار کے طور پر SECMC کے بورڈ کا حصّہ ہیں۔SECMC کو 95.5 مربع کلومیٹر رقبہ 30 سال کی لیز پر دیا گیا ہے اور اس لیز کو کوئلہ نکالنے کے لیے مزید 30 سال تک توسیع دی جا سکتی ہے۔

سیّد مرتضیٰ اظہر رضوی، اینگرو انرجی لمیٹیڈ کے ڈائریکٹر مائننگ اینڈ آپریشن ہیں۔ اُنھوں نے تھر کول فیلڈ بلاک ٹو سے متعلق تفصیل سے بتایا کہ’’ بلاک II میں کوئلے کے مجموعی ذخائر 50 سال تک 5 ہزار میگا واٹ بجلی فراہم کر سکتے ہیں۔ اس منصوبے کا کُل تخمینہ 3 ارب ڈالرز ہے، جس میں سے 2 ارب ڈالرز اینگرو اور ایک ارب ڈالر سندھ حکومت خرچ کر رہی ہے۔ حکومت نے اس رقم سے اسلام کوٹ میں ائیرپورٹ کے علاوہ، معیاری سڑکیں وغیرہ تعمیر کی ہیں۔ یوں یہ پاکستان کا اِس وقت سب سے بڑا اور مہنگا منصوبہ ہے، جس میں اتنی بڑی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے اور یہ سی پیک کا حصّہ ہے۔ 845 ملین ڈالرز مائننگ، جب کہ 1.1 بلین ڈالرز پاور پلانٹ پر خرچ ہوں گے۔ پہلے فیز میں ہر سال 38 ٹن کوئلہ نکالا جائے گا، جس سے 660 میگا واٹ بجلی بنے گی۔ کان کنی کی مجموعی صلاحیت 20.6 میٹرک ٹن ہو گی، جسے 30.4 میٹرک ٹن تک توسیع دی جا سکے گی، جب کہ توانائی کی پیداوار کی صلاحیت مکمل استعداد کے مطابق 3ہزار 960 میگا واٹ تک ہوگی۔ کان کنی کے منصوبے کو 5 حصّوں میں انجام دیا جائے گا۔ پہلا فیز دسمبر 2018 ء تک مکمل ہو جائے گا، جس کے بعد دوسرے حصّے پر کام شروع ہو گا۔ پہلے فیز میں کان کو 3.8 میٹرک ٹن سالانہ کی استعداد کے مطابق تیار کیا گیا ہے، جب کہ 330 میگا واٹ کے دو sub critical پلانٹس زیرِ تعمیر ہیں، جن میں سے پہلا یونٹ دسمبر 2018 ء سے کام شروع کر دے گا اور دوسرا اپریل 2019 ء تک تیار ہو جائے گا۔ دوسرے مرحلے میں کان کو 7.6 میٹرک ٹن سالانہ تک توسیع دی جائے گی اور 330 میگا واٹ کے مزید دو پاور پلانٹس تعمیر کیے جائیں گے۔ جب کہ تیسرے فیز میں کان کو 15.2 میٹرک ٹن سالانہ تک توسیع دی جائے گی، جس سے ایک ہزار 320 میگا واٹ اضافی بجلی پیدا ہوگی۔ اسی طرح چوتھے مرحلے میں کان کنی کو 22.8 میٹرک ٹن سالانہ تک توسیع دی جائے گی، جس سے مزید ایک ہزار 320 میگا واٹ بجلی ملے گی اور پھر پانچویں اور آخری مرحلے میں کان کنی کو اس کی مکمل استعدادِ کار کے مطابق 30.4 میٹرک ٹن سالانہ تک توسیع دی جائے گی، جس سے مزید ایک ہزار 320 میگا واٹ بجلی سسٹم میں شامل ہو گی اور’’ تھر کول بلاک II ‘‘سے پیدا ہونے والی بجلی کی مجموعی پیداوار، 5 ہزار میگا واٹ ہو جائے گی۔ یہ دنیا کا پہلا منصوبہ ہے، جس میں سُرنگوں کی بجائے کُھلی کان کنی کے ذریعے کوئلہ نکالا جا رہا ہے۔‘‘

