• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اختر سردار چوہدری، کسووال

ہر سال 17 اکتوبر کو دُنیا بھر میںغُُربت کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن سب سے پہلے 1987ء میں فرانس میں منایا گیا، جہاں لبرٹی پلازا کے گرد کم و بیش ایک لاکھ سے زاید افراد مفلسی و بُھوک کے ستائے انسانوں کی خاطر آواز بلند کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ بعد ازاں، 17اکتوبر 1993ء کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد منظور کی گئی، جس کا موٹو تھا کہ’’جب بھی کوئی انسان انتہائی غُربت میں رہنے پر مجبور ہو گا، تو یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو گی اور ان حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانا ہماری بنیادی ذمّے داری ہے۔‘‘ اس دن کو منانے کا مقصد عالمی برادری میں غُربت کے خاتمے کا احساس پیدا کرنا ہے ۔ اسی لیے، اس روز پاکستان سمیت دُنیا بَھر میں سیمینارز، مذاکرات اور مباحثوں سمیت دیگر خصوصی پروگرامز کا اہتمام کیا جاتاہے۔ اعدادو شمارکے مطابق،ایٹمی طاقت کے حامل، پاکستان کی 60فی صد آبادی خطِ غُربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے اور ہر تیسرا فرد غُربت کا شکار ہے۔ حُکم راںآئے روز دعویٰ کرتے ہیں کہ غُربت کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، جب کہ اس کے برعکس مفلسی کے مارے عوام رُوح اور جسم کا رشتہ برقراررکھنے کے لیے خود کُشی، اپنے بچّوں کو قتل و فروخت کرنےسمیت دیگر جرائم پیشہ سرگرمیاں اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ خیال رہے کہ غُربت کے خاتمے کا تعلق مُلک کی ترقّی سےمشروط ہے۔ کوئی بھی مُلک اُس وقت تک ترقّی نہیں کر سکتا کہ جب تک اس مُلک کے عوام کو اُن کی اہلیت و صلاحیت کے مطابق روزگار نہ مل جائے۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں ہمیشہ چند خاندان ہی حُکم راں رہے، جنہوں نے مُلکی وسائل کو اپنے کاروبار کو ترقّی دینے اور اپنی اولاد کا مستقبل روشن کرنے کے لیے استعمال کیا اور عوام بھی انہیں ووٹ دے کر اقتدار میں لاتے رہے۔ پھر ہمارے حُکم راں عوام کو تو سادگی و قناعت کی تلقین کرتے ہیں، لیکن اپنی شاہ خرچیوں میں کسی طور کمی نہیں لاتے۔

سابق وفاقی وزیرِ خزانہ، اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ گزشتہ 5برس کے دوران خطِ غُربت سے نیچے زندگی گزارنے والے شہریوں کی تعداد دُگنی ہو گئی ہے۔ ان کے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق، 54فی صد پاکستانی خطِ غُربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں، مگر یہ اعداد و شمار حکومت کی جانب سے وضع کردہ غُربت کی نئی تعریف کے مطابق ہیں۔ یعنی یومیہ 2ڈالرز کمانے والے افراد خطِ غُربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں، جب کہ عالمی بینک کے مطابق، پاکستان کی 60فی صد سے زاید آبادی کی یومیہ آمدنی 2ڈالرز سے بھی کم ہے اور 25فی صد سے زاید افراد ایک ڈالر یومیہ پر گزارہ کر رہے ہیں۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے نتیجے میں دُنیا بَھر میں امیر اور غریب افراد کی آمدنی کے درمیان فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ یعنی دُنیا میں امارت اور مفلسی اپنی اپنی انتہائوں پر ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 70کروڑ 50لاکھ نفوس سے زاید آبادی پر مشتمل 41مقروض ممالک کی مجموعی جی ڈی پی دُنیا کے 7امیر ترین افراد کی مجموعی دولت سے کم ہے۔ یعنی؎ بُھوک پھرتی ہے مِرےمُلک میں ننگے پائوں… رزق ظالم کی تجوری میں چُھپا بیٹھا ہے۔

گزشتہ چند برسوں سے جاری دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں ماند پڑنے اور سرمایہ بیرونِ مُلک منتقل ہونے کے سبب بھی مُلک میں غُربت میں اضافہ ہوا۔ تاہم، پاک فوج کی کوششوں کے نتیجے میں مُلک میں امن بحال ہو رہا ہے اور غیر مُلکی صنعت کار بھی یہاں سرمایہ کاری میں دل چسپی لے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان دنوں پاکستان میں سی پیک یا پاک، چین اقتصادی راہ داری کا بہت چرچا ہے۔ گرچہ یہ منصوبہ چین کے ’’ون بیلٹ، ون روڈ‘‘ نامی عالم گیر منصوبے کا ایک حصّہ ہے اور اس کی تکمیل سے چین، خلیجی ممالک سے نہایت کم وقت میں تیل درآمد کر سکے گا، لیکن اس کے ساتھ ہی سی پیک کو پاکستان سمیت پورے خطّے کے لیے بھی ایک ’’گیم چینجر‘‘ منصوبہ قرار دیا جارہا ہے، جس کے نتیجے میں مُلک کی معیشت بحال ہو گی اور بے روزگاری میں کمی واقع ہوگی۔ سی پیک کے تحت مُلک بَھر میں توانائی کے نئے منصوبوں پر کام جاری ہے، جن کی تکمیل اور فعال ہونے سے مُلک میں جاری توانائی کے بُحران میں خاطر خواہ کمی واقع ہو گی۔ توانائی کی قلّت ختم ہونے سے صنعتوں کا پہیہ چلنے لگے گا، جس سے مُلکی معیشت کو استحکام ملے گا۔ اس کے ساتھ ہی سی پیک کے تحت مُلک کے مختلف شہروں میں اسپیشل اکنامک زونز بھی تعمیر کیے جا رہے ہیں، جہاں چینی و پاکستانی سرمایہ دار صنعتیں قائم کریں گے، جہاں مقامی افراد کو روزگار کے مواقع میسّر آئیں گے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چُکا ہے کہ کسی بھی مُلک کی ترقّی کا تعلق غُربت کے خاتمے سے ہوتا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جب شہریوں کو اُن کی اہلیت کے مطابق روزگار اور معاوضہ ملے گا، تو وہ بہ خوشی اپنی خدمات انجام دیں گے، جس کے نتیجے میں مُلک میں کاروباری سرگرمیوں کو فروغ ملے گا اور معیشت پھلے پُھولے گی۔ جب اقتصادی نمو کے ثمرات عوام تک منتقل ہوں گے، تو انہیں اپنا اور اپنے اہلِ خانہ کا معیارِ زندگی بہتر کرنے کے لیے وسائل میسّر آئیں گے۔ یعنی تعلیم، علاج معالجے کی سہولتیں، صاف سُتھری غذا اور صحت بخش ماحول وغیرہ۔ اسی طرح مُلک کو ایک تعلیم یافتہ اور صحت مند افرادی قوّت ملے گی، جو اس کا سب سے بڑا سرمایہ ثابت ہو گی اور پھر یہی سرمایہ مُلک کی خوش حالی کا ضامن ہو گا۔

تازہ ترین