• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پینٹنگز میں لفظ ’’اللہ‘‘ کی خطاطی سے بین الاقوامی پزیرائی ملی, محمد ابراہیم

عکاسی : اسرائیل انصاری

کسی نے کیا خُوب کہا ہے کہ ’’کام یابی کی سرحدوں تک کوئی گلی نہیں جاتی، یہ سفر مشقّت کی شاہ راہوں پرچل کر ہی طے کرنا پڑتا ہے۔‘‘ استاد آپ میں چُھپی صلاحیتوں یا ہُنر کو تلاش تو کر سکتا ہے، لیکن آپ کو فن کی بلندیوں پر نہیں پہنچا سکتا اور عروج کا یہ سفر آپ کو خود ہی طے کرنا پڑتا ہے۔

پینٹنگز میں لفظ ’’اللہ‘‘ کی خطاطی سے بین الاقوامی پزیرائی ملی, محمد ابراہیم
محمد ابراہیم

بلوچستان کے دارالحکومت، کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے مصوّر، محمد ابراہیم کی زندگی بھی اسی اصول سے عبارت ہے۔ انہوں نے اپنی اَن تھک محنت سے نہ صرف فنِ مصوّری و خطّاطی میں ایک مقام بنایا، بلکہ لینڈ اسکیپ میں خطّاطی کر کے اس فن کو ایک نئی جہت بھی دی۔ خود کو ایک تخلیقی فن کار کے طور پر منوانے کے لیے محمد ابراہیم کو کئی نشیب و فراز سے گزرنا پڑا۔ گزشتہ دِنوں ہماری ان سے بات چیت ہوئی، تو انہوں نے اپنی فنی زندگی کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ’’مُجھے ابتدا ہی سے مصوّری کا شوق تھا، لیکن وسائل نہ ہونے کی وجہ سےپینٹنگز کی نمائش نہیں کر پاتا تھا۔ پھر ایک روز میرے کزن، نسیم لہڑی نے، جو کوئٹہ میں کمشنر تھے، مُجھے مشورہ دیا کہ ’’تم اچّھی پینٹنگز بناتے ہو۔ شہر میں ایک تنظیم پینٹنگز کی نمایش منعقد کر رہی ہے، جس میں گورنر بلوچستان بھی مدعو ہوں گے۔ تم بھی وہاں اپنی پینٹنگز کا اسٹال لگائو اور جب گورنر مختلف اسٹالز کا دورہ کریں گے، تو مَیں انہیں تمہارے اسٹال پر بھی لے آئوں گا۔ 

ممکن ہے کہ انہیں تمہاری پینٹنگز پسند آ جائیں اور اس طرح تم پر ترقّی کے دروازے کُھل جائیں۔‘‘ میرے پاس اسٹال کرائے پر لینے تک کے پیسے نہیں تھے۔ جب مَیں نے کزن کو اپنی مجبوری بتائی، تو انہوں نے تجویز دی کہ’’ کسی کی شراکت سے اسٹال لگا لو، یوں تم پر زیادہ بوجھ نہیں پڑے گا۔‘‘ مَیں نے اُن کے مشورے پر عمل کیا اور ایک اسٹال پر اپنی 8پینٹنگز سجادیں۔ شام کو گورنر نمایش میں تشریف لائے، تو میرے کزن بھی ساتھ تھے۔ مگر گورنر نے صرف ابتدائی چند اسٹالز ہی کامعائنہ کیا اور وقت کی کمی کے سبب نمایش سے روانہ ہو گئے۔ اپنے فن کی اس طرح بے قدری دیکھ کر مُجھے بہت دُکھ ہوا اور مَیں اُسی وقت اپنی تمام پینٹنگز کے ساتھ گھر واپس آگیا ۔ کافی دیر تک پُرنم آنکھیں لیے سوچتا رہا کہ ہمارے مُلک میں فن یا فن کار کی کوئی قدر ہی نہیں ہے۔ تاہم، ہمّت نہیں ہاری اور رُکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود کام پر توجّہ مرکوز رکھی، کیوں کہ مَیں اس حقیقت سے بہ خوبی آگاہ تھا کہ کام یابی خلوصِ نیّت اور جہدِ مسلسل ہی میں پوشیدہ ہے ۔ اگر مَیں اپنے فن سے جنون کی حد تک لگائو رکھتاہوں، تو ایک نہ ایک روز کام یابی میرے قدم ضرور چومے گی اور پھر ایسا ہی ہوا۔‘‘

