• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اختر سردار چوہدری، کسووال

آزادی کا سورج طلوع ہوا، تو اپنے اہل و عیال اور مال کی قربانیاں دینے والے مسلمانوں کے قافلے ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آنے لگے۔ تاہم، ہجرت کے متمنّی مسلمانوں کے کئی خاندان بلوائیوں کے ڈر سے ہندوستان ہی میں مقیم تھے۔ اس موقعے پر ہندوستان کے ایک دور افتادہ گائوں سے پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم، لیاقت علی خان کو اُن کے ایک رشتے دار کا خط ملا۔ اس مکتوب میں لکھا تھا کہ ’’ہم پاکستان آنا چاہتے ہیں، مگر یہاں پھنسے ہوئے ہیں۔ چُوں کہ آپ پاکستان کے وزیرِ اعظم ہیں اور ہمارے رشتے دار بھی۔ لہٰذا، آپ اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ہمیں یہاں سے جلد از جلد نکلوا سکتے ہیں۔‘‘ اس پر وزیرِ اعظم نے جواب دیا کہ ’’پاکستان آنے والا ہر مہاجر میرا رشتے دار ہے اور ہر فرد اپنی باری پر یہاں آئے گا۔ ہم کوششوں میں مصروف ہیں ۔ جب آپ کی باری آئے گی، تو آپ بھی پاکستان آجائیں گے۔‘‘ قیامِ پاکستان کے بعد ایک نوزائیدہ مملکت کو جہاں اپنی بقا سمیت دیگر مسائل کا سامنا تھا، وہیں لاکھوں مہاجرین کی آبادکاری جیسا انتہائی کٹھن مرحلہ بھی درپیش تھا۔ تاہم، لیاقت علی خان نے تمام ذمّے داریوں کو بڑی خوش اسلوبی سے نبھایا۔ مملکتِ خداداد کے دفاع کے اعتبار سے اُن کا ’’مُکّا‘‘ تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ جولائی 1951ء میں قوم سے خطاب کے دوران انہوں نے اپنا مُکّا فضا میں لہراتے ہوئے کہا کہ’’بھائیو! یہ پانچ انگلیاں الگ الگ ہوں، تو ان کی قوّت ختم ہو جا تی ہے، لیکن جب مل کر مُکّا بن جائیں، تو دشمن کا منہ توڑ سکتی ہیں۔‘‘

پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم، نواب زادہ لیاقت علی خان یکم اکتوبر، 1895ء کو ہندوستان کے علاقے، کرنال میں نواب رُستم علی خان کے ہاں پیدا ہوئے۔ اُن کی والدہ، محمودہ بیگم نے گھر ہی میں اُن کے لیے قرآن و حدیث کی تدریس کا بندوبست کیا۔ نواب زادہ لیاقت علی خان نے 1918ء میں ایم اے او کالج، علی گڑھ سے گریجویشن کیا اور اسی برس جہانگیر بیگم سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ بعد ازاں، اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور 1922ء میں انگلینڈ بار میں شمولیت اختیار کی۔ 1923ء میں ہندوستان واپس آنے کے بعد مسلم لیگ میں شامل ہوئے اور 1936ء میں مسلم لیگ کے جنرل سیکریٹری بنے۔ نواب زادہ لیاقت علی خان نے مسلمانوں کو غیروں کے تسلّط سے آزاد کروانے کے لیے سیاست میں حصّہ لیا تھا اور قائد اعظم، محمد علی جناح کے دستِ راست تھے۔ 1924ء میں قائد اعظم کی زیرِ قیادت مسلم لیگ کو دوبارہ منظّم کرنے کے لیے لاہور میں اجلاس ہوا، تو اس میں لیاقت علی خان نے بھی شرکت کی۔ وہ 1926 ء میں اُتر پردیش کی قانون ساز اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے اور 1940ء میں مرکزی قانون ساز اسمبلی کا رُکن منتخب ہونے تک یو پی اسمبلی کے رُکن رہے۔ لیاقت علی خان نے 1932ء میں ماہرِ تعلیم اور معیشت داں، بیگم رعنا لیاقت علی سے دوسری شادی کی، جو سیاسی زندگی میں بھی اُن کی بہتر معاون ثابت ہوئیں۔

نواب زادہ لیاقت علی خان
نواب زادہ لیاقت علی خان اور بیگم رعنا لیاقت، قائد اعظم اور فاطمہ جناح کے ساتھ

