• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں پاکستان نے افغانستان کو چالیس ہزار ٹن گندم مفت دینے کا اعلان کیا، تو لوگ حیران رہ گئے کہ ایک ایسا ملک، جہاں مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے اور کچھ علاقوں میں قحط کی سی صورتحال دیکھی جا رہی ہے، گزشتہ کئی برسوں سے تھرپارکر میں ہزاروں بچے غذائی قلت اور بیماریوں کے سبب ہلاک ہو چکے ہیں، وہ ملک ایک ایسے پڑوسی ملک کو امداد دینے چلا ہے، جس کی پاکستان سے عداوت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہ وہی ملک ہے، جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی شمولیت پر اعتراض کیا تھا، جس کی سرزمین پر دہشت گردی کی فیکٹریاں قائم ہیں، جہاں سے دہشت گرد آ کر پاکستانی چوکیوں پر حملے کرتے ہیں، ہمارے فوجیوں کے سر کاٹتے ہیں۔ (ان دہشت گردانہ حملوں میں اب تک پچاس ہزار سے زائد پاکستانی جاں بہ حق ہو چکے ہیں، فورسز کو پہنچنے والا جانی و مالی نقصان اس کے علاوہ ہے) پھر یہ کہ پاکستان خود بھی ایک ایسا ملک ہے، جو اپنی معیشت کا پہیہ رواں دواں رکھنے کے لیے بڑے ملکوں کا دست نگر ہے، جس پر عالمی قرضوں کا بوجھ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ روزانہ کئی ارب روپے صرف سود کی ادائیگی کے لیے درکار ہوتے ہیں۔ پاکستان نے حال ہی میں سعودی عرب سے یومیہ دو لاکھ بیرل تیل ادھار دینے کی درخواست کی ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کی جانب سے افغانستان کو مفت گندم دینے کا اعلان ملک کے غریب اور پسماندہ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے، یہی گندم غذائی قلت والے علاقوں میں تقسیم کر کے لوگوں کی مشکلات کم کی جا سکتی ہیں اور ان کے دل جیتے جا سکتے ہیں۔

عالمی قوانین کے مطابق دنیا کی ہر ریاست اپنے ہر شہری کی غذائی ضروریات پوری کرنے کی پابند ہے، مگر پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے، جہاں کی چالیس فیصد آبادی غذائیت کے مسئلے سے دوچار ہے اور جہاں کروڑوں افراد خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں، جنہیں دو وقت کا کھانا بھی بہ مشکل دستیاب ہوتا ہے۔ یہ افراد دنیا کے ان ایک ارب انسانوں میں شامل ہیں، جو روزانہ بھوکے سوتے ہیں۔ 2011ء میں کیے گئے ایک سروے رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ بلوچستان، سندھ اور خیبر پختون خوا میں غذائی صورتحال بہتر نہیں ہے۔ 2012ء میں ورلڈ بینک نے پاکستان میں بچوں میں خوراک کی کمی کے خطرے سے خبردار کرتے ہوئے اسے صحت کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا تھا۔

دنیا میں ہر سال16اکتوبر کو ’’یوم خوراک‘‘ منایا جاتا ہے۔ یہ دن منانے کا مقصد خوراک اور اس سے وابستہ شعبوں کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ عالمی نظریئے کے مطابق ’’تمام لوگوں کی اپنی غذائی ضروریات کے مطابق مناسب، محفوظ اور معیاری خوراک تک ہمہ وقت رسائی ہونی چاہئے‘‘ اس نظریئے کی بنیاد چار عوامل ’’دستیابی، رسائی، استعمال اور استحکام‘‘ پر ہے۔ یعنی تمام انسان سماجی اور معاشی لحاظ سے اپنی ضروریات کے مطابق صاف ستھری اور معیاری خوراک حاصل کرنے کے قابل ہوں، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جیسے جیسے دنیا میں ترقی ہو رہی ہے، مناسب اور معیاری خوراک تک رسائی نہ رکھنے والے افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری جانب خوراک کی بربادی اور زیاں بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ اتلاف غذا کے لحاظ سے مشرق وسطیٰ کے ممالک سرفہرست ہیں، خصوصاً سعودی عرب میں روزانہ ساڑھے چار ہزار ٹن قابل استعمال خوراک ضائع کر دی جاتی ہے۔ یہ ایک لحاظ سے انسانی محنت، زمین، پانی اور توانائی کا بھی زیاں ہے، کیونکہ کوئی بھی پیداوار انسانی محنت، زمین کے استعمال، پانی کے بغیر حاصل نہیں ہوتی اور اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے توانائی سے چلنے والے مشینی ذرائع کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح یہ اس ضرورت مند انسان کی حق تلفی ہے، جسے اپنے حصے کی خوراک یا منہ کے نوالے سے محروم کر دیا گیا ہے۔