جب ہم نے ابراہیم سے پوچھا کہ ’’کیا انہیں بچپن ہی سے مصوّری کا شوق تھا؟‘‘ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’جی ہاں۔ مَیں اسکول میں مختلف انداز میں اسمائے الٰہی لکھتا اور اُن میں رنگ بھرتا رہتا تھا اور جب اساتذہ اور طالبِ علم میرے فن کی پزیرائی کرتے اور مُجھے اسکول میں منعقد ہونے والے مصوّری کے مقابلوں میں پہلا انعام ملتا، تو مَیں خود کو بہت بڑا آرٹسٹ سمجھتا، لیکن اُس وقت میری رہنمائی کرنے والا کوئی نہ تھا کہ جو مُجھے فنِ مصوّری کے اسرار و رُموز سیکھنے میں مدد دیتا۔ مَیں 10سے12برس کی عُمر میں واٹر اور آئل کلر سے زمین و آسماں پینٹ کرتا، تو دیکھنے والے بے حد متاثر ہوتے، لیکن تب مُجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ قدرتی مناظر کو کینوس پرمنتقل کرنا لینڈ’’ اسکیپ‘‘ کہلاتا ہے۔‘‘ اس سوال کے جواب میں کہ ’’کیا خاندان کا کوئی اور فرد بھی اس فن سے وابستہ رہا؟‘‘ محمد ابراہیم نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ ’’فن، وراثت میں نہیں ملتا اور پھر ویسے بھی ہمارے خاندان میں تعلیم پر زیادہ توجّہ نہیں دی جاتی تھی۔ والد صاحب کی سائیکل ری پیئرنگ کی دُکان تھی اور میٹرک کے بعد مَیں بھی دُکان پر بیٹھنے لگا تھا، لیکن جب والد کے ایک دوست نے اس کام میں میری عدم دل چسپی دیکھی، تو میرے فن کے پیشِ نظر مُجھے نَیم پلیٹس اور بینرز بنانے کا مشورہ دیا اور ساتھ ہی ایک پینٹر کی دُکان پر ملازمت بھی دلو ادی۔ مَیں وہاں بہت دل جمعی سے کام کرتا، جس کی وجہ سے دُکان کا مالک مُجھے بہت عزیز رکھتا اور یہیں مُجھے رنگوں کے امتزاج کو سمجھنے کا موقع بھی ملا۔ اس دوران مَیں قدرتی مناظر بھی پینٹ کرتا رہا۔ یعنی خطّاطی اور مصوّری دونوں ہی کی مشق جاری تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میرے کام میں نکھار آتا جارہا تھا اور لوگ میری حوصلہ افزائی کرنے لگے تھے۔ پھر ایک روز میرے چچا نے مجھ سے کہا کہ ’’ بیٹا! تم ایک باصلاحیت نوجوان ہو، لیکن جب تک اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کرو گے، تب تک بینر ہی بناتے رہو گے۔ اگر تم دُنیا میں کوئی مقام حاصل کرنا چاہتے ہو، تو اسی فن میں ڈگری حاصل کرو۔‘‘ چچا کے اصرا پر مَیں نے بلوچستان یونی ورسٹی کے فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لےلیا اور وہاں سے 4سال تک فنِ مصوّری کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ دورانِ تعلیم جب مَیں گھر بیٹھ کر مصوّری کی مشق کرتا رہتا، تو والد صاحب اکثر ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے پوچھتے کہ ’’بیٹا! صرف لکیریں ہی کھینچتے رہو گے یا کچھ کمانے کا بھی ارادہ ہے؟‘‘ گرچہ یہ سُن کر مُجھے بہت دُکھ ہوتا، لیکن بہر حال، مَیں نے ہمّت نہیں ہاری اور مصوّری کا سلسلہ جاری رکھا۔‘‘