 قائد ِاعظم اور لیاقت علی خان کے مابین ہم آہنگی اور قُربت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب لندن میں منعقدہ تینوں گول میز کانفرنسز کی ناکامی کے نتیجے میں قائد اعظم، محمد علی جناح نے ہندوستان کی سیاست سے دل برداشتہ ہو کر لندن میں مستقل سکونت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا، تو اس نازک وقت میں لیاقت علی خان اُن سے ملاقات کے لیے لندن گئے اور اس دوران انہوں نے اپنی دانش مندی اور مسحور کُن انداز میں دیے گئے دلائل سے قائد اعظم کو دوبارہ مسلمانانِ ہند کی رہنمائی کے لیے آمادہ کر لیا۔ ہندوستان واپسی کے بعد قائد اعظم نے مسلم لیگ کی تنظیمِ نو کی اور لیاقت علی خان مسلم لیگ کے جنرل سیکریٹری بن گئے۔ تحریکِ پاکستان سے نواب زادہ لیاقت علی خان کی گہری وابستگی اور اس مقصد کے لیے اُن کی اَن تھک محنت کے بارے میں 26دسمبر 1943ء کو کراچی میں منعقدہ مسلم لیگ کے اجلاس میں قائد اعظم نے ارشاد فرمایا کہ ’’لیاقت علی خان میرے دستِ راست ہیں، جو تحریکِ پاکستان اور مسلم لیگ کے لیے دن رات کام کرتے ہیں۔ یہ شاید چند افراد کو معلوم ہو کہ انہوں نے مسلم لیگ کا کتنا بوجھ اپنے کندھوں پر اُٹھا رکھا ہے۔ ان سے متعلق یہ کہتے ہوئے مُجھے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ انہیں ہندوستان کے تمام مسلمانوں کا اعتماد حاصل ہے۔‘‘

جب مسلمانوں کا مطالبۂ آزادی زور پکڑنے لگا، تو برطانوی حکومت نے 1946ء کے انتخابات کے بعد ایک عارضی حکومت قائم کرنے کا فیصلہ کیا، تاکہ اسے بہ آسانی اقتدار منتقل کیا جا سکے۔ لیاقت علی خان نے 28فروری 1947ء کو وزیرِ خزانہ کی حیثیت سے متحدہ ہندوستان کا بجٹ پیش کیا، جو ’’غریب دوست بجٹ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس بجٹ کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں غریبوں کی اشیائے ضروریہ سے ٹیکسز ختم کر کے غیر ضروری اشیا پر ٹیکسز لگائے گئے تھے، جس کے نتیجے میں ہندو صنعت کاروں اور ساہو کاروں میں کھلبلی مچ گئی۔ 11اگست1947ء کو پاکستان کا پرچم منظوری کے لیے پیش کیا گیا، تو اس موقعے پر لیاقت علی خان نے جن خیالات کا اظہار کیا، وہ اُن کی حُبّ الوطنی اور جمہوریت پسندی کی روشن دلیل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’جناب عالی! کسی قوم کا پرچم محض کپڑے کا ٹکڑا نہیں ہوتا، بلکہ یہ اُن افراد کی آزادی اور مساوات کا ضامن ہوتا ہے کہ جو اس سے وفاداری کا عہد کرتے ہیں۔ یہ پرچم شہریوں کے جائز حقوق کی حفاظت اور پاکستان کا دفاع کرے گا۔‘‘1951ء میں انہوں نے ایک موقعے پر کہا کہ ’’میرے پاس دولت ہے نہ جائیداد۔ صرف ایک جان ہے، جو گزشتہ4برس سے پاکستان کی لیے وقف ہے۔ مَیں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر پاکستان کی حفاظت کے لیے قوم کو خون بہانا پڑا، تو لیاقت علی خان کا خون بھی اس شامل ہو گا۔‘‘ دُنیا کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں، جو فرد اپنے قول کا جتنا پاس دار ہے، اتنا ہی عظیم ہوتا ہے اور بالآخر یہ عظمت لیاقت علی خان کے حصّے میں بھی آئی کہ انہوں نے اپنا کہا سچ کر دکھایا۔

یہ 16 اکتوبر 1951ء کا دن تھا۔ راول پنڈی کے کمپنی باغ میں ایک اہم جلسہ منعقد کیا گیا تھا۔ جلسہ گاہ میں زبردست چہل پہل تھی۔ ٹھیک شام 4بجے وزیرِ اعظم جلسہ گاہ پہنچے۔ عوام اُن کا خطاب سُننے کے لیے پُر جوش تھے۔ لیاقت علی خان تالیوں اور نعروں کی گونج میں ڈائس پر آئے اور ابھی انہوں نے ’’برادرانِ اسلام!‘‘ ہی کہا تھا کہ ایک گولی سنسناتی ہوئی آئی اور ان کے سینے میں پیوست ہو گئی۔ گولی لگتے ہی وہ زمین پر گر گئے اور اس موقعے پر اُن کی زبان سے ادا ہونے والے آخری الفاظ ’’خداپاکستان کی حفاظت کرے‘‘ تاریخ میں اَمر ہو گئے۔ شہیدِ ملّت، لیاقت علی خان ہندوستان میں تھے، تو نواب تھے، مگر جب پاکستان آئے، تو خالی ہاتھ تھے۔ انہیں کئی مرتبہ اُن کے دوستوں نے مشورہ دیا کہ وہ بھی ہندوستان میں چھوڑی گئی اپنی جائیداد کے بدلے میں پاکستان میں جائیداد حاصل کر لیں، مگر وہ ہر دفعہ یہی جواب دیتے کہ ’’جب سب کو ان کا حق مل جائے گا، تب مَیں بھی لے لوں گا۔‘‘

تازہ ترین