خوراک کے زیاں کا تعلق ذہنیت، عادات اور رویوں سے ہے۔ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ کچھ نہیں بلکہ زیادہ تر لوگ اپنی اپنی پلیٹوں میں بوٹیوں کا پہاڑ کھڑا کر لیتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کی پلیٹوں میں بے تحاشا کھانا بھر دیا جاتا ہے لیکن یہ کھانا مکمل طور پر کھانے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ تقریب کے اختتام پر بچا کچھا کھانا کچرے کے ڈرمز میں ڈال دیا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے بھارت میں بنگلور یونیورسٹی آف ایگری کلچرل سائنس نے ایک دلچسپ تحقیق کی تھی۔ طلبہ کی ایک ٹیم نے بنگلور میں ہونے والی شادیوں کا چھ ماہ تک جائزہ لیا اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ شادیوں میں کتنا کھانا برباد ہوتا ہے۔ بنگلور میں اس وقت کل پانچ سو تیس شادی ہال تھے، جہاں سالانہ اسی ہزار شادیاں ہوئیں۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ ہر شادی میں تقریباً ایک تہائی کھانا ضائع ہو جاتا ہے، اس طرح ہر برس تقریباً نو سو پچاس ٹن غذا ضائع ہو رہی تھی۔ تحقیقی ٹیم نے حساب لگایا کہ اگر ہر شخص کے کھانے کی قیمت چالیس روپے تصور کر لی جائے، تو ایک سال میں تین سو انتالیس کروڑ کا کھانا ضائع ہوا۔ بنگلور کی مثال مدنظر رکھتے ہوئے ذرا کراچی کا جائزہ لیجئے، یہاں تقریباً ایک ہزار سے زائد شادی ہالز ہیں۔ چھوٹے بڑے ہوٹلز اس کے علاوہ ہیں، جہاں ہر دن مختلف تقریبات ہوتی ہیں۔ اگر ایک شادی ہال میں اوسطاً ہر تیسرے روز شادی کی تقریب کا ہونا فرض کر لیا جائے تو تیس دن میں کل دس شادیاں ہوئیں، اس طرح ہر مہینے ایک ہزار شادی ہالز میں کل دس ہزار شادیوں کی تقریبات منعقد ہوئیں۔ ڈھائی کروڑ کی آبادی والے شہر میں یہ تعداد کچھ زیادہ نہیں، اب اگر فرض کر لیا جائے کہ ہر شادی میں اوسطاً دو سو افراد مدعو تھے تو کل تعداد دو لاکھ بنی۔ ایک اندازے کے مطابق ایک بالغ فرد کی ایک وقت کی خوراک پانچ سو گرام پر مشتمل ہوتی ہے۔ گویا تمام شادیوں میں ایک لاکھ کلو گرام کھانا کھایا گیا، اگر پلیٹوں میں چھوڑے گئے کھانے کی مقدار صرف دس فیصد تک ہو، تو یہ دس ہزار کلوگرام بنتی ہے۔ یعنی یہ کھانا مزید بیس ہزار افراد کھا سکتے تھے۔ کراچی میں اس وقت شادیوں میں کھانے کا کم از کم ریٹ تین سو روپے فی کس ہے۔ ضائع ہونے والے کھانے کا اگر رقم میں حساب لگایا جائے، تو یہ ساٹھ لاکھ روپے بنتے ہیں۔ یاد رہے یہ صرف ایک شہر کی صرف ایک ماہ میں ہونے والی شادیوں کے اندازاً اعدادوشمار ہیں۔ پورے ملک میں ایک سال کی شادیوں میں کھانا بربادی کی رقم کئی ارب تک پہنچ سکتی ہے۔

خوراک یا غذا کی ناقدری، انسانی رویوں اور عادات میں سے ایک ہے۔ فطرتاً انسان ناشکرا ہے، پہلے تو روزق کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے، رزق مل جائے، تو اس کی قدر نہیں کرتا۔ عجب بات یہ ہے کہ مہنگائی میں کئی گنا اضافے کے بعد بھی معاشرے میں خوراک کو صحیح طور پر استعمال کرنے اور ضائع ہونے سے بچانے پر کوئی توجہ نہیں ہے۔ اکثروبیشتر کوڑے کے ڈھیر پر گلے سڑے پھل، ڈبل روٹی، چاول اور سالن وغیرہ پڑے نظر آتے ہیں۔ ہوٹلز وغیرہ کے باہر رکھے ڈرمز بھی کبھی خالی نظر نہیں آتے۔ 

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں آج بھی اتنی خوراک موجود ہے کہ تمام افراد پیٹ بھر کر کھا سکتے ہیں۔ دنیا کی آبادی تقریباً سات ارب ہے، لیکن دنیا میں پیدا ہونے والی خوراک دس ارب انسانوں کے لیے کافی ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق قابل کاشت زمین اتنی زیادہ ہے کہ موجودہ آبادی سے دو یا تین گنا کی غذائی ضروریات با آسانی پوری ہو سکتی ہیں۔ اس اعتبار سے بھوک اور غذائی قلت کا مسئلہ پیدا ہی نہیں ہونا چاہئے، لیکن اس مسئلے کی بنیادی وجہ وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے۔ بڑے ملکوں میں اضافی زرعی پیداوار سمندر برد کر دی جاتی ہے تاکہ قیمتیں برقرار رہیں اور نیچے نہ آئیں۔ دنیا میں ہر تین میں سے ایک فرد بھوکا ہے۔ بھوک کا بنیادی سبب غربت ہے، جو دولت، زمین اور دیگر وسائل کی نامناسب تقسیم سے پیدا ہوتی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی اس کا سبب نہیں، جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے۔ اس مفروضے کے تحت ماہرین نے مختلف طریق کار اختیار کرتے ہوئے آبادی پر کنٹرول کو پہلا حل تجویز کیا، جب کہ کچھ ماہرین نے آب پاشی کے بہتر نظام کے ذریعے زرعی پیداوار بڑھانے اور بنجر زمین کو قابل کاشت بنانے پر زور دیا، لیکن اس کے باوجود دنیا کے مختلف خطوں میں خوراک کی عدم دستیابی برقرار رہی۔ کیونکہ یہ تمام تجاویز اور حل میکانکی انداز کے تحت تھے، کسی نے بھی خوراک کی قلت کے سماجی اسباب پر توجہ نہیں دی تھی۔ یہ درست ہے کہ مہنگائی اور غربت، خوراک کی قلت کا سبب بنتی ہے، لیکن اس کی بڑی وجوہ سماجی ہیں۔ ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ بچی ہوئی خوراک کو دوبارہ استعمال نہ کرنا، صرف امیروں ہی کا شیوہ نہیں ہے۔ غریب اور کم آمدنی والے افراد بھی اپنے ذہنی رویوں کے تحت باسی کھانا پسند نہیں کرتے۔ بچا ہوا کھانا عام طور پر پھینک دیا جاتا ہے یا گھر میں کام کرنے والی ماسیوں کو دے دیا جاتا ہے۔ یہ ماسیاں کھانا لینے میں کوئی پس و پیش نہیں کرتیں، لیکن گھر پہنچ کر اچھا اور لذیذ کھانا رکھ لیا جاتا ہے اور کم تر یا ناپسندیدہ کھانا وہ بھی ضائع کر دیتی ہیں۔

پاکستانی معاشرے میں غذائی عادات تیزی سے تبدیل ہو رہی ہیں، باہر کھانے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، غیرملکی فاسٹ فوڈز کے ساتھ ساتھ مقامی ہوٹلز بھی بڑی تعداد میں کھل گئے ہیں جہاں رات گئے کھانے پینے کے شوقین اور زبان کے چٹخارے لینے والے موجود رہتے ہیں، جنہیں اس بات کی چنداں پروا نہیں ہوتی کہ وہ کیا کھا رہے ہیں۔ کراچی اور لاہور میں گدھے، کتے اور مردار مرغیوں کا کڑاہی گوشت اور بریانی کھلانے والے ہوٹلز کی خبریں ابھی تازہ ہیں۔ غیرمعیاری اور ناقص کھانوں سے بچوں کی اموات کے واقعات بھی پرانے نہیں ہوئے۔ لیکن وارفتگان شوق ان خبروں اور واقعات کا اثر لیے بغیر لذت کام و دہن کے دیوانے ہیں۔ لاہور میں پنجاب فوڈ اتھارٹی کی ایک خاتون افسر نے بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے ہوٹلز، ریستوران، بیکریوں اور فاسٹ فوڈ سینٹرز پر چھاپے مار کر سب کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا تھا، لیکن بااثر طبقات جیت گئے۔ گلشن کا کاروبار دوبارہ چلنے لگا۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے، لیکن ہمارا زرعی شعبہ طاقتور طبقوں کے ہاتھوں میں ہے، بڑے زمینداروں اور جاگیرداروں نے ملک کے سیاسی نظام پر قبضہ جما رکھا ہے اور گندم، چاول، گنے جیسی اہم فصلوں کی قیمتوں کا تعین ان کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے۔ بیس سال کے دوران آٹے کی قیمت چھ روپے سے پینتالیس روپے کلو تک جا پہنچی ہے۔ سولہ روپے کلو فروخت ہونے والا ہلکے معیار کا پونیا چاول ایک سو روپے کلو اور اچھا چاول ایک سو ساٹھ روپے کلو ہے۔ بیس روپے کلو فروخت ہونے والی چینی پچپن روپے کلو بک رہی ہے۔ اس اضافے کا سارا فائدہ بڑے زمینداروں نے اٹھایا ہے، جو قومی اسمبلی کا ایک، ایک رکن بیس، بیس کروڑ روپے میں خرید کر اپنی مرضی کی حکومت بنا لیتے ہیں، لہٰذا کوئی حکومت ان کے خلاف نہیں جا سکتی۔ زرعی شعبہ اس وقت صنعتی شعبے سے زیادہ آمدنی والا شعبہ ہے، جس پر ٹیکس بھی عائد نہیں ہوتا۔ فصلوں کے لیے استعمال ہونے والا پانی برائے نام قیمت پر ملتا ہے۔ جب کہ ایک عام شہری گھریلو استعمال کے پانی کی کئی گنا زیادہ قیمت ادا کرتا ہے۔ گندم پر زر تلافی کی مد میں بھی بڑے زمیندار کروڑوں روپے حاصل کر لیتے ہیں، لیکن ایک عام صارف کو گندم، چاول اور چینی پر ایک پیسے کی بھی رعایت نہیں مل پا رہی ہے۔ گھی، تیل بنانے والے زیادہ تر کارخانے بھی بڑے زمینداروں کی ملکیت ہیں جن کی مقامی پیداوار عالمی قیمت پر فروخت کی جاتی ہے۔ دس سال قبل تیل اور گھی کی قیمت پچاس اور ساٹھ روپے فی کلو کے درمیان تھی، جو اب دو سو روپے فی کلو کے قریب ہے۔ اس بناء پر غریب آدمی کے کچن کے اخراجات اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ دیگر مصارف زندگی کے لیے اس کے پاس کچھ نہیں بچتا۔ یہ ایک ہولناک صورتحال ہے، جس کا اگر کوئی حل نکالا نہ گیا تو لوگ خود کشی کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔

خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی ایک بنیادی وجہ اجناس وغیرہ کی اسمگلنگ بھی ہے، افغانستان میں خاص طور پر گندم، آٹا، چینی اور چاول وغیرہ کئی دہائیوں سے اسمگل کیا جا رہا ہے، اس کی روک تھام کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اسمگلنگ کی روک تھام پر مامور ادارے خود بھی اس غیرقانونی تجارت کا حصہ بن چکے ہیں، مگر وزارت داخلہ کے اعلیٰ حکام ٹھوس رپورٹس ملنے کے باوجود خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس قسم کی اطلاعات بھی مل رہی ہیں کہ چین اور عرب امارات کے سرمایہ کار، وسیع پیمانے پر زرعی زمین خریدنے کے خواہش مند ہیں، لاکھوں ایکڑ زمین کی خریداری کے معاہدے پائپ لائن میں ہیں، اگر ایسا ہوا تو آنے والے برسوں میں ایک عام پاکستانی کے لیے خوراک کا حصول مشکل سے مشکل تر ہو جائے گا۔

ایک خوشحال معاشرے کی بنیاد رکھنے اور ملک میں حقیقی تبدیلی لانے کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ خوراک کی قیمتیں مناسب سطح پر لائی جائیں۔ مناسب اور معیاری خوراک کا حصول آسان بنایا جائے۔ غذائی اجناس کو محفوظ رکھنے کے لیے پیداواری علاقوں میں بڑے اور زیادہ گنجائش والے گودام تعمیر کیے جائیں کیونکہ ہر سال لاکھوں ٹن گندم کیڑا لگنے اور بھیگنے کے باعث خراب ہو جاتی ہے، فلور ملز مالکان یہی گندم خرید کر اس کا آٹا مارکیٹ میں فروخت کر دیتے ہیں جو پیٹ کی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ حکومتی اقدامات اپنی جگہ پر، لیکن ہمیں خود بھی خوراک کی اہمیت اور قدروقیمت کا احساس ہونا چاہئے۔ اس کا پہلا سبق پلیٹ میں کھانا نکالنے سے شروع ہوتا ہے۔ پلیٹ میں اتنا ہی کھانا نکالیں، جتنا آپ کھا سکتے ہیں۔ تھوڑا تھوڑا نکالئے، دوسروں کو بھی کھانا لینے کا موقع دیجئے، اس خوف سے کہ کھانا ختم ہو جائے گا، تقریبات میں اپنی پلیٹ بھر لینا مناسب نہیں، جس لقمے پر رازق نے آپ کا نام لکھ دیا ہے، وہ آپ تک ضرور پہنچے گا۔ بالفرض آپ مناسب طور پر کھانا نہیں کھا سکے، کھانا ختم ہو گیا اور آپ بھوکے رہ گئے، تو بھی یہ اطمینان رکھئے کہ آپ سے کھانا ضائع نہیں ہوا اور کسی دوسرے نے کھا لیا، آپ تو گھر جا کر بھی کھا سکتے ہیں۔

خوراک اور تندرستی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ مناسب اور معیاری خوراک، تندرستی کی ضمانت ہے۔ خوراک کا انتخاب کرتے وقت ہمیں یہ بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ ہم وہی خوراک استعمال کریں جو حفظان صحت کے مطابق ہو، عام بازاری کھانے ناقص تیل یا گھی میں پکائے جاتے ہیں، بڑے سے بڑے ہوٹل یا ریستوران کا مقصد زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنا ہے۔ مہنگی اور معیاری اشیاء استعمال کرنے سے نفع کم ہوتا ہے، لہٰذا ہر تجارتی ادارہ کم لاگت کا اصول اختیار کرتا ہے۔ یہی اصول ہوٹلز اور ریستوران والے بھی اختیار کرتے ہیں، چونکہ ان پر کسی ادارے کی نگاہ یا نگرانی نہیں ہوتی، نہ ہی کوئی ادارہ ان کا معیار چیک کرتا ہے، لہٰذا وہ معیاری اور غیرمعیاری کی بحث میں پڑے بغیر وہی اشیاء استعمال کرتے ہیں، جو کم لاگت کی ہوں۔ گوشت، تیل، مسالوں کا انتخاب کرنے میں وہ کلیتاً آزاد ہوتے ہیں۔ پھر ہم خود بھی گرم گرم سیخ کباب یا نہاری کا مزا اڑاتے ہوئے یہ سوچنے کا تکلف ہی نہیں کرتے کہ ہم کیا کھا رہے ہیں ،ہماری اسی بے پروائی نے یہ دن دکھائے ہیں کہ ’’کھوتا کڑاہی‘‘ جیسی اصطلاحیں عام ہو گئی ہیں۔

تازہ ترین