لینڈ اسکیپ پینٹنگ میں دِل چسپی کی وجہ بتاتے ہوئے محمّد ابراہیم کا کہنا تھا کہ’’ بلوچستان میں جا بہ جا قدرت کی فیّاضی کے نمونے دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہاں بلند و بالا پہاڑ ہیں، تو نہریں بھی اپنا جوبن دِکھاتی ہیں، گنگناتے جھرنے ہیں، تو سر سبز وادیاں بھی بانہیں پھیلائے کھڑی ہیں۔ مَیں اسی ماحول میں پَلا بڑھا ،تو اکثر کینوس اُٹھا کر وادی میں نکل جاتا اور مظاہرِ فطرت کی منظر کشی کرتا۔ یہ منظر کشی نہ صرف مُجھے مبہوت کر دیتی ہے، بلکہ میری پینٹنگز دیکھنے والے بھی اس کے سحر کی زد میں آ جاتے ہیں۔ چُوں کہ مُجھے پانی میں پہاڑوں اور آسمان کا عکس بہت متاثر کرتا ہے، لہٰذا مَیں اسے کینوس پر منتقل کر تا ہوں۔‘‘ جب ہم نے محمّد ابراہیم سے یہ سوال کیا کہ ’’ لینڈ اسکیپ میں کیلی گرافی کے ذریعے فنِ خطاّطی کی ایک نئی جہت متعارف کروانے کا خیال کیسے آیا؟‘‘ تو انہوں نے قدرے توقف سے جواب دیا کہ’’ چُوں کہ مُجھے بچپن ہی سے مصوّری کے ساتھ خطّاطی کا بھی شوق تھا، لہٰذا مَیں نے اپنے فائنل تھیسز کو منفرد انداز میں تیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ پھر ایک روز مَیں نیلگوں آسماں، ریتیلے پہاڑوں اور درختوں کو کینوس پر منتقل کرنے میں مصروف تھا کہ اچانک مُجھ پر بے خودی سی طاری ہو گئی اور مَیں نے مشہور حمد ’’کوئی تو ہے، جو نظامِ ہستی چلارہا ہے، وہی خدا ہے‘‘ پڑھنا شروع کردی۔ اس دوران مُجھے رہ رہ کر یہ خیال آ رہا تھا کہ جب کائنات کا ذرّہ ذرّہ ہی اللہ کی حمد و ثنا میں مصروف ہے، تو کیوں نہ مَیں بھی اپنی پینٹنگ میں لفظ ’’اللہ‘‘ کی خطّاطی کروں۔ 

سو، مَیں نے ایسا ہی کیا اور جب مَیں نے یہ پینٹنگ مکمل کرنے کے بعد اپنے ٹیچر، اکرم دوست صاحب کو دکھائی، تو وہ بہت خوش ہوئے اور کہا کہ ’’بیٹا! اب آپ صحیح سمت میں گام زن ہیں۔‘‘ یہ پینٹنگ بناتے وقت مَیں کچھ تذبذب کا شکار تھا کہ کہیں لفظ’’ اللہ‘‘ لکھنے پر ٹیچر معترض نہ ہوں، لیکن انہوں نے نہ صرف میری حوصلہ افزائی کی، بلکہ یہ بھی کہا کہ ’’ بیٹا!یہ کوئی معمولی پینٹنگ نہیں ہے، بلکہ اس میں موجود مناظر اللہ کی بڑائی بیان کر رہے ہیں اور آپ نے خطّاطی اور مصوّری کو باہم ملا کر ایک نئی جہت متعارف کروائی ہے۔ لہٰذا اب آپ اسے اپنے فائنل تھیسز میں شامل کر لیں۔‘‘ اس کے بعد مَیں نے اسی فن میں مہارت حاصل کی۔‘‘