’’ اِس وقت منصوبہ کس مرحلے میں ہے؟‘‘ اس سوال پر سیّد مرتضیٰ اظہر رضوی نے بتایا’’ منصوبہ 89 فی صد مکمل ہو چکا ہے۔41 ماہ میں تکمیل کا ہدف تھا، مگر ہم پانچ ماہ قبل ہی ہدف حاصل کر لیں گے، جس سے لاگت 25 فی صد کم ہو جائے گی۔ رواں برس جون میں پہلی بار 141 میٹر کھدائی پر کوئلہ نکلا،160 میٹر پر اچھا کوئلہ ملے گا اور ہم 190 میٹر تک کھدائی کریں گے۔ تھر کول سے نیشنل گرڈ میں پہلی مرتبہ دسمبر2018 ء میں بجلی شامل کردیں گے، اس مقصد کے لیے وفاقی حکومت نے اسلام کوٹ سے مٹیاری تک بجلی کی لائن بچھا دی ہے۔‘‘ جب ہم نے سائٹ کا دَورہ کیا، تو محسوس ہوا، کوئلہ نکالنے کا کام کچھ سُست رَوی کا شکار ہے۔ یہ بات رضوی صاحب کے سامنے رکھی، تو اُنھوں نے بتایا’’ دراصل، ہم پاور پلانٹس کی تکمیل کا انتظار کر رہے ہیں، جوں ہی وہ تیار ہوں گے، کوئلہ نکالنے کا کام بھی تیز کردیا جائے گا۔ ہم کوالٹی کے پیشِ نظر کوئلہ نکال کر اسٹاک کرنے کا رسک نہیں لے سکتے، کیوں کہ اس قسم کا کوئلہ خود بہ خود جلنے لگتا ہے۔‘‘ تھر میں نکلنے والے کوئلے کی کوالٹی اور ذخائر کے حوالے سے مختلف شکوک وشبہات سُننے کو ملتے رہے ہیں۔ نجی کمپنیز کی جانب سے دو ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری ہی یہ بتانے کے لیے کافی تھی کہ وہ کچھ دیکھ کر ہی اتنا مال خرچ کر رہی ہیں۔ تاہم، پھر بھی ڈائریکٹر مائننگ اینڈ آپریشن سے پوچھ ہی لیا۔ جس پر اُنھوں نے بتایا’’ چین کی سینوکول انٹرنیشنل انجینئرنگ ریسرچ اینڈ ڈیزائن انسٹی ٹیوٹ، جرمنی کے RWE ،برطانیہ کے SRK ،پاکستان کی HaglerBailly نے 2010 ء میں فزیبلٹی رپورٹ تیار کی تھی۔ اس اسٹڈی میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ یہ منصوبہ، تیکنیکی، ماحولیاتی، سماجی اور کمرشل بنیادوں پر قابلِ عمل ہے۔ پھر 2012-13 ء میں RWE نے Feasibility Study میں ترمیم کرتے ہوئے کان کنی کا حجم کم کر کے 3.8میٹرک ٹن کردیا تاکہ منصوبے کی مجموعی لاگت میں کمی لائی جا سکے۔2012 ء میں RWE نے تھر بلاک II میں بھورے کوئلے کے وسائل کو جانچنے کے لیے Competent Person Statement تیار کرتے ہوئے تصدیق کی تھی کہ تھر بلاک II میں بھورے کوئلے کے 2.039 ارب ٹن کے ذخائر ہیں، جن میں سے 1.57 ارب ٹن کی کان کنی کی جا سکتی ہے۔‘‘ جب بات شکوک و شبہات کی ہو رہی ہو، تو یہ معلوم کرنا بھی ضروری تھا کہ عام تاثر ہے کہ دنیا کوئلے سے بجلی بنانے کے عمل سے پیچھے ہٹ رہی ہے، تو پھر پاکستان اس سیکٹر میں اتنے بڑے منصوبوں پر کیوں عمل پیرا ہے؟ پھر یہ بھی کہ کیا ماحولیات سے متعلق مسائل پر بھی کسی کی نظر ہے؟ اس ضمن میں ہمیں بتایا گیا کہ’’دنیا بھر میں 39 فی صد بجلی اب بھی کوئلے ہی سے پیدا کی جا رہی ہے، لیکن پاکستان میں سب سے زیادہ بجلی تیل پر بنائی جا رہی ہے، جو سب سے مہنگا ذریعہ ہے۔ نیز، تیل کے حصول کے لیے بھاری زرِ مبادلہ بھی خرچ ہوتا ہے اور اس کا وزن عام صارفین ہی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ جہاں تک ماحولیاتی مسائل کی بات ہے، تو اس حوالے سے عالمی سطح پر آخری بڑا کنونشن پیرس میں ہوا تھا، جس میں امریکا نے ان دعووں کو سِرے سے تسلیم کرنے ہی سے انکار کردیا کہ کوئلے کے کوئی منفی اثرات بھی ہوتے ہیں۔ جب کہ جرمنی، جو 50 ہزار میگاواٹ بجلی کوئلے سے بناتا ہے، پیداوار میں محض دو فی صد کمی پر راضی ہوا۔ اس سے ثابت ہوا کہ کوئلے سے بجلی کی پیداوار ماحول کے لیے اس قدر نقصان دہ نہیں، جتنا کہ کہا جا رہا ہے۔ دراصل اس پروپیگنڈے کے پیچھے کاروباری مفادات ہیں، کیوں کہ کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ اُن کے مالی معاملات متاثر ہوں، خواہ اس کے نتیجے میں عوام کو فائدہ ہی کیوں نہ حاصل ہو رہا ہو، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ بجلی بنانے کے لیے ٹنوں کوئلہ جلانے کے منفی اثرات بالکل بھی نہیں ہوتے۔ اسی لیے کمپنی ایسے اقدامات کر رہی ہے، جس سے ماحولیاتی مسائل کو کم سے کم کرنے میں مدد ملے گی۔ چمنی کی اونچائی وغیرہ کے حوالے سے عالمی قوانین کی پابندی کی جا رہی ہے، جب کہ ماحول کو صاف، شفّاف رکھنے کے لیے لاکھوں درخت بھی لگائے جا رہے ہیں۔‘‘

ہمارا المیہ رہا ہے کہ جن علاقوں سے تیل یا گیس وغیرہ کے ذخائر نکلے، عموماً وہاں کے مقامی افراد ان قدرتی خزانوں سے حاصل ہونے والے فوائد سے مستفید نہیں ہوسکے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ تھر میں ایسا نہیں ہورہا۔ اِن دنوں تھر کول فیلڈ بلاک ٹو میں 7 ہزار ملازمین ہیں اور اُن کی تعداد 12 ہزار تک چلی جائے گی۔ ان سات ہزار میں چار ہزار کے قریب پاکستانی ہیں، جن میں مقامی ملازمین کا حصّہ 75 فی صد ہے۔نیز، ملازمین کی بھرتی کے لیے’’ خوش حال تھر پروگرام‘‘ متعارف کروایا گیا ہے، کوئی بھی ایسا شخص جو تھر کا ڈومیسائل رکھتا ہو، آفس آکر مخصوص فارم بھر کر ملازمت حاصل کر سکتا ہے، تاہم ایسی جابز کے لیے، جن کے لیے تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہو، میٹرک تھر سے کرنے کی شرط عاید کی گئی ہے۔ کمپنی کے مطابق مقامی افراد کو اب تک دو ارب روپے کا بزنس دیا جا چُکا ہے۔ مقامی صحافی، عبدالغنی بجیر بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ علاقے میں زندگی بدل رہی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ’’ بہت سے لوگوں کو ملازمتیں ملی ہیں اور اب نوجوانوں میں مختلف ہنر سیکھنے کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے تاکہ وہ کول فیلڈ میں ملازمتیں حاصل کر سکیں۔ پھر یہ کہ علاقے میں خاصے ترقیاتی کام بھی ہو رہے ہیں، اس ضمن میں نئی تعمیر ہونے والی کشادہ شاہ راہوں کا ذکر ضروری ہے۔ ان سڑکوں کے جال سے آمد ورفت میں بہت سہولت ہو گئی ہے، وگرنہ پہلے تو چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شہروں تک جانا بھی انتہائی دشوار تھا اور اب لوگ کراچی تک کا سفر باآسانی کر رہے ہیں۔‘‘ کلدیپ کمار، اسلام کوٹ تاجر ایسوسی ایشن کے صدر ہیں، وہ علاقے میں ہونے والی معاشی سرگرمیوں پر خاصے خوش دِکھائی دیے۔ اُنھوں نے کہا’’ لوگوں کے پاس پیسا آ رہا ہے، ہزاروں لوگ کول فیلڈ سے کما رہے ہیں اور وہ مقامی مارکیٹ میں پیسا خرچ کرتے ہیں، جس سے معاشی سرگرمیوں میں بہت تیزی آئی ہے۔ نئی نئی دکانیں کُھل رہی ہیں اور اب اطراف کے دیہات میں بسنے والے افراد بھی معاشی فوائد کے حصول کے لیے اسلام کوٹ منتقل ہو رہے ہیں، جس کی وجہ سے شہر میں نئی کالونیاں بھی قائم ہو رہی ہیں۔نیز، مقامی تاجروں کو کول فیلڈ میں ہونے والی سرگرمیوں سے براہِ راست بھی فائدہ پہنچ رہا ہے۔ ہمیں مختلف اشیاء کی فراہمی کے ٹھیکے بھی مل رہے ہیں۔ ‘‘ اور پانی…؟؟جی ہاں، اس کے بغیر بات مکمل نہیں ہوسکتی، کیوں کہ تھر کے باشندوں کا سب سے بڑا مسئلہ ایک گھونٹ پانی کا حصول ہے۔ مرتضیٰ رضوی کا کہنا تھا کہ’’تھر میں عموماً 220 میٹر گہرائی میں پانی ملتا ہے، جب کہ یہاں مجموعی طور پر190 ارب کیوبک میٹر زیرِ زمین پانی ہے، جو پینے کے قابل نہیں، مگر اُسے پینے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق تھر کے زیرِ زمین پانی کی ٹی ڈی ایس ویلیو 5 ہزار ہے، جب کہ انسان کے قابلِ استعمال پانی کی ٹی ڈی ایس ویلیو 150 سے 250 کے درمیان ہونی چاہیے۔ ہم نے فی الحال بلاک ٹو میں 12 آر او پلانٹس لگا ئے ہیں، جو کام یابی سے کام کر رہے ہیں اور اس سلسلے کو مزید توسیع دینے کے لیے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔‘‘ اُنھوں نے اسی حوالے سے یہ بھی بتایا کہ’’ جب ہم نے غور کیا کہ سمندر کی ٹی ڈی ایس ویلیو 35 سے 42 ہزار کے درمیان ہوتی ہے اور اس کے باوجود اس پانی میں مچھلیاں زندہ رہتی ہیں، تو کیوں نہ تھر میں بھی اس کا تجربہ کیا جائے۔ سو، ہم نے دیہہ گورانو میں تھر کے سیلائن واٹر سے فش فارمنگ کا آغاز کیا اور یہ تجربہ بھی کام یاب رہا۔ اب وہاں دو، دو کلو کی ہزاروں مچھلیاں موجود ہیں۔‘‘یہاں یہ سوال تو بنتا ہے کہ نجی کمپنی کے لگائے گئے آر او پلانٹس تو کام یابی سے کام کر رہے ہیں، لیکن اسی تھر میں سندھ حکومت کی جانب سے لگائے گئے درجنوں آر او پلانٹس چند روز ہی میں ناکارہ کیوں ہو گئے…؟؟

متاثرین کی اشک شوئی…

کول فیلڈ بلاک ٹو میں کان کنی سے دو گاؤں صفحۂ ہستی سے مِٹ جائیں گے، تو پھر یہ لوگ کہاں جائیں گے؟اس سوال پر سیّد مرتضی اظہر رضوی نے جو کچھ بتایا، اُس سے کم از کم یہ تسلّی تو ہوئی کہ متاثرہ افراد کو کسی بھی سطح پر نظر انداز نہیں کیا جا رہا۔ان متاثرہ خاندانوں کے لیے دو ماڈل ویلیج بسائے جا رہے ہیں۔ ہر گاؤں 1100 اسکوائرفِٹ کے 172 گھروں پر مشتمل ہوگااورہر شادی شدہ فیملی کو ایک گھر ملے گا، یعنی اگر کسی گھر میں والدین اپنے شادی شدہ بیٹوں کے ساتھ رہ رہے ہیں، تو ماڈل گاؤں میں ان میں سے ہر بیٹے کو الگ الگ مکان دیا جائے گا۔ہم نے دیکھا کہ ان زیرِ تعمیر مکانات میں تھر کا ثقافتی’’ چونرا‘‘ بھی بنایا جا رہا تھا اور مویشیوں کے لیے بھی الگ سے جگہ مختص کی گئی تھی۔نیز، مسجد اور مندر بھی بنائے جا رہے ہیں۔ ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ ان متاثرہ افراد کو کمپنی کی جانب سے تین فی صد شیئر بھی دیے گئے ہیں، جس سے اُنھیں سالانہ ایک لاکھ روپے تک مل سکیں گے۔

جہالت کے خاتمے کی جانب پُرعزم قدم…

ہم ٹی سی ایف اسکول کے جیون داس کیمپس گئے، جہاں کان کنی سے متاثرہ دیہات کے علاوہ اطراف کے گاؤں کے بچّے بھی معیاری تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس موقعے پر شعبۂ تعلیم کی سربراہ، بینا شاہ نے مختلف سوالات کے جواب میں بتایا ’’ یہ کیمپس رواں برس کے اپریل سے کام کر رہا ہے اور اس میں ایک ہزار طلبہ کی گنجائش ہے۔ ان دنوں یہاں تین سو کے قریب بچّے داخل ہیں، مگر قحط کی وجہ سے ہونے والی نقل مکانی کے سبب طلبہ کی حاضری متاثر ہو رہی ہے۔تمام عملہ مقامی ہے۔ اس اسکول کو اینگرو نے بنایا ہے اور وہی اس کے اخراجات بھی برداشت کر رہی ہے، جب کہ انتظامی معاملات’’ دی سیٹیزن فاؤنڈیشن‘‘ کے پاس ہیں۔ تھر کے مختلف علاقوں میں اسی طرح کے 24 اسکولز قائم کیے گئے ہیں، جن میں پانچ ہزار کے قریب طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔‘‘قبل ازیں سیّد مرتضی اظہر رضوی نے تعلیمی شعبے میں کمپنی کی خدمات پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ’’ طلبہ کو تعلیم کے ساتھ فنی تربیت بھی فراہم کی جا رہی ہے۔’’ تھر ایسوسی ایٹ انجینئرنگ‘‘ اور’’ تھر انفارمیشن ٹیکنالوجی‘‘ پروگرامز کام یابی سے جاری ہیں، جن کے تحت درجنوں طلبہ تربیت مکمل کر چُکے ہیں۔ 

25 طلبہ کو تربیت کے لیے چین بھجوایا گیا، تو30 کو اپنے ڈھرکی مرکز بھیجا گیا۔ اسی طرح50 کو ایک سالہ ڈپلومے کے لیے سیلانی مرکز، کراچی بھیجا ۔ اس کے علاوہ تعلیمِ بالغاں کے لیے4 مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ نیز، IBA کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت، تھر کے طلبہ کو 100 فی صد اسکالر شپ کی فراہمی اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے اسلام کوٹ میں تھر کے بچّوں کے لیے NED کے عالمی معیار کے کیمپس کے قیام پر بھی بات چیت جاری ہے۔ علاوہ ازیں، لمز اور آئی بی اے کے ماہرین کو بلوا کر تھر کے طلبہ کو مختلف ٹیسٹس کی تیاری بھی کروائی جاتی ہے۔ پھر یہ بھی کہ اگر بلاک ٹو کے رہائشی بچّے کا کسی پروفیشنل تعلیمی ادارے میں داخلہ ہوتا ہے، تو اس کے تمام اخراجات کمپنی برداشت کرتی ہے۔‘‘

تھر میں لگیں گے10 لاکھ درخت…

چوں کہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی صورت میں کئی ماحولیاتی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، اس لیے ماحول کو عوام دوست رکھنے کے لیے اینگرو کمپنی کی جانب سے علاقے میں’’تھر ملین ٹری منصوبے‘‘ پر انتہائی تیز رفتاری سے کام جاری ہے۔ اسسٹنٹ مینیجر ماحولیات، فاطمہ خالد نے اس ضمن میں بتایا’’ ہم 3 لاکھ 30 ہزار پودے لگا چُکے ہیں اور اگلے سال جون تک دس لاکھ پودے لگانے کا ہدف حاصل کرلیں گے۔‘‘اُن کا مزید کہنا تھا کہ’’ پودوں کے لیے زیرِ زمین موجود کھارے پانی ہی کو استعمال کیا جا رہا ہے، تاہم اس مقصد کے لیے جاپانی ماہرِ نباتیات، ڈاکٹر آکیرا کی ٹیکنالوجی سے مدد لی جارہی ہے، جس کے تحت وہ دنیا کے 17 ممالک میں جنگلات اُگا چُکے ہیں۔ 

کالا سونا... تھر بدل رہا ہے
فاطمہ خالد

اسی ٹیکنالوجی کی مدد سے چین نے اپنے 450 کلومیٹر پر پھیلے صحرائی علاقے میں 35 اقسام کے پودے لگانے کا کام یاب تجربہ کیا، جب کہ ہمارا تجربہ بھی اسّی فی صد تک کام یاب رہا۔ چوں کہ مٹّی ریتلی ہے، جو پانی کو فوراً جذب کر لیتی ہے، پھر گرمی اور دھوپ کی شدّت بھی بہت زیادہ ہے، اس لیے پودوں کو مختلف جھاڑیوں سے کم از کم چھے ماہ تک ڈھانپ کر رکھتے ہیں۔ نیز، ہمیں اس کام میں کراچی یونی ورسٹی کی بھی معاونت حاصل ہے۔ کراچی یونی ورسٹی ہی کی مدد سے جانوروں کے چارے پر بھی تجربات کیے گئے تاکہ علاقے سے قحط سالی کی وجہ سے نقلِ مکانی میں کمی آ سکے، خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ تجربہ بھی کام یاب ہوگیا ہے۔‘‘ کس قسم کے پودے لگائے جا رہے ہیں اور یہ منصوبہ کن کن علاقوں میں جاری ہے؟ اس سوال کے جواب میں نرسری انچارج، شیراز خان نے بتایا’’نیم، کیکر، ٹالی وغیرہ کے درخت زیادہ تعداد میں لگائے گئے ہیں، جب کہ یہ منصوبہ صرف کول فیلڈ کے بلاک ٹو تک محدود نہیں، بلکہ مٹھی، چھاچھرو، ڈیپلو اور اسلام کوٹ تک اسے پھیلا دیا گیا ہے۔ہم نے 80 ایکڑ پر مشتمل اس نرسری میں 70 ہزار پودے لگائے ہیں۔ نیز،ایس ای سی ایم سی کی جانب سے تھر میں’’ وَن ہوم، وَن ٹری پروجیکٹ‘‘ بھی جاری ہے تاکہ ماحول کی بہتری کی کوششوں میں مقامی افراد کی شمولیت بھی ممکن بنائی جا سکے۔‘‘

تھر کی پہلی خاتون انجینئر

کالا سونا... تھر بدل رہا ہے
کرن سادھوانی

’’ میرا تعلق مٹھی سے ہے۔ انٹرمیڈیٹ تک وہیں سے تعلیم حاصل کی، اس کے بعد مہران انجینئرنگ یونی ورسٹی، جام شورو سے انجنئیرنگ کی ڈگری حاصل کی۔‘‘ 24 سالہ کرن سادھوانی تھر کول فیلڈ، بلاک ٹو کے سائٹ آفس میں اپنی کہانی سُنا رہی تھیں۔’’ یہاں کیسے آئیں؟‘‘ اس سوال پر اُنھوں نے بتایا’’ ہوم ٹاؤن میں تو ملازمت کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ یہی خیال تھا کہ تعلیم کی تکمیل کے بعد حیدرآباد، کراچی یا پھر اس سے بھی کہیں آگے جا کر ملازمت کرنی پڑے گی، لیکن خوش قسمتی سے اُنہی دنوں’’ تھر ٹرینی انجینئرز پروجیکٹ‘‘ کا علم ہوا، سو، مَیں نے بھی اپلائی کردیا، لمبا چوڑا پراسس چلا، 400 طلبہ نے درخواست دی تھی، جن میں سے25 امیدوار منتخب ہوئے اور اُن میں صرف ایک لڑکی تھی، جو آپ کے سامنے بیٹھی ہے۔ مَیں نے 13 مارچ 2017 ء کو کمپنی جوائن کی تھی، جس کے بعد ہمیں چھے ماہ تک تربیت دی گئی۔‘‘والدین کا ردّ ِ عمل کیا تھا؟ ہم نے پوچھا،’’ہم سب بہت خوش تھے، لیکن جب پتا چلا کہ مجھے سائٹ ہی پر رہنا پڑے گا، تو والدین پریشان ہوگئے، کیوں کہ تھر میں اس طرح کی کوئی روایت نہیں تھی کہ کوئی لڑکی گھر کی بجائے ملازمت کے مقام پر رہے۔ والد میرے ساتھ یہاں آئے اور کمپنی افسران سے بات کی۔ اُن کا اصرار تھا کہ کرن کو آؤٹ، بیک کی اجازت دی جائے، جس پر افسران نے رضامندی کا اظہار کرتے ہوئے کہا’’ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں، مگر ہم چاہتے ہیں کہ کرن سائٹ ہی پر رہے تاکہ اُسے بھی کسی امتیاز کے بغیر زیادہ سے زیادہ مہارت حاصل کرنے کے مواقع ملیں اور آگے بڑھ سکے۔‘‘ بہرحال، مَیں یہیں رہنے لگی اور اب نہ صرف مَیں بلکہ میرے والدین بھی مکمل طور پر مطمئن ہیں۔ یہاں ہمارا ہر طرح سے خیال رکھا جاتا ہے اور ہم ایک خاندان کی طرح رہتے ہیں۔‘‘ کرن کے بعد کئی اور لڑکیاں بھی اس فیلڈ میں آئیں اور اب سائٹ آفس میں ملازمت کر رہی ہیں۔

مفت علاج معالجہ

تھری باشندوں کو علاج معالجے کی مفت سہولتوں کی فراہمی کے لیے تھاریو ہا لیپوٹو اور گورانوں نامی دیہات میں دو اسپتال قائم کیے گئے ہیں۔ہم نے اُن میں سے ایک’’ ماروی مدر اینڈ چائلڈ کلینک‘‘ کا دَورہ کیا، جہاں مریضوں کی بڑی تعداد موجود تھی اور طبّی عملہ اُن کے علاج معالجے میں مصروف تھا۔اسپتال کے سپروائزر، حسن علی میمن نے بتایا’’یہ اسپتال جون 2015 ء سے کام کر رہا ہے اور صبح 9 سے شام 5 تک کُھلا رہتا ہے۔ 

اسے اینگرو نے تعمیر کیا ہے اور وہی اخراجات برداشت کرتی ہے، مگر اس کے انتظامی معاملات انڈس اسپتال کے پاس ہیں۔یہاں مریضوں سے کسی قسم کی فیس وصول نہیں کی جاتی اور دوا بھی مفت دی جاتی ہے، جب کہ الٹرا ساؤنڈ کی سہولت بھی دست یاب ہے۔ ‘‘اسی طرح تھر فاؤنڈیشن، شاہد آفریدی فاؤنڈیشن اور انڈس اسپتال مل کر اسلام کوٹ کے قریب 250 بیڈز کا اسپتال تعمیر کر رہی ہیں، جو اگلے برس تک کام شروع کردے گا۔

خواتین کے حالات بھی بدلیں گے…؟؟

تھر کی عورت شاید مُلک کی سب سے مظلوم عورت ہے کہ اُسے مویشی ہانکنے، چارہ کاٹنے، میلوں دُور سے پانی بھر کے لانے، کھانا پکانے سمیت گھر کے سارے کام کرنے پڑتے ہیں اور پھر بھی اُس کی حالت نہیں بدلتی، لیکن شاید اب تبدیلی کا سفر شروع ہو چُکا ہے، گو کہ اس کی رفتار خاصی سُست ہے۔ اینگرو کی جانب سے خواتین کو باعزّت روزگار فراہمی کے کئی پُرکشش پروگرامز شروع کیے گئے ہیں، جن سے خواتین بھرپور فائدہ بھی اٹھا رہی ہیں۔’’ ویمن ڈمپ ٹرک ڈرائیور پروگرام‘‘ بھی ایک ایسا ہی منصوبہ ہے، جس کے ذریعے تھر کی 28خواتین 60 ٹن وزنی ڈمپر چلانے کی تربیت حاصل کر چُکی ہیں، جب کہ کئی تربیت حاصل کر رہی ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ بہ ظاہر کم زور نظر آنے والی خواتین انتہائی مہارت سے دیو ہیکل ڈمپر چلا رہی تھیں۔ 

ٹرینر، عیشا جیوانی نے بتایا’’خواتین کو ایک ماہ تک ڈمپر چلانے کی تربیت دی جاتی ہے۔ پہلے تو کوئی خاتون آنے پر تیار نہیں تھی، ہم نے اُن کے والدین سے بات کی، شوہروں کو بریفنگ دی، کمیونٹی آگاہی مہم چلائی، تب کہیں جا کر کچھ خواتین ڈمپر چلانے کی تربیت کے لیے تیار ہوئیں۔‘‘ اور اب کیا صُورتِ حال ہے؟ ہمارے سوال پر اُنھوں نے بتایا’’ پہلے ہم منّتیں کیا کرتے تھے، اب خواتین خود آ رہی ہیں۔ اس وقت دوسرا بیج چل رہا ہے، مگر تیسرا بھی تیار ہے۔‘‘ خواتین ڈمپر ڈرائیور کو ماہانہ 40 ہزار روپے تن خواہ دی جائے گی اور ابتدائی طور پر اُن سے نسبتاً آسان کام لیا جائے گا۔ نیز، خواتین کے ساتھ اُن کے گھرانے کے ایک مَرد کو بھی ملازمت دے جا رہی ہے۔ چوں کہ ان خواتین ڈرائیورز کے پاس ایل ٹی وی لائسنس ہوتا ہے، جب کہ ڈمپر کے لیے قانوناً ایچ ٹی وی لائسنس کا ہونا ضروری ہے، جو ڈرائیونگ سیکھتے ہی نہیں مل جاتا، تو اُنھیں اس مقصد کے لیے خصوصی پرمٹ جا ری کیا جاتا ہے۔ نیز،’’ خوش حال ناری پروگرام‘‘ کے تحت خواتین سے اسکولز کے تین ہزار بچّوں کے یونی فارم سلوائے جا رہے ہیں، جس کے لیے کپڑا اور سلائی مشینز کمپنی کی جانب سے دی گئی ہیں۔ 

اس پروگرام سے بھی خواتین کے مالی حالات میں بہتری لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ پھر یہ کہ تھر کی ہنر مند خواتین ہمیشہ سے ساہوکاروں کے نشانے پر رہی ہیں، جو اُن سے کم قیمت پر اشیاء خرید کر مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں، تاہم اب ’’ تھر ہنر گفٹ شاپ‘‘ قائم کی گئی ہے، جہاں مارکیٹ ریٹ پر اشیاء فروخت ہوتی ہیں اور ہنر مند خواتین کو اچھا خاصا منافع حاصل ہو جاتا ہے۔

تازہ ترین