ایک اور سوال کے جواب میں محمّد ابراہیم کا کہنا تھا کہ’’ مَیں ایکریلک میں پینٹنگ کرتا ہوں۔ البتہ کبھی کبھار آئل پینٹنگ بھی کرلیتا ہوں۔ میرے ایک سینئر ساتھی، عمران نے مُجھے مشورہ دیا تھا کہ چُوں کہ مَیں اوور لیپ (ایک اسٹروک پر دوسرے اسٹروک کا استعمال) کرتا ہوں، تو مُجھے ایکریلک میں کام کرنا چاہیے۔ ایکریلک میں پینٹ بہت تیزی سے خُشک ہو جاتا ہے، جب کہ آئل پینٹ کو خُشک ہونے کے لیے وقت درکا ہوتا ہے۔ پھر مُجھے خود بھی اندازہ تھا کہ میرے لیے ایکریلک میڈیم میں کام کرنا بہتر رہے گا۔‘‘ اپنے فن پاروں کی نمایش سے متعلق کیے گئے سوال کے جواب میں محمّد ابراہیم نے بتایا کہ ’’2007ء میں بلوچستان یونی ورسٹی سے فارغ التّحصیل ہونے کے بعد مُجھے ملازمت کی تلاش تھی، کیوں کہ مَیں بینرز اور نیم پلیٹس تیار کرنے کا کام چھوڑ چُکا تھا اور پھر ویسے بھی کمپیوٹر پر پینا فلیکس تیار ہونے کی وجہ سے یہ کام تقریباً ختم ہو چُکا تھا،تو خوش قسمتی سے مُجھے محکمۂ صحت میں گیارہویں گریڈ میں آرٹسٹ کی ملازمت مل گئی، لیکن اب وہاں بھی زیادہ تر کام کمپیوٹر ہی پر ہوتا ہے۔ 

تاہم، مَیں نے مصوّری و خطّاطی کی مشق جاری رکھی ہے اور اگر کوئی نیا ڈائریکٹر آتا ہے، تو اس کی نیم پلیٹ بنا دیتا ہوں۔ یہ 2016ء کی بات ہے۔ لاہور میں مقیم میرے ایک دوست، شبّیر نے فون کیا اور کہا کہ’’مائی آرٹ ورلڈ کی جانب سے اسلام آباد میں پینٹنگز کی ایک نمایش منعقد ہورہی ہے، تو تم بھی اس میں کچھ اپنے فن پارے بھیجو۔‘‘ مَیں نے قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا اور اللہ کا نام لے کر اس نمایش میں اپنی 6پینٹنگز بھیج دیں، جو تمام کیلی گرافک لینڈ اسکیپس تھیں۔ دو روز بعد مُجھے بہ ذریعہ فون مطلع کیا گیا کہ ’’گروپ شو یا فورمین شو‘‘ کے لیے میری پینٹنگز کو منتخب کر لیا گیا ہے اور جب نمایش ہوئی، تو میری تمام پینٹنگز فروخت ہو گئیں۔ یہ میری پہلی کام یابی تھی، جس پر مَیں سجدہ ریز ہوگیا کہ اللہ پاک کے با برکت نام کے طفیل نہ صرف میرےکام کو قبولیت ملی، بلکہ مُجھے مالی فائدہ بھی ہوا۔ اس نمایش سے میرا حوصلہ بڑھا اور پھر اسی گروپ نے اگلے برس مُجھے سولو شو کی پیش کش کی۔ یوں یہ سلسلہ چل نکلا اور مَیں یہ سوچ کر حیران ہوتا تھا کہ میرا رب کس طرح میری مدد کر رہا ہے۔ پھر دُبئی میں منعقدہ ایک گروپ شو میں میری پینٹنگز کی نمایش ہوئی اور مَیں نے اومان میں منعقدہ ایک نمایش میں بھی شرکت کی۔ یوں میرے کام کو نہ صرف بین الاقوامی سطح پر پزیرائی ملی، بلکہ میری پینٹنگز فروخت بھی ہونے لگیں۔ گزشتہ دنوں کراچی میں میرا پہلا سولو شومنعقد ہوا، جو مجموعی طور پر میرا چوتھا سولو شو تھا۔ ان نمایشوں میں بڑے بڑے آرٹسٹس شرکت کرتے ہیں اور اب میرے کام کو بہت سراہا جا رہا ہے ۔‘‘ جب ہم نے ان سے یہ سوال کیا کہ’’ کیا آپ نے کبھی یہ سوچا کہ اگر آپ کا تعلق کوئٹہ کی بہ جائے پاکستان کے کسی نسبتاً ترقّی یافتہ شہر سے ہوتا، تو آپ کو زیادہ مواقع ملتے؟‘‘ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’مَیں نے اپنی پہچان بنانے کے لیے دن رات محنت کی، کیوں کہ مُجھے ابتدا ہی سے اس بات کا اندازہ تھا کہ میرا تعلق پاکستان کے ایک چھوٹے اور نسبتاً پس ماندہ شہر (کوئٹہ) سے ہے اور یہاں کام کے مواقع زیادہ نہیں اور نہ ہی زیادہ پزیرائی کی امید ہے۔ تاہم، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مَیں بلوچستان یونی ورسٹی کے فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ کا واحد طالب علم ہوں کہ جس کے کام کو بین الاقوامی سطح پر پسند کیا گیا۔ 

اسے میری خوش قسمتی کہیے یا جنون کہ جس نے مُجھے تحریک دی اورنتیجتاً راستے بنتے گئے اور مَیں آگے بڑھتا چلا گیا۔ مَیں یہاں یہ بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ گرچہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں بڑے بڑے ثقافتی و سماجی مراکز قائم ہیں، جہاں بڑی بڑی نمایشیں منعقد ہوتی ہیں اور فن و فن کار کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، لیکن بلوچستان میں بھی بڑے بڑے فن کار موجود ہیں، جو بہت اچّھا کام کر رہے ہیں، لیکن بد قسمتی سے سرکاری و نجی سطح پر اُن کو کوئی سرپرستی میسّرنہیں۔ مثال کے طور پر میرے ایک سینئر ساتھی، غلام محمد کو جب پاکستان میں اپنے فن پاروں کی نمایش کا موقع نہیں ملا، تو انہوں نے کسی کی مدد سے برطانیہ اور تُرکی میں منعقد ہونے والی نمایشوں میں اپنے فن پارے بھیجے اور دوسری پوزیشن حاصل کی، پھر اس کے نتیجے میں انہیں مزید کام ملا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان بَھر میں ٹیلنٹ موجود ہے، لیکن چھوٹے شہروں میں موجود فن کاروں پر کچھ خاص توجّہ نہیں دی جاتی ۔‘‘

پاکستان میں فنِ مصوّری کے مستقبل کے سوال پر محمّد ابراہیم کا کہنا تھا کہ ’’پاکستان میں آرٹ کا مستقبل روشن ہے ۔ روایتی خطّاطی کے مقابلے میں مصوّرانہ خطّاطی کو بے حد پسند کیا جا رہا ہے، لیکن یہ آسان کام نہیں، کیوں کہ خطّاطی قلم سے ہوتی ہے اور اس کے اصول و ضوابط بالکل الگ ہیں ۔ اس کے ساتھ مصوّری نہیں کی جاسکتی۔ عرب ممالک اور تُرکی میںتو خطّاطی کے اصول و ضوابط بے حد سخت ہیں۔ اس حوالے سے کراچی کے ایک نام وَر خطّاط، ابوبکر نے، جنہوں نے قرآنِ پاک کے تین نسخے لکھے ہیں، مُجھے بتایا تھا کہ ’’عرب ممالک اور تُرکی میں خطاّطی کے اصول انتہائی سخت ہیں۔ وہاں صرف خط کو نہیں دیکھا جاتا، الفاظ اور اعراب کو بھی ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے۔ یعنی خطّاطی پورے ناپ تول کے ساتھ کی جاتی ہے، جب کہ مصوّرانہ خطّاطی کے کوئی باقاعدہ اصول و ضوابط نہیں ہوتے۔‘‘

تازہ